چھجو کا چوبارہ۔۔طلحہ شفیق

چھجو کا چوبارہ
نا بلخ نہ بخارے
جو سُکھ چھجو دے چوبارے
یہ کہاوت صدیوں سے اہل لاہور کی زبانوں پر ہے۔ جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ سارے جہاں میں لاہور جیسا دوجا کوئی شہر نہیں۔ البتہ اس میں مخصوص ایک چوبارے کا ذکر ہے جو کہ چھجو بھگت کا تھا۔ خیرت انگیز طور پر اس چوبارے کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ اس چوبارے کا بچ جانے والا کمرہ یا چھجو بھگت کی سمادھ میو ہسپتال میں شمس شہاب الدین صحت گاہ میں واقع ہے۔

چھجو بھگت کی پیدائش سے متعلق کوئی خاص معلومات موجود نہیں۔ حتی کہ عہد کے متعلق بھی متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض سوانح نگاروں کے مطابق چھجو بھگت اکبر یا جہانگیر بادشاہ کے دور میں پیدا ہوئے۔ جبکہ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر افضل خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ چھجو کا تعلق عہد شاہجہانی سے ہے۔ اگر چھجو بھگت سے منسوب واقعات کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چھجو نے ان سب بادشاہوں کا زمانہ پایا ہے۔ اس مشہور و معروف چوبارے کا تذکرہ تو سہہ مورخین لاہور کے ہاں ملتا ہے البتہ چھجو کے حالات زندگی کے حوالے سے مختصر معلومات فقط سید محمد لطیف نے درج کی ہے۔ سید صاحب لکھتے ہیں کہ چھجو “لاہور کا رہنے والا تھا۔ ذات کا بھاٹیہ تھا۔ وہ ایک صراف تھا لیکن اسے فقیروں کی صحبت سے بڑی رغبت تھی۔ آخرکار دنیا سے قطع تعلق کرنے کے بعد اس نے بقیہ زندگی کو عبادت و ریاضت کے لیے وقف کردیا”۔ بزم اردو کی مرتب کردہ لاہور گائڈ میں مزید یہ بھی ییان کیا گیا ہے کہ چھجو بھگت کی زندگی میں انقلاب حضرت میاں میر, حضرت شاہ بلاول اور حضرت میاں وڈا کے فیض صحبت سے آیا۔ نیز آپ کی ان بزرگوں سے گہری دوستی تھی۔ نور احمد چشتی کا بھی بیان ہے کہ چھجو بھگت، جناب میاں میر اور کانہہ بھگت میں بڑی محبت تھی۔

چھجو بھگت سے بہت سی کرامات بھی منسوب ہیں جن میں کچھ تو وہ ہیں جو تقریباً ہر مذہب کے رشی و بزرگ سے منسوب ہیں۔ البتہ بعض متفرق خوارق کا تفصیلی احوال تحقیقات چشتی میں موجود ہے۔ مثلاً ایک مرتبہ مغل درباری آپ کے پاس اشرفیاں پرکھوانے آیا۔ اس کی گنتی شدہ اشرفیوں میں سے ایک اشرفی اس کی بیوی نے چُرا لی تھی تو اس نے اس کمی کا الزام آپ پر لگایا اور آپ کو چابک رسید کیے۔ مگر گھر پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی کو غیب سے چابک پڑ رہے ہیں۔ تب اس نے جانا کہ چھجو جی, صَاحِب کَمال ہیں۔ اسی طرح ایک مرتبہ آپ نے ایک مجبور و بے کس عورت کو کھوٹے سکے کے کھرے دام دیے تو بازار کے لوگوں نے آپ کا مذاق اڑایا۔ بعد ازاں جب انہوں نے ان کا معائنہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ کھرے سکوں میں بدل چکے ہیں۔ آپ سے منسوب ایک اور معروف کرامت یہ ہے کہ آپ نے ایک عورت کو بغیر کہیں لے جائے گنگا کی سیر کروائی تھی یا آپ نے گنگا جاری کی تھی۔ کہنیالال ہندی نے بیان کیا ہے کہ چوبارے پر موجود کنوؤں کے پانی کو لوگ متبرک خیال کرتے ہیں۔ اشنان اور پینے کے علاوہ اسے آنکھوں اور منہ پر لگاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس چاہ کے پانی کو گنگا جل ہی مانتے ہیں۔

یہ بھی معروف ہے کہ چھجو بھگت کی موت واقع نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ وہ غائب ہوگئے تھے۔ صاحب تحقیقات چشتی لکھتے ہیں “ایک روز بتاریخ نوی ودی وہ اپنے چوبارہ میں چلے گے اور دروازہ بند کرلیا اور وہاں ہی سما گے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ کہاں گئے اور سال وفات چھجو صاحب کا سمت بکرما جیتی سولہ سو چھیانوے مطابق سن ایک ہزار باون ہجری ہے”۔ مگر چشتی صاحب کا ہی بیان ہے “چھجو صاحب کے گدی نشین کے بقول آپ بعہد شاہجہان بادشاہ زندہ تھے۔”

سید لطیف نے آپ کی سن وفات ١٦۹٦ سمبت بمطابق ١٦١۰ء درج کی ہے۔ زیادہ تر کتب میں سن وفات ١۰٥۲ھ درج ہے لیکن اختلاف موجود ہے۔ اسی طرح چھجو بھگت کی سمادھ کا محل وقوع بھی واضح نہیں۔ چشتی صاحب کا کہنا ہے کہ جہاں سے چھجو غائب ہوا وہاں سمادھ ہے, کہنیالال کا بیان ہے جہاں اس کی سمادھ ہے وہاں اس کی دکان تھی, سید لطیف کہتے ہیں سمادھ سنگ مرمر کی تعمیر ہوئی, نقوش لاہور نمبر میں درج ہے میو ہسپتال کے بڑے دروازے کے قریب سمادھ ہے جبکہ اسی مضمون کہ آخر میں لکھا ہوا ہے یہ سمادھ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے احاطے میں ہے۔ ڈاکٹر انجم رحمانی, ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور بیشتر کا خیال ہے کہ جو کمرہ اب موجود ہے (جس کی تصاویر ذیل میں ہیں) یہاں سے ہی چھجو غائب ہوا اور یہی اس کی سمادھ ہے۔ سید لطیف نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ چھجو بھگت یک منزلہ کمرے میں ریاضت کیا کرتا تھا۔ مگر بزم اردو کی مرتب کردہ لاہور گائڈ کا بیان اس کے برعکس ہے, ان کے مطابق “چھجو بھگت نے چوبارہ کے ساتھ ایک چوبی زینہ لگا رکھا تھا تا کہ عوام عبادت میں محل نہ ہوں یہیں سے آپ غائب ہوئے اور لوگ نے اس کو سمادھ قرار دیا۔” چشتی صاحب نے چوبارے کی حدود میں ایک دو منزلہ عمارت کا ذکر کیا ہے مگر وہ کسی اور کی سمادھ ہے۔ راقم کے خیال میں قرین قیاس یہی کہ زیر تبصرہ عمارت جو میو ہسپتال کے احاطے میں واقع یہی چھجو بھگت کی ممکنہ سمادھ ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس عمارت کی بناوٹ سے واضح ہے کہ یہ کوئی خاص جگہ تھی۔ یہ چیز بھی اسی امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہیں وہ ریاضت کیا کرتا تھا اور بعد ازاں اسی جگہ کو اس کی سمادھ قرار دیا گیا۔

چھجو بھگت کے پیروکار بھی بڑی تعداد میں تھے۔ اس حوالے سے صاحب تحقیقات چشتی کے علاوہ کانھ سنگھ نابھ نے مہان کوش میں تفصیل سے سے لکھا ہے۔ ان کے بقول چھجو کے فرقے کو چھجو پنتھی، جبکہ مندر کے ایک مہنت کے حوالے سے دادو پنتھی بھی کہا جاتا تھا۔ اس پنتھ کے پیروکار مجرد زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ گوشت اور نشہ سے بھی دور رہتے ہیں۔ جبکہ ان کے بنیادی اصول اسلام اور ہندو مذہب سے مماثل ہیں۔ ان کا شاستری زبان میں لکھا ہوا اپنا گرنتھ بھی ہے جسے دادو رام کی بانی کہا جاتا ہے۔ نیز ان کا مرکزی استھان ملکہ ہانس میں ہے۔ اس استھان کی باقیات بھی اب تک موجود ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہارون خالد صاحب نے اپنے یک مضمون میں اس کا ذکر کیا تھا۔ اس استھان کے قریب ایک مسجد بھی موجود ہے۔ خیر چھجو بھگت کے ساتھ ایک اور دلچسپ روایت بھی جڑی ہے۔ ڈاکٹر لاجونتی راما کرشنا نے درج کیا ہے کہ چھجو بھگت اور شاہ حسین میں گہری دوستی تھی بلکہ آپ کو شاہ حسین بھی پہلی مرتبہ چھجو بھگت نے ہی کہا تھا۔ نیز جب گرو ارجن گرو گرنتھ صاحب کو مرتب کر رہے تھے تو چھجو بھگت مع شاہ حسین آپ کے پاس حاضر ہوئے تھے کہ ان کا کلام بھی گرنتھ صاحب میں شامل کر لیا جائے۔ البتہ چھجو بھگت نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کلام سنانے سے گریز کیا جب کہ شاہ حسین کا کلام گو کہ گرو جی کو پسند آیا مگر اس کو گرو گرنتھ صاحب میں شامل نہیں کیا گیا۔

ماضی میں یہ چوبارہ بہت وسیع تھا جس کی خاطر خواہ تفصیل تحقیقات چشتی میں درج ہے۔ یہاں بہت سی اور سمادھیاں بھی تھیں۔ اس کے علاوہ یہاں بہت بڑا مندر بھی تھا۔ رنجیت سنگھ کے دور میں اس کی عمارت میں خصوصی ترقی ہوئی۔ عمدہ التواریخ میں سوہن لال نے بطور خاص رنجیت کی یہاں خاضری کا تذکرہ کیا ہے۔ رنجیت سنگھ یہاں ہر سوموار کو حاضری دیتے تھے اور صدھا روپے نذر چڑھاتے تھے۔ اس کے علاوہ چودہ کنال سات مرلہ قابل کاشت زمین عطیہ کی۔ رنجیت کے جانشین بھی مندر کو عطیات دیتے تھے۔ یہاں میلہ بھی لگا کرتا تھا۔ معروف لکھاری رڈ یارڈ کپلنگ نے اس چوبارے کا دلچسپ نقشہ کھینچا ہے۔ کپلنگ لکھتے ہیں کہ اس چوبارے کی فضاء امن و تقدس کی حامل ہے کہ ہر جانب پجاری موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پیپل کے پیڑ، کبوتروں کے گھونسلے، بے شمار کنویں اور بہت سے لوگ لنگر کی تیاری کرتے نظر آتے ہیں۔ نقوش لاہور نمبر میں درج ہے کے لاہور میڈیکل کالج جب بنایا گیا تو چوبارے کے باغ کی سب عمارات برباد کردی گئیں۔ ١۹۰۹ء میں شائع شدہ لاہور گائڈ کے مصنف نے چوبارہ سے ملحق کچھ عالیشان عمارات کا ذکر کیا ہے۔ مگر ١۹۲۸ء میں شائع شدہ کتاب لاہور کی سیر کے مصنف ماسٹر امر ناتھ کا کہنا ہے “پہلے یہ عمارت بہت وسیع تھی اور بہت سی سمادھیاں تھیں۔ لیکن اب صرف ایک سمادھ رہ گئی ہے۔ باقی تمام جگہ ہسپتال کے استعمال میں آگئی ہے”۔ گویا چوبارے کی بیشتر عمارات تقسیم سے قبل ہی ہسپتال وغیرہ میں ضم ہو چکی تھیں۔ ایف سی چوہدری کی کتاب میں بھی چھجو کے چوبارے کی تصاویر شامل ہیں مگر تصویر میں موجود عمارتیں اب موجود نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماضی کے اس ضرب المثال اور عالیشان چوبارے کا اب فقط ایک کمرہ ہی باقی ہے۔ جو کہ شمس شہاب الدین صحت گاہ ہسپتال میں موجود ہے۔ اس کمرے کو ہم نے خاصی مشکل سے تلاش کیا۔ یہاں اگر آپ جانا چاہیں تو کسی سے میو ہسپتال کے سرجیکل ٹاور کا رستہ پوچھ لیجیے۔ شمس شہاب الدین صحت گاہ اس کے قریب ہی ہے۔ خیر ہم اندر داخل ہوئے تو ایک صاحب نے پکڑ لیا ان کو گزارش کی تو وہ ایک اور صاحب کے پاس لے گے جو انتہائی خوش اخلاق تھے۔ ان کا نام حسین تھا، ان کو اپنی رام کتھا سنائی۔ جواب میں انہوں نے فقط یہ عذر پیش کیا کہ یہاں زیادہ تر خواتین داخل ہیں۔ لیکن ہم نے انہیں کہا کہ یا ہم سے پردہ کروا لیجیے یا انہیں۔ خیر ہمیں بضد پا کر جلد ہی وہ بخوشی کمرہ دکھانے لے گے۔ انہی سے معلوم ہوا کہ اس کمرے کی حال ہی میں مرمت ہوئی ہے جس پر تقریباً ۲۰ لاکھ سے زائد خرچ آیا ہے۔ انہوں اس حوالے سے بہت سے کاغذات بھی دکھائے۔ ایکسپریس ٹریبیون اور انڈیا ٹوڈے میں ایک رپوٹ شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہسپتال میں وسعت کے لیے چھجو کے چوبارے کے بچ جانے والے آخری کمرے کو بھی گرائے جانے کا امکان ہے۔ شاید اسی رپوٹ کے بعد اس کی مرمت کا خیال آیا۔ گو کہ یہ چوبارہ محکمہ آثار قدیمہ کی محفوظ عمارات کی فہرست میں شامل ہے۔ لیکن حسین صاحب سے معلوم ہوا کے محکمہ آثار قدیمہ نے آج تک اس تاریخی ورثے کے لیے رَتی بھر بھی کام نہیں کروایا جو کے حقیقتاً افسوسناک بلکہ شرم ناک ہے۔ سید لطیف کی کتاب میں چھجو کے چوبارے کا ایک خاکہ موجود ہے، کہا جاتا ہے جب ہسپتال بنایا گیا تب خاکے میں موجود تمام عمارتیں موجود تھیں۔ مگر خوادث زمانے کے باعث ایک کمرہ بچا جو اب تلک قائم ہے۔ مختصر ضرور ہے مگر ہے بے حد حسین۔ چھت پر سونے کا پانی استعمال ہوا ہے اور شیشوں کا کام ہے۔ جب کہ عمارت کے گنبد کنول کے پھول کی مانند ہیں۔ ویسے کنول کا عماراتی استعمال زیادہ بدھ دھرم سے جڑا ہے لیکن یہ ہمیں ہندو دھرم کے مقدس مقامات پر بھی نظر آتا ہے۔ چھجو کے چوبارے کے اس کمرے میں جو کہ ممکنہ طور پر اس کی سمادھ بھی ہے اب ہسپتال میں آنے والی خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔ اس کمرے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں چھجو کا چوبارہ کیسا رفیع الشان تھا۔ حکومت کو اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے فوراً اقدامات کرنے چاہیں۔ نیز اس چوبارے کے حوالے سے ایک معلوماتی تختی بھی لگانی چاہیے۔ تاکہ یہاں آنے والے اتفاقی طور پہ ہی سہی لیکن اس عمارت کی قدر و قیمت سے واقف ہوسکیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply