• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان میں دیگر اندیشی سے جڑے خطرات و خدشات۔۔قیصر عباس فاطمی

پاکستان میں دیگر اندیشی سے جڑے خطرات و خدشات۔۔قیصر عباس فاطمی

پاکستان میں رہتے ہوئے آزادی  ء اظہارِ  رائے اور آزادی  ء انتخاب مذہب وغیرہ کی مناسبت سے دلائے جانے والے خوف اور تصویر کا دوسرا رخ!

ا۔ مار دیے جانے کا خوف:

یہ بات سچ ہے کہ پاکستانی عوام میں صبرو تحمل اور رواداری بالکل ناپید ہو چکی ہے۔ دوسروں کی بات سننا، جاننا یا سمجھنا اور بات کے مقابلے بات کرنا یہاں کا رواج نہیں۔ بلکہ اگر کوئی انسان آپ سے کسی طرح بھی قابو نہیں آ رہا تو اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دیں۔ آگے عوام جانے اور وہ! مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ پاکستان میں آپ کی جان یوں بھی خطرے سے باہر نہیں۔ آئے دن ،دن دیہاڑے چوک چوراہوں پر معصوم لوگ قتل ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نہ  تو قصور وار ہوتے ہیں نہ  ہی ان پر ایسا کوئی الزام ہوتا ہے۔ یعنی موت کو آپ ویسے بھی خود سے دور نہ سمجھیں، بس فرق اتنا ہے کہ بغیر قصور یا الزام کے آپ کو دو چار لوگ مار کر چلے جائیں گے، اور اگر آپ پر کوئی الزام ہے یا آپ قصور وار ہیں تو عوام کا جم غفیر آپ کی روح قبض کرے گا۔

2۔ دوسرا خوف اپنے رفقاء و اقربا سے دوری:

آپ کسی غیر معروف یا کم عام سوچ کے حامل ہیں، اور رائج نظام و فکر سے اختلاف رکھتے ہیں تو خود کو اکیلا ہی سمجھیں۔ زیادہ تر قریبی لوگ قطعہ تعلق پر اُتر آئیں گے۔ مگر اس میں بھی ڈرنے کی بات نہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی اخبار اٹھائیں ، کلاسیفایڈ ایڈز پر نظر ڈالیں آپ کو درجنوں اشتہار نظر آئیں گے جس میں والدین اپنی ہی اولاد سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا اولاد اور والدین کا رشتہ کبھی ختم ہو سکتا ہے؟ اگر اس سماج میں ایسا ممکن ہے تو کوئی بھی رشتہ کہیں پر بھی ختم ہو سکتا ہے۔

3۔ سماجی حیثیت کے تعین کا خوف:

یہ بہت اہم پہلو ہے۔ سوشل سٹیٹس فکری زنجیر ہے۔ آپ کو بولنے اور سوچنے سے پہلے یہ “سوچنا” پڑتا ہے کہ اس کے بعد سماج میں آپ کو کیسا سمجھا جائے گا۔ شادی بیاہ، کفن دفن، اٹھنا   بیٹھنا ، بات چیت، الغرض زندگی کے تمام امور میں آپ عمومی سوچ رکھنے والوں سے الگ نہیں رہ سکتے، ان کے ساتھ اور ان کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ ایسا لوگ کہتے ہیں! مگر اس میں بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یوں تو عام طور بھی سب کے سب لوگ آپ سے کبھی متفق نہیں ہوتے ،اس لیے آپ اپنی خوشی اور غم کے موقعوں پر کبھی بھی سب ہی لوگوں کو اکٹھا نہیں کر سکتے۔ اگر یہ شرح تھوڑی اور کم ہو جائے تو کیا حرج ہے؟ اور ویسے بھی یہ سب رسم و رواج کیسے بنے؟ ایک سماج دوسرے سے الگ کیوں ہے؟ کہیں پر کسی نے اختلاف تو کیا ہے۔

4۔ طعنے:

یہ آخری خوف ہے۔ جس کا سامنا کرنے کے لیے مضبوط اعصاب چاہئیں  ۔ ۔اور خاموشی کافی ہے۔ کیونکہ لوگ آپ کو ایجنٹ، پاگل، غدار، کم عقل وغیرہ کہیں گے۔ یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ سچ کو پہلے مرحلے میں گالی گلوچ کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال، ضروری نہیں کہ آپ یوں بھی اس گالم گلوچ اور طعنہ زنی سے بچ کر رہیں۔ اس سب کا بھی ہمارے سماج سے قدیم اور گہرا رشتہ ہے۔

تو میرے ہم فکر اور مخالف فکر ساتھیو! یہ ہمارا سماج خوف کے حصار میں ہے۔ اس میں نہ تو میں کھل کر سانس لے سکتا ہوں  نہ   آپ اپنی حد سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ کیا ہم اس سماج میں آسانی پیدا کر سکتے ہیں؟ کیا خوب ہو اگر ہم آزاد ہو جائیں، سانس لینے میں آزاد، سوچنے میں آزاد، بات کرنے میں آزاد اور اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے میں آزاد۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا خوب ہو کہ ہماری سوچ کی بنیاد دلیل ہو، نہ  کہ خوف! اور کیا خوب ہو کہ ہم دلیل کا مقابلہ دلیل سے کریں نہ  کہ خوف مسلط کر کہ۔۔
اور کیا خوب ہو کہ ہمارے رشتے ، دوستی اور محبت غیر مشروط ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply