مشین زادہ

مشین زادہ
مشتاق علی شان
جنم دن جب بھی آتا ہے میں یہ محسوس کرتا ہوں
یہاں مائیں مشینیں ہیں مشینیں جنتی رہتی ہیں
مشینوں پر مسلط ہیں مشینیں میری دنیا میں
یہ دنیا کارخانہ ہے مشینیں چلتی رہتی ہیں

مرے اطراف کا سچ اِن مشینوں کے سوا کیا ہے ؟
مشیں زادہ ہوں میں لیکن مشینیں بھی بناتا ہوں
مرے تن میں حرارت جس کے دم سے ہے وہی ایندھن
مشینوں کو پلاتا ہوں ، مشینوں کو چلاتا ہوں

جنم دن کی مبارک ایک انسانی چلن ہو گا
مشیں زادہ ہی اچھا ہوں ،میں یوں بے حس ہی بہتر ہوں
مرے اجزائے ترکیبی سے اس کا کیا تعلق ہے ؟
میں ’’ انسانوں ‘‘ کی اُس دنیاسے ناوقف ہی بہتر ہوں

جہاں ہر صبح کے سورج کی کرنیں آہنی پھندا
جہاں دن بھی کسی زندان کا تاریک گوشہ ہے
جہاں ڈھلتی ہوئی ہر شام روحوں کے لیے چابک
جہاں پر رات بھی تابوت کا اک سر د کونا ہے

میں ہر احساس سے عاری، تہی ہوں سارے جذبوں سے
فضا میں قہقہے جو گونجتے ہیں وہ مشینی ہیں
لرزتے ہیں جو پلکوں پر وہ آنسو بھی مشینی ہیں
ستارے نیم شب جو ٹوٹتے ہیں وہ مشینی ہیں

مشینوں کے ڈھالے اس جہاں کی یہ حقیقت ہے
مری چاہت مکانیکی ہے نفرت بھی مشینی ہے
جو سچ پوچھو مرا تلخابۂ احساس مصنوعی
بدن کو نوچتی یہ میری وحشت بھی مشینی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

جنم دن کی حقیقت کچھ نہیں ہے میری دنیا میں
مشیں زادہ ہوں میں اور کچھ مشینیں چھوڑ جاؤں گا
مشینوں پر مسلط اے مشینو الوداع کل تک
نئے پیکر میں آؤں گا مشینیں توڑ جاؤں گا

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply