آغا صاحب ۔۔اسماء ظفر

میرے بچپن کا زیادہ تر حصہ ننھیال میں گزرا، میری نانی نے مجھے سات دن کی عمر میں گود لے لیا تھا یا شاید انہیں مجھے گود لینا پڑا، وجہ میرے امی اور ابو کی گورنمنٹ جاب تھی ،جہاں میں اٹک گئی تھی خیر یہ دوسرا قصہ ہے پھر کبھی سہی ۔۔

نانی جس محلے میں رہائش پذیر تھیں وہاں نانی کے دو بھائی بہن بھی رہائش پذیر تھے، سامنے والے گھر میں ماموں شبیر الحسن اور نانی کے برابر والے گھر میں نانی کی بڑی بہن خالہ عاشیہ ۔
خالہ تو مجھے یاد نہیں مگر اس گھر میں انکے بیٹے کی فیملی رہتی تھی انکے گھر ہم دن کے کسی بھی وقت دھمک جاتے تھے، انکے صحن کا بڑا سا جامن کا درخت مجھے آج بھی یاد آتا ہے، جس کے رسیلے جامن ہم مزے لے کر کھاتے تھے ۔

تو ذکر کرنا تھا ان کا جنہیں ہم آغا صاحب کہتے تھے، وہ نانی کے مذکورہ بھانجے کے گھر اکثر آیا کرتے تھے ،دبلے پتلے لمبے قد کے آغا صاحب  ہمیشہ سفید تہہ بند ،سفید کُرتے میں   ملبوس ہوتے تھے، سر پر ٹوپی کندھے پر شلوکا ( چار خانے والا کپڑا جو اب بھی اکثر علما  اپنے سر پر لپیٹتے ہیں )۔

آغا صاحب نہایت ہی کم گو شخص تھے زیادہ تر روزے سے ہوتے تھے اور ہم بچوں سے اکثر بعد از مغرب ہی مخاطب ہوتے تھے ،میرا اور انکا کیا رشتہ تھا اور کیسے بنا یہ بڑی دلچسپ کہانی ہے ۔

ایک بار میرے ماموں( یعنی نانی کے بھانجے جن کے گھر آغا صاحب اکثر مہمان ہوتے تھے ) انکی سونے کی شاپ پر صدر میں کچھ سونے کے زیور چوری ہوگئے ،میں انکے صحن میں کھیل رہی تھی، اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ اندر لمبے کمرے میں جو بیک وقت ڈرائنگ روم اور بیٹھک کا کام دیتا تھا، وہاں فیملی کے بڑے لوگوں کی میٹنگ جاری تھی، بیچ میں بیٹھے تھے آغا صاحب۔۔ ہمارا شور سن کر ماموں کی بڑی بیٹی شہناز باجی نے ڈانٹا کہ چپ ہو جاؤ ،گھر میں سب بہت پریشان ہیں ،تمھیں ڈانٹ پڑ جائے گی ۔ اچانک اندر سے ماموں کی آواز آئی اسماء یہاں اندر آؤ ۔۔۔ہم سمجھے کہ آگئی  شامت ،ڈرتے ڈرتے اندر گئے تو آغا صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے تمھیں لونا نے بلایا ہے ۔ ہائیں یہ لونا کون ؟؟ وہاں تو ماموں ممانی اور آغا صاحب ہی بیٹھے تھے لونا کہاں ہے ؟

انہوں نے مجھ سے کہا یہاں بیٹھو دیوار کی طرف منہ کرکے اور آنکھیں بند رکھنا کھولنا نہیں جب تک میں نہ  کہوں ۔۔

ہم چپ چاپ آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئے۔ اس وقت میری عمر قریباً دس برس ہوگی ۔ آغا صاحب نے اپنی تین انگلیاں میرے سر پر جما دیں ، اور کچھ پڑھنا شروع ہوئے کچھ دیر بعد بولے کیا نظر آرہا ہے،؟  ہم چڑ کر بولے آنکھیں تو بند ہیں کیا نظر آئے گا۔۔ وہ بولے تھوڑا غور کرو واقعی سامنے تو آغا صاحب نظر آرہے تھے ،ہم چیخے یہ تو آپ ہیں ،بولے ہاں میں تو ہوں، مگر میرے دائیں کندھے پر کون ہے ؟ وہاں ایک لمبے سر والا اور لمبوترے سے چہرے والا ہرے رنگ کا بونا بیٹھا تھا۔

اب جو یہ عجیب سی مخلوق دیکھی تو تھوڑا ڈر لگا مگر آغا صاحب کو دیکھ کر تسلی بھی تھی ۔ یوں سمجھ لیں ایسا منظر تھا جیسے پرانے وقتوں میں گلی محلے میں پردا لگا کر پروجیکٹر سے فلم چلائی جاتی تھی، بیاہ شادی میں اکثر مجھے اس وقت ایسا ہی محسوس ہورہا تھا کہ کوئی فلم چل رہی  ہے۔

اب آغا صاحب نے کہا رفیع صاحب ( نانی کے بھانجے ) کے زیورات کون لے گیا لونا، ذرا بچی کو اسکے پاس تو لے جاؤ ( یہ واضح  کردوں کہ میں نے اپنے ان رشتے کے ماموں کی نہ  کبھی شاپ دیکھی تھی ،نہ  ہی انکے ملازمین سے واقف تھی) اب لونا صاحب ایک طرف گئے ،سامنے ایک سونے کے زیورات سے بھری دکان اور ایک بیس بائیس سال کا لڑکا جو شوکیس صاف کررہا ہے اور جیب میں کچھ زیور ڈال رہا ہے، آغا صاحب نے پوچھا کچھ دکھائی دیا ؟ (اس سارے عرصے  میں میرے سر پر انکی تین انگلیاں مسلسل رکھی ہوئی تھیں )۔

میں نے جو دکھائی دیا سب بتادیا، ماموں نے بیتابی سے لڑکے کا حلیہ پھر پوچھا اور دکان کا نقشہ بھی، جو میں نے من وعن بیان کردیا ،اب آغا صاحب نے مجھ سے کہا آنکھیں کھول لو ،مگر بیٹھی رہنا، اٹھنا نہیں ۔۔میں نے پٹ سے آنکھیں کھول لیں  ۔

جب مڑی تو ماموں کی آنکھوں میں جھلملاہٹ سی دکھائی دی، انہوں نے آغا صاحب سے کہا دکان کا نقشہ بالکل درست بتاہا ہے اور جس حلیے کا لڑکا بتایا ،ایسا ایک لڑکا دکان پر کام کرتا ہے اور انہیں بھی اس پر شک تھا ،خیر ہم پر آغا صاحب نے کچھ پڑھ کر دم کیا اور کہا جاؤ کھیلو ۔

میں نے گھر جاکر نانی کو خوشی خوشی ساری بات گوش گزار کر دی ،میں سمجھی اس کارنامے پر نانی بڑا فخر کریں گی نواسی پر، مگر یہاں تو الٹا نظارہ تھا پہلے تو ہمیں گُھرکا کہ کیوں راضی ہوئی ،پھر خود ہی بولیں ارے تمہارا کیا قصور۔۔ پھر اپنے اور ماموں رفیع کے گھر کی مشترکہ دیوار میں بنی کھڑکی سے ممانی کو آواز دی ۔ رفیع کی دلہن ذرا ادھر آؤ  بات سنو ۔۔۔

ممانی ادھر سے بولی جی چھوٹی خالہ جان کیا ہوا۔۔ نانی نے ان سے سارا واقعہ پوچھا، اقرار پر ناراض ہوکر کہا ،کیا اجازت ضروری نہیں سمجھی تم نے ہم سے؟۔۔ لے کر بچی کو بٹھا دیا آغا صاحب کے سامنے، ممانی بے چاری شرمندہ سی وضاحتیں دیتی رہیں، خیر نانی نے مجھے انگلی دکھا کر کہا دیکھو بٹیا اب نہ بیٹھنا ایسے عملیات کے لیے، وہاں آغا صاحب کے قبضے میں موکل ہیں وہ تم پر حاوی ہوجائیں گے ۔ ۔ ہائیں یہ موکل کیا چیز ہیں ؟ اپنے چھوٹے سے دماغ پر کافی زور ڈالا پھر سوچا چھوڑو ہونگے کوئی اور کھیل میں لگ گئے ۔۔

دو تین روز بعد رفیع ماموں نانی کے پاس آئے اور خوشی خوشی بولے چھوٹی خالہ جان ہمارا سامان برآمد ہوگیا، لڑکے نے سب اُگل دیا اور چوری کا مال بھی دے دیا ،بس پرانا لڑکا تھا تو میں نے پولیس کو نہیں دیا ،معاف کردیا ۔۔اسماء نے تو کمال کردیا ،اس سے پہلے کہ ہم خوشی سے پھولتے ،نانی نے خشک لہجے میں ماموں سے کہا ،محمد رفیع اب تو ہوگیا ،مگر آئندہ   بچی سے ایسا کچھ مت  کروانا ۔یہ مجھے ٹھیک نہیں لگا، ماموں نے کہا ،ارے چھوٹی خالہ جان کچھ نہیں ہوتا ،میں ساتھ بیٹھا تھا، یہ تو کرامات ہیں آغا صاحب کی، خیر بات ختم ہوگئی ۔۔

کوئی ایک ڈیڑھ ماہ بعد مجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ کب میرے سگے چھوٹے ماموں سعودی عرب سے چھٹیوں پر پاکستان آئے، جب انکی شادی نہیں ہوئی تھی ،وہ میری نانی نانا کے بے حد لاڈلے تھے ماموں کا آنا مانو ہماری عید ہوتا تھا۔

خیر چھوٹے ماموں کے آنے کے دو ایک دن بعد باتوں باتوں میں آغا صاحب کا ذکر امی نے ان سے کیا، ماموں اچھل پڑے اور امی سے بولے آپا میں انہیں جانتا ہوں وہ بھابی ( رفیع ماموں کی وائف) کے بھائی کے واقف کار ہیں اور پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں ایک بار انکے گھر میری ان سے ملاقات ہوچکی ہے ،نانی نے ماموں سے کہا وہ کوئی جادو ٹونا کرنے والے لگتے ہیں ،ماموں ہنسے اور بولے، نہیں امی وہ حقیقتاً جنات کو قابو میں رکھنے کا عمل جانتے ہیں ،بھابی کے گھر اس لیے آکر بیٹھ جاتے ہیں کہ کوئی اس جگہ سے واقف نہیں ،انہیں پولیس والے بہت تنگ کرتے ہیں دو ایک بڑے ڈاکے میں ملوث چور ڈاکو پکڑوا چکے ہیں، تو اب پولیس انہیں ڈھونڈ کر لے جاتی ہے مگر وہ ان سب چیزوں سے بھاگتے ہیں ۔

خیر ماموں نے برابر میں کہلوا بھیجا کہ جب آغا صاحب آئیں تو انہیں بتا دیا جائے وہ ملنا چاہتے ہیں ۔

ماموں کے آنے کے کوئی ایک دو ہفتے بعد ماموں کا چھوٹا بیٹا محمد احمد گھر آیا اور نانی سے بولا دادی آغا صاحب آئے ہیں چھوٹے چاچا کو بھیج دیں، ماموں تو پہلے ہی بے تاب تھے مجھے چلنے کا اشارہ کرکے اٹھے تو نانی پیچھے سے چیخیں، ارے ننھی تم کہاں چلی ؟ ماموں بولے امی میرے ساتھ جارہی ہے ساتھ لے آؤں گا، نانی کی چھوٹے ماموں کے آگے کیا چلتی وہ میرا ہاتھ پکڑ کے یہ جا وہ جا ۔ ۔

رفیع ماموں کے گھر ہم تو لگ گئے کھیل کود میں، اندر جانے کیا گفتگو ہوئی کہ مجھے اندر طلب کرلیا گیا، وہاں پھر ہمیں دیوار کی طرف منہ کرکے بیٹھنے کا کہا گیا ،ہم نے ڈرتے ڈرتے ماموں کو دیکھا تو انہوں نے اشارے سے بیٹھنے کو کہا، ہم جھٹ آنکھیں میچے بیٹھ گئے ۔۔اب لونا کے بجائے کوئی اور تھا عجیب لجلجا سا گول سے منہ والا اسوقت میں اسکا نام بالکل بھول چکی ہوں ۔🙁

بہرحال اب سوال ماموں پوچھ رہے تھے کہ کہاں ہو میں نے کہا ایک بڑا سا گول کمرہ ہے جیسے آفس کوئی بڑی سی میز کے پیچھے کرسی پر ایک آدمی بیٹھا ہے ،جسکی صرف بیچ میں ڈاڑھی ہے، منی سی ( فرنچ کٹ) وہ آدھے سر سے گنجا ہے ماموں نے کہا پوچھو یہ نوکری ظفر احمد( چھوٹے ماموں بھی ابو کے ہم نام ہیں ) کو ملے گی یا نہیں ،اس آدمی نے پہلے اقرار پھر انکار میں سر ہلایا۔۔ بس یہ بات یہیں ختم ہوئی اور ہم اٹھ کر بھاگ لیے ۔ یہ دراصل ماموں کی جرمنی کی جاب کا معاملہ تھا جہاں انہوں نے اپنے ڈاکیومنٹس بھیجے ہوئے تھے اور آئندہ آنے والے مہینوں میں اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی کہ ماموں کی جاب تو وہاں اوکے ہوگئی مگر کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کا مجھے علم نہیں کہ ماموں وہاں جا نہ سکے ۔

اب ہمیں اجازت مل گئی نانی سے ۔۔اکثر میں آغا صاحب کی مدد کرنے انکی چیلی بنی رفیع ماموں کے گھر جاتی تھی ،اچھا یہ بات نہیں کہ وہ صرف مجھ سے یہ کام کرواتے تھے ماموں کا ایک بیٹا جو ان دنوں قرآن حفظ کررہا تھا وہ بھی انکے لیے یہ کام کردیتا تھا مگر اسکی اکثر بتائی باتیں غلط ہوجاتی تھیں، اسکے علاوہ ایک محلے کی لڑکی بھی اس کام کے لیے آغا صاحب کی مدد کرتی تھی مگر اسکی بھی کچھ بتائی باتیں درست نہیں ہوتی تھیں ،تو آغا صاحب کا اعتماد مجھ پر بہت تھا باقی بچے کچھ نہ دکھائی دینے پر بھی جھوٹ بول دیا کرتے تھے ۔

آغا صاحب انعام کے طور پر اکثر مجھے سمندر کے اندر جل پریوں سے بھی ملواتے تھے اب یہ حقیقت تھی یا میرا تخیلاتی دماغ، نہیں پتہ۔۔ مگر میں نے ان جل پریوں کے ساتھ ڈبکیاں بھی لگائیں  اور سمندر کے اندر بیٹھ کر سیب بھی کھائے، بقول میری ممانی اسکا تو باقائدہ منہ بھی چلتا ہے کھاتے ہوئے ۔😄

خیر یہ سلسلہ بہت عرصے چلا ۔ایک بار میرے کسی امتحان میں نمبر کم آئے ہماری امی اس بات پر بڑی سیخ پا  تھیں چونکہ امی کے ہی  سکول میں زیرتعلیم تھے تو امی نے ہماری استانیوں سے اس بات پر ڈسکس کیا  ۔۔تو انہوں نے کہا ٹیسٹ میں تو پورے نمبرز تھے کچھ ماہ سے دماغ کہیں اور لگا رہتا ہے ،یاد کی ہوئی چیز بھی بعد میں بھول جاتی ہےم، اب شروع ہوئی امی کی تحقیقات، امی نے کسی ٹیچر سے ایسے ہی آغا صاحب اور میرا تمام قصہ بیان کیا، وہ امی سے بولی کہ بھئی ان عامل صاحب نے بچی کا دماغ قابو کرلیا ہے ،یہ کہیں کی نہیں رہے گی اور دماغ کمزور ہوتا جائے گا ،بس امی کو یہ بات لگ گئی۔۔

سب سے پہلے میرا ماموں کے گھر جانا بند ہوا پھر آغا صاحب کے بلوانے پر بہانہ کہ گھر میں نہیں ہے سو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ ایک دن دوپہر میں نانی نے کچھ پکا کر رفیع ماموں کے گھر میرے ہاتھ بھیجا ،وہاں آغا صاحب بھی بیٹھے تھے، وہ مراقبے میں تھے آنکھیں بند سر جھکا ہوا، ممانی کچن میں تھیں، میں وہاں چلی گئں، وہ بولی آغا صاحب بلاتے ہیں تو آتی کیوں نہیں، میں نے کچھ نہیں بولا۔۔ جب پلیٹ لے کر کمرے کے پاس سے گزری تو آغا صاحب ممانی سے بولے بیٹی اسکی والدہ کو کسی نے منع کردیا ہے ،اب تم اصرار نہ  کرو ۔۔میں نے گھر آکر امی کو یہ بات بتائی تو امی حیران رہ گئیں کیونکہ یہ بات صرف امی کو پتہ تھی۔۔

بہرحال دن گزرتے ر ہے، ہم پڑھائی میں جت گئے اور آغا صاحب کا آنا بھی ماموں کے گھر بہت کم ہوگیا، اب وہ مہینوں میں کبھی آتے، پھر ماموں نے اپنا نیا گھر بنوایا تو نانی کے پڑوس والا گھر بیچ دیا پھر خبر نہیں ہوئی آغا صاحب کی ۔ایک بار چھوٹے ماموں نے ان سے پوچھا تو بتایا کہ سالوں ہوگئے آغا صاحب کی کوئی خبر نہیں ۔

ایک بار میرے منجھلے ماموں کے کسی جاننے والے نے انہیں بتایا کہ انہوں نے آغا صاحب کو پنجاب کے کسی دور افتادہ گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد میں دیکھا تھا مگر وہ مراقبے میں تھے تو بات نہ  ہوسکی، بس وہ آخری اطلاع تھی انکے بارے میں ،پھر انکا کچھ پتہ نہ  چل سکا، اب نجانے  حیات بھی ہیں کہ نہیں، جب میں دس گیارہ برس کی تھی جب وہ کوئی ستر کے پیٹے میں تھے اب اتنے طویل عرصے میں مجھے تو نہیں یقین کہ حیات ہونگے  ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ میری زندگی کا ایک عجیب پراسرار باب ہے آج بھی مجھے لونا اور لجلجے گول منہ والی مخلوق یاد آتی ہے اور وہ جل پریاں بھی جانے وہ سب کون تھے اور انکی کیا حقیقت تھی ،آج بھی سمجھنے سے قاصر ہوں ۔یہ پوسٹ لکھتے ہوئے اتنے برسوں بعد مجھے اپنے سر پر آغا صاحب کی تین انگلیوں کا دباؤ  واضح  محسوس ہورہا ہے، شاید یہ میرا وہم ہے، جو مجھے ان واقعات کو دہراتے ہوئے حقیقت میں محسوس ہورہا ہے وللہ اعلم ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply