طاقت ہی آزادی کی ضمانت ہے۔۔ادریس آزاد

اقبالؒ کے نزدیک تقدیر سب کے لیے نہیں ہوتی۔ یہ متغیر مقدار ہے جو آزادی اور غلامی کے قطبین کے مابین سفر کرتی ہے۔غلاموں کی تقدیر ہوتی ہے مگر احرار کی نہیں۔ احرار کے پاس اختیار ہوتاہے جو تقدیر کے برعکس ایک اور قوتِ عمل ہے۔ افراد اور اقوام۔۔ ۔۔ ہردو سطحات پر جبر و اختیار کا گہرا تعلق۔۔ ۔۔ حریت و بندگی کے ساتھ ہے۔

سوال یہ ہے کہ حریت یا آزادی کس چڑیا کا نام ہے؟ دراصل آزادی کی حدود کا تعین ہی بنیادی مسئلہ ہے جو حکمائے عالم سے آج تک کماحقہُ حل نہیں ہوپایا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہر کسی کا ہر عمل اپنی اپنی جگہ پر جسٹفائیڈ ہے۔ کوئی بھی اپنے فریم آف ریفرینس سے غلط نہیں کررہا ہوتا۔ یہ بات لاجیکل ہے۔ جیل کے ہر قیدی کے پاس ایک جواز ہے، ایک کہانی ہے جو باعث بنتی ہے اس کے مجرم ہونے کا۔
اقبالؒ کے ہی بقول ، سکندر جب ایک بحری قزاق کو طلب کرتا اور اس کے جرائم کی سزا سنانا چاہتا ہے تو قزاق اُسے یوں جواب دیتاہے،
ترا پیشہ ہے سفاکی ، مرا پیشہ ہے سفاکی
کہ ہم قزاق ہیں دونوں ، تو میدانی ، میں دریائی

جب ایکٹ آف گاڈ جسٹیفائیڈ نہیں ہے تو ایکٹ آف مین کیسے جسٹیفائیڈ ہوسکتاہے؟ چنانچہ آزادی کی حدود کا تعین ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک ہی پیمانہ ہے جو زبردستی ان حدود کو متعین رکھتاہے اور وہ ہے “طاقت”۔ علامہ مشرقیؒ اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ قوم طاقت کے حصول کی خاطر لڑمرے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اخلاقیات طاقت ور کے گھر کی لونڈی ہے۔ علامہ اقباؒل اپنے خطبات میں فرماتے ہیں،
“آزادی خیر کی شرطِ اوّلین ہے”

فلہذا طاقتور جو کہ “ظاہر و حاضر” زمانہ میں سب سے زیادہ آزاد ہوتاہے خیر کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا اہل بھی سب سے زیادہ ہوتاہے۔ اُسی کی اخلاقیات ہی منطقی اعتبار سے ایک صحت مند ذہن کی اخلاقیات ہوسکتی ہے۔ اُسی کے پاس سب سے زیادہ آزادی ہے اور اسی کو سب سے زیادہ سوچنے اور سمجھنے کا موقع میسر ہے۔اس بات کا فیصلہ وقت کرتاہے کہ اس کی اخلاقیات فی الواقعہ انسانیت کے لیے مضر ثابت ہوئی یا مفید۔ غرض طاقتور ہونا یا ہوجانا ہی دراصل آزاد ہونے اور ہوجانے کے مترادف ہوگا۔ جتنی طاقت اُتنی آزادی۔ اب اگر آج ہم ویسے آزاد نہیں ہیں جیسی دنیا کی دیگر اقوام آزاد ہیں تواس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اُتنے طاقتور نہیں ہیں اور فی زمانہ طاقت کے حصول کے لیے فقط ’’تیل‘‘ والے ملکوں پر قبضہ کرلینا ہی کافی نہ ہوگا بلکہ اُس سے پہلے تیل استعمال کرنا آنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مطلب یہ کہ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزرفتار ترقی کرنا ہوگی۔ بقول مراد سواتی ہمیں تبلیغی جماعت والے چھ نمبروں کی طرح فزکس اور اس کے تصورات کو عام کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply