• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسرائیل، فلسطین جنگ اور ابو خان کی بکری۔۔افتخار گیلانی

اسرائیل، فلسطین جنگ اور ابو خان کی بکری۔۔افتخار گیلانی

اسرائیل کے ایک معروف کالم نویس گڈیون لیوی نے ایک بار وزیر اعظم ایہود براک سے جو 1999سے 2001تک اس عہدے پر فائز تھے، پوچھا کہ اگر وہ فلسطینیوں کی جگہ پر ہوتے، تو ان کے کیا احساسات ہوتے؟ براک نے برجستہ جواب دیا کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کے ممبر ہوتے۔ ان کے اس بیان نے اس وقت خاصا تنازعہ پیدا کر دیا تھا۔ یہودیوں کاکہنا تھا کہ انہوں نے فلسطینیوں کی عسکری تحریک کو جواز فراہم کردیا ہے، جبکہ فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے ان کی سبھی تنظیموں کو دہشت گرد وں کے کھاتے میں ڈال دیاہے۔ غزہ سے بس ایک میل کے فاصلے پر اسرائیل کا شہر نگار یعنی فلم سٹی سدیروت ہے۔ بارڈر پر ہونے کی وجہ سے غزہ سے آئے راکٹوں کا نشانہ بھی زیادہ یہی بنتا ہے۔

2004میں ان راکٹوں کی زد میں دو یہودی بچے چار سالہ آفک زھاوی اور دو سالہ ڈورت بنی سیان ہلاک ہوگئے تھے۔ان کی یاد میں اسرائیلی حکومت نے شہر کے مرکز میں ایک یادگار کے طور پر ان کے مجسمے نصب کئے ہیں اور باہر سے آنے والے صحافیوں اور دیگر وفود کو یہ جگہ دکھا کر باور کرایا جاتا ہے کہ فلسطینی کس قدر ظالم ہیں کہ وہ معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔ خیر مجھے یاد ہے کہ اس جگہ کا دورہ کرنے کے بعد ایک معمر خاتون کے ساتھ ہماری ملاقات کروائی گئی، جو بتایا گیا کہ آفک کی دادی ہے۔ غزہ شہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب وہ کئی سال قبل کے راکٹ حملوں اور اسکے پوتے کی موت کے بارے میں بتا رہی تھی، کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس نے کبھی سوچا ہے کہ اس جالی دار باڑ کے اس پار جب اسرائیلی فوج کی بمباری سے آفک کی ہی طرح کے شیر خوار بچے ہلاک ہوتے ہیں، تو ایسی ہی کسی دادی کا کلیجہ بھی شق ہوتا ہوگا؟ بڑی بی کچھ دیر تک تو سن ہوگئی۔ مگر پھر صحافیوں اور اسرائیلی افسران کے سامنے ہی حکومت کو کوسنے لگی اور بتایا کہ چند روز قبل بھی ہیلی کاپٹروں نے مشین گنوں سے غازہ میں کسی کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد کئی گھنٹوں تک اس شہر کی آبادی کو راکٹوں سے بچاو کیلئے بنائے گئے بنکروں میں رات گذارنی پڑی ۔ تل ابیب میں گڈیون لیوی مجھے بتا رہے تھے کہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی بڑی وجہ خود اسرائیلی سوسائٹی اور امریکہ کی بے جا پشت پناہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی دوستی بس ایسی ہی ہے، جو اپنے نشہ کے عادی دوست کو اسپتال میں بھرتی کروانے یا اسکا علاج کروانے کے بجائے اسکو مزید نشیلی چیزیں فراہم کروارہا ہو۔ نشہ کا عادی فرد تو خوش ہے مگر یہ کہاں کی دوستی ہے۔ اسرائیل کی مثال اس شخص کی ہے، جو طاقت کے نشہ میں چور ہے اور اسکو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں وہی قومیں زندہ و جاوید رہتی ہے جو جیو اور جینے دو کے فلسفہ پر عمل کرتی ہیں، ورنہ ان کا انجام نہایت ہی برا ہوتا ہے اور یہودیوں نے اس کا مزہ بھی چکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ اور واشنگٹن میں موجود یہودی لابی اسرائیل کی بقا کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو ایک طرح سے ایک خول میں بند کر کے رکھا ہوا ہے، جہاں اسکو صرف اپنی آوا زسنائی دیتی ہے۔ مزید اسرائیلی سوسائٹی ایک طرف فلسطینیوں کے حقوق سے ہی انکاری ہے، دوسری طرف خود کو ہی مظلوم ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اسرائیلی اسکولوں میں کچے اذہان کو عربوں اور مسلمانوں کے خلاف جس طرح نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے، اس سے شاید ہی مستقبل قریب میں کسی تصفیہ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ جس کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔ یروشلم شہر کے نواح میں لاٹرن کے مقام پر 1948میں اردنی افواج کے ساتھ خونریز معرکہ میں 586اسرائیلی فوجی مارے گئے تھے۔ اس جگہ پر پارک میںایک یادگار نصب ہے۔ ان کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا کہ پرائمری اسکول کے بچے اپنے استاد کے ساتھ قطار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ استاد انگریزی میں عربوں اور مسلمانوں کے خلاف نہایت ہی بلند ، جذباتی اور جوشیلے لہجے میں نفرت گھول رہا تھا۔ اس حد تک کہ ہمارے وفد میں ہی اسوقت دی ٹیلیگراف کے سفارتی مدیر کے پی نیر نے مداخلت کرکے اس استاد کو خوب ڈانٹا۔ اس کو بتایا کہ جنگ میں تو فریقین کا نقصان تو ہوتا ہی ہے، مگر اس نفرت کے ساتھ وہ کیسے جی سکیں گے۔

صحافی لیوی کا بھی کہنا تھا کہ اس نے ایک بار اپنے کالم میں تحریر کیا تھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کے مغربی کنارہ کے ایک شہر سے واپسی پر چیک پوسٹ پر ایک ایمبولینس اسرائیلی سیکورٹی دستوں کی کلیرنس کا انتظار کر رہی تھی۔ جب 45منٹ کے بعد بھی اسکیورٹی اہلکار اس ایمبولنس کو چیک کرنے کے بجائے اندر کمرے میں تاش کھیلنے میں محو رہے، تو اس نے اپنی گاڑی سے اتر کر پہلے ایمبولینس ڈرائیور سے باز پرس کی۔ اسنے کہا کہ یہ تو روز کا معمول ہے، یہ اہلکار اپنی مرضی سے گھنٹوں انتظار کروانے کے بعد گاڑی چیک کرنے کے بعد روانہ ہونے دیتے ہیں۔ پھر اسنے سیکورٹی اہلکاروں کے کمرے میں گھس کر ان سے سوال کیا کہ اگر اس ایمبولنس میں انکے والد یا کوئی قریبی رشتہ دار اسپتال میں بھرتی ہونے کیلئے جا رہا ہوتا، تو ان کا رویہ کیسا ہوتا؟ یہ سن کر انہوں نے اس اسرائیلی صحافی پر بندوقیں تان دیں،او رپوچھا کہ آیا اسنے کیسے یہودی اور فلسطینی کا موازنہ کیا؟جب اس نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے اس سلوک کو حیوانیت بتایا تو اگلے دن ان کے اخبار حارث کے دفتر پر حیوانوں کے حقوق کیلئے سرگرم کارکنوں نے حتجاج کیا۔ یعنی وہ فلسطینیوں کو حیوانوں کے برابر حقوق دینے کے بھی روادار نہیں تھے۔ خیر 11روز کی جارحیت نے نے غزہ کو ایک ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرکے 66 بچوں سمیت 248 افراد کو شہید تو کردیا، مگر ڈاکٹرذاکر حسین کی مشہور کہانی ابو خان کی بکری کی طرح ،متفقہ اعتراف ہے کہ حماس نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔ ذاکر حسین کی کہانی کے آخر میں بھیڑیے اور ابو خان کی بکری چاندنی کی رات جنگ میں بکری ہلاک ہوجاتی ہے۔ صبح ٹہنیوں پر بیٹھے پرندے بحث کر رہے ہوتے ہیں کہ اس جنگ میں کس کی فتح ہوئی۔ سبھی کہتے ہیں کہ بھیڑیے نے میدان مار لیا، مگر ایک جہاندیدہ اور معمر پرندے کا اصرار تھا کہ چاندنی جیت گئی۔ اس کی آزادی کی لگن اور اس پر قربان ہونے کی تڑپ کے علاوہ رات بھر اپنے ننھے سینگوں کے ساتھ بھیڑیے کے ساتھ معرکہ آرائی نے چاندنی کو فاتح بنالیا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے کالم نگار ڈیوڈ ہوروز کے مطابق اسرائیل لڑائی تو جیت گیا ، مگر جنگ ہار گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کے مطابق اسرائیل کو بڑی طاقتوں کی طرف سے جو سفارتی امداد ایسے اوقات میں مہیا ہوتی تھی، و ہ اس بار اس سے محروم تھا اور دنیا بھر میں اس کے خلاف ایک ماحول بن گیا تھا، جو اب کسی وقت یہودی مخالف رویہ اختیار کر سکتا ہے۔دوسری طرف نیا موڑ یہ تھا کہ اسرائیل میں آباد عرب آبادی بھی اس بار اس ظلم کے خلاف کھڑی ہوگئی۔ ماضی میں یہ 23فیصد عرب اسرائیلی آبادی فلسطینی تنازعہ سے خود کو لاتعلق رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور خاص بات یہ رہی کہ سوشل میڈیا کی بدولت یورپ اور امریکہ میں رائے عامہ خاصی حد تک اسرائیل کے خلاف منظم ہوگئی۔ امریکہ میں مقیم یہودی آبادی کے ایک طبقہ نے بھی اس قتل و غارت کے خلاف آواز بلند کی۔ دوسری طرف ترکی کی پر جوش سفارت کاری اور روس و ایران کی پس پردہ دھمکیوں نے بھی اپنا اثر دکھا کر اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کروادیا۔ روس نے لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ کو اسرائیل کے خلاف محاذ کھولنے سے باز رکھا ہوا تھا۔ مگر بتایا جاتا ہے آئس لینڈ میں منعقد آرکٹک کونسل کی میٹنگ کے دوران روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن کو بتایا کہ وہ اب مزید ایران کوحزب اللہ کو اسرائیل پر راکٹ حملوں سے باز نہیں رکھ سکے گا۔ اور اگر غزہ کی طرز پر اسرائیل نے ان حملوں کے جواب میں فضائی حملے کئے، تو روس شام اور لبنان کو فضائی کور فراہم کردیگا۔ روس کی یہ دھمکی خاصی کار گر ثابت ہوئی۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اس دوران کئی بار اپنے روسی ہم منصب پوٹن سے فون پر بات کرکے ا ن سے مداخلت کی اپیل کی تھی۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے مڈل ایسٹ شعبہ کے انچارج شالوم لیپنی کے مطابق اسرائیل کو جلد ہی فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کردینا چاہئے، تاکہ حماس کی مقبولیت کو لگام دی جاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے اسرائیل اور کئی عرب ممالک کی طرف سے فلسطینی ایشو کو پس پشت ڈالنے کی جو کوششیش ہو رہی تھی، وہ ناکام ہوگئی ہے اور بتایا ہے کہ یہ قضیہ کو حل کئے بنا شاید ہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply