معاشرتی زندگی اور دینی زندگی۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہماری معاشرتی زندگی اور دینی زندگی کے تقاضوں میں فرق آ چکا ہے۔ یہ فرق بعد المشرقین نہ سہی‘ لیکن یہ فرق اِتنا ضرور ہے‘ جتنا مشرق اور مغرب میں ہے۔ ہماری معاشرتی زندگی کی کامیابی کا معیار مغرب ٹھہرا دیا گیا ہے، اور دینی زندگی کا معیار ہمیشہ کی طرح مشرق ٹھہرتا ہے! ہم سمجھتے ہیں‘شاید وہی زندگی کامیاب ہےٗ جو مغرب میں سراہی جاتی ہے۔اہل ِ مغرب بھی جانتے ہیں کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے۔سورج آسمان کا ہو یا تہذیب کا ‘مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ سورج ٗروح کا استعارہ ہے۔ روح ہمارے باطن کی سر زمین ہے۔ اک طرفہ تماشا ہے کہ سرشاری ہمیں روح کی مطلوب ہے لیکن ہمارا سفر وجود کی طرف ٗ بلکہ تسکین ِ وجود کی طرف ہے۔درحقیقت ہم پہلے سے میسر کامیابی سے نکل کر ناکامی و نامرادی کی طرف چل پڑتے ہیں‘ جب ہم اپنی کامیابی کے سنگِ میل باہر وجود کی دنیا میں کہیں نصب کرنے لگتے ہیں۔

وجود کو اگر ظاہر کہہ دیا جائے اور روح کو باطن ‘تو ظاہر اور باطن میں فرق رکھنے والا منافقت کے باب میں داخل ہے۔ منافقت کمزوری ہے، یہ ایک دفاعی پوزیشن ہے۔ اخلاص قوت ہے، اسے ظاہرداری کی ضرورت نہیں۔۔۔ اسے بیرونی دنیا میں کسی دنیاوی سند کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اخلاص معمولی بھی ہو‘ تو غیر معمولی معرکے بپا کرتا ہے۔ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں پر غور کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے معاشرتی تقاضے کچھ اور ہیں اور دینی تقاضے یکسر اور۔ اگر ہم دین کو اپناتے ہیں تو ہمیں اپنے بھی چھوڑ جاتے ہیں، چار و ناچار اگر اپنوں کو خوش کرتے ہیں تو دینی تقاضوں سے دُور ہونے کے سبب ہم اپنے اندر ہی اندر افسردہ ہو جاتے ہیں۔ گھر کا فانوس روشن ہوتا ہے اور دل کا دیا بجھ جاتا ہے۔ دنیا والوں کو خوش کریں تو دین والے ناخوش و بیزار نظر آتے ہیں، دین والوں کی ہمراہی کریں تو دنیادار بروزن ِ رشتہ دار ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ محفل آباد کریں تو تنہائی برباد ہوجاتی ہے ،اور درونِ خانہ تنہائی میں یاد کا دیا روشن کرنے کی کوشش کریں تو بیرونِ خانہ حرص و ہوا کی آندھیاں ہمارا دِیا بجھانے کے دَرپے ہو جاتی ہیں۔ ظاہر اور باطن میں یہ فرق اور فاصلہ ہماری زندگیوں کو نگل رہا ہے۔

مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کاایک قول ہے’’ زندگی اور عقیدے میں فاصلہ رکھنے والا انسان منافق ہوتا ہے۔ ایسا شخص نہ گناہ چھوڑتا ہے ‘نہ عبادت۔ اللہ اُس کی سماجی یا سیاسی ضرورت ہوتا ہے‘ دینی نہیں۔ ایسے شخص کے لیے مایوسی اور کربِ مسلسل کا عذاب ہے‘‘ گویا منافقت کی مصیبت میں گرفتار شخص ایسا ہے ٗجس کے لیے گناہ اُس کی جسمانی یا سماجی ضرورت بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عبادت بھی کرتا ہے کیونکہ عبادت کرنا اُس کی ایک دینی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن یہ دینی ضروت بھی سماج کے تقاضوں کو نبھانے کے لیے ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے ٗ جیسے کوئی وضو کے بغیر نماز پڑھنے لگے، جیسے کوئی حرام کی کمائی سے حج کرنے کے لیے نکل کھڑا ہو۔ وہ عبادت اس لیے کرتا ہےکہ دین کے نام پر اُسے ملنے والی عزت کہیں خراب نہ ہو جائے ، دین کے حوالے سے میسر اُس کی سماجی اور سیاسی طاقت کہیں کم نہ ہو۔ اُسے جن نعمتوں تک رسائی حاصل ہے ‘وہ کہیں اُس سے چھن نہ جائیں۔ یہ عبادت محض دکھاوا نہیں‘ بلکہ اِس عبادت سے اُس کا تعلق صفاتی نوعیت کا ہے… وہ اللہ کو ایک ذات سمجھ کر اُس عبادت نہیں کر رہا، اور نہ وہ اُس کی ذات کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سر بسجود ہوتا ہے،بلکہ یہ نعمتوں کے حصول کا شوق ہے یا پھر حاصل شدہ نعمتوں کے زوال کا خوف ‘جو اُسے جھکنے پر مجبور کر رہا ہے۔ یہ ایک اہم اور دقیق نکتہ ہے۔ اگر معبودِ برحق سے ہمارا تعلق صفاتی حد تک قائم ہے‘ تو ہماری عبادت مشروط ہے۔۔ یعنی ہماری عبادت کسی نعمت کو پانے کے لیے ہے یا کسی نعمت کے چھن کے خوف سے مشروط ہے۔ اگر ایسے شخص کویہ تسلی کروا دی جائے کہ اسے نعمتیں یوں ہی ملتی رہیں گی ٗخواہ وہ عبادت کرے یا نہ کرے ٗتو وہ عبادت سے دُور ہو جائے گا۔ اُس کی عبادت قرب کا ذریعہ نہیں بنتی اور نہ اُس کی معرفت میں اضافہ کرتی ہے۔ اِس کے برعکس ایسا شخص جو اپنے خالق ، مالک اور قادرِ مطلق رب کی ذات سے تعلق کی حالت میں ہے‘ اُس کی عبادت شوق سے عبارت ہو گی۔ اپنے رب کے حضور اُس کی بندگی اضطراری نہیں ‘بلکہ اختیاری ہو گی۔ ایسے شخص کی توبہ بھی توبۃ النّصوح ہو گی۔

منافقت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ ذاتی سطح پر اپنے رب کی ذات سے تعلق اُستوار کرے۔ وہ صفات کی دنیا کو خاطر میں نہ لائے۔ اپنے رب کے طرف سے ملنے والی نعمتوں‘ بشمول دولت اور عزت کوکبھی خاطر میں نہ لائے ، اِن نعمتوں میں اضافے کا طالب نہ ہو‘ بلکہ منعم کی ذات کا طالب ہو۔ وہ کسی دینی اور اُخروی انعام کو نگاہ میں نہ لائے۔ صفاتی دنیا سے نکلنے کی اِسی آرزو میں صوفیاء نے ملامت کا راستہ اپنایا۔ ہمت ِ مردانہ رکھنے والی جری صفت رابعہ بصریؒ کا اپنے رب کے ساتھ مکالمہ معروف ہے ‘یااللہ اگر میں جنت کی طلب میں تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے جنت سے محروم کردے، اور اگر میں دوزخ کے ڈر سے سجدہ کرتی ہوں تو بے شک مجھ پر دوزخ واجب کردے، لیکن اگر میں صرف تیری طلب میں عبادت کرتی ہوں تو مجھے اپنا دیدار ضرور عطا کر۔ کہتے ہیں‘ ایک بار یہ وَلیہ اپنے ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے میں انگارہ لے کر حالت ِ جذب میں جارہی تھی، لوگوں نے پوچھا ‘اَمّاں! کدھر کا ارادہ ہے؟ کہنے لگیں‘ میں پانی سے اُس دوزخ کی آگ بجھانے جارہی ہوں‘ جس کے ڈر سے لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اِس انگارے سے اُس جنّت کو جلاؤں گی‘ جس کی طلب میں لوگ عابد بنے بیٹھے ہیں۔باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ؑ کے ایک قول معروف ہے “پروردگار گواہ رہنا ، میں علی تیری عبادت اس لیے نہیں کرتا کہ مجھے تیری جنت کا لالچ ہے اور نہ ہی اس لیے کرتا ہوں کہ مجھے تیری جہنم کا خوف ہے،بلکہ اس لیے کرتا ہوں کہ تو واقعی عبادت کے لائق ہے “۔

Advertisements
julia rana solicitors

ذاتِ حق کی طلب ایک طلب ِ ازلی ہے۔یہ اَزلی طلب رکھنے والی سعید روحیں ذات بالذات تعلق کی قائل ہوتی ہیں۔ وگرنہ ہم ایسے دنیا دار لوگ تو دنیاوی عزت اور اُخروی نجات کی طلب میں سر جھکانے میں عافیت پاتے ہیں۔ ہم اپنے گناہ سے توبہ بھی کرتے ہیں تو محض اِس ڈر سے کہ کہیں اِس گناہ کی پاداش دنیا میں ملی ہوئی عزت کا آسمان زمین پر نہ آ رہے۔ صرف اور صرف ذات کی خوشنودی کی خاطر کی گئی توبہ ہی قائم ہوتی ہے۔قرب ِ حق کی خاطر کی گئی عبادت ہی مقبولِ بارگاہ ہوتی ہے۔ ذات کو ذات کے رُوبرو کر کے، ذات ہی کو اپنی ذات پر گواہ بنا کر تائب ہو لیا جائے تو توبہ قائم ہو جاتی ہے اور توبہ کرنے والا بھی حالت ِ قیام میں آ جاتا ہے— اور توبہ کے بعد اَنابت اور پھر اَوبت کی منزلیں میسر آتی ہیں۔ کسی ظاہری اور باطنی لالچ سے ہٹ کر صرف ذات کے حضور کیا گیا ایک سجدہ ہی ‘وہ سجدہ ہے‘ جو ہزار سیاسی اور سماجی سجدوں سے آدمی کو نجات دیتا ہے۔ یہاں نجات ملے گی تو وہاں بھی نجات کا امکان قوی ہے، بصورتِ دیگر کاروبارِ گلشن بھی گلشن ِ کاروبار ہی بن کر رہ جاتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply