اوراق زیست سےایک ورق “لاہور اور رابعہ الرباء”۔۔محسن علی

میں کراچی میں  اور وہ لاہور میں ، کراچی مرے مزاج جیسا گرم اور اسکا موسم لاہور جیسا ۔۔کوئی تین سال لگ بھگ میں نے ہم سب پر جب سیاسی کالمز پڑھنے سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کی   ،اور  دیگر  موضوعات پر مبنی  کالم پڑھنا شروع کیے، جن میں خالد سہیل، لبنی مرزا و حسنین جمال اور رابعہ الرباء وغیرہ شامل  تھے ۔پہلے پہل تو میں نے ہم سب کے کالم میں کمنٹس کرنا شروع کیے، پھر کچھ تعلق ہلکی آنچ پر بن گیا تو دوستی کی عرضی بھیج دی ۔

شروع میں تو بات کرتے کچھ ہیجان ہوا ،کیونکہ تحریریں جو پڑھیں اس کے باعث الگ سا خاکہ بنا ہوا تھا، پھر جب درویشوں کا ڈیرہ شروع ہوا ،اس پر کمنٹس اور پڑھتے پڑھتے کہیں کہیں رابعہ خود کا عکس سا لگیں ۔بڑی ہمت سے قسطوں میں کرکے جیسے چھپا ویسے پڑھا ، پھر تنگ آکر سارے کا سارا پرنٹ نکال کر دوبارہ پڑھا تو پھر بہتر طرز سے رابعہ کو جانا، ملنے کا ارادہ کیا اور  لاہور یاترا کو نکل  گیا ۔ ۔زندگی سفر ہے اور سفر میں کون کب کیسے مل جائے ہم سوچتے ہی رہتے ہیں اور وقت  پنکھ لگا کر اڑ جاتا ہے۔ پھر بعد میں ہم حیران ہوتے رہتے ہیں ۔

ایسا ہی کچھ لاہور جانے سے قبل  میرے ساتھ بھی ہوا،احتیاطاً نمبر لے لیا تھا کہ  کیا معلوم  ملاقات کا شرف حاصل ہو نہ ہو۔میسج کیا تو جواب ہاں  میں  آیا اور ہم اپنی قسمت پر رشک کرنے لگے ،پھر خیال آیا، ارے لکھاری خواتین تو بڑی ہی مشکل سے ملاقات کرنے کا اعزاز بخشتی ہیں۔۔ کیا معلوم نہ ملیں، مگر جب وقت و جگہ کا تعین ہوا تو فیض میلہ میں ملاقات ممکن ہوئی،  جب کال ملائی، انہوں نے کہا اس طرف ہوں ، اُن کے بالوں کے انوکھے پن کے باعث دور سے بھانپ کر ہم نے اُدھر کی  راہ لی۔

مسئلہ ایک اور تھا ،وہ  یہ کہ ہمارے شہر کی نہیں  ہیں ،جانے ایک کرسی چھوڑ کر بیٹھنا پڑے گا، یا نہیں ،کیونکہ لکھاری خواتین انتہائی گھٹیا قسم کا ٹھرک برداشت کرتی ہیں ،اس لئے خیر ہم نے دھیرے دھیرے بات شروع کی ،پھر چند منٹوں بعد جناب دوستی کے دائرے میں داخل ہوگئے ، ادھر ان کی کوئی طلباء بھی انٹرویو کے لئے پہنچی ہوئی تھیں، وہ دے کر فارغ ہوئیں تو ہم نے لاہور میں اچھی چائے نہ ملنے کا فیسبک پر رونا ڈالا تھا ۔جس کا انہوں نے اچھی چائے پلا کر ازالہ کیا اور ایک اچھی نشست کے  بعد  رُخصتی ہوئی ۔

لاہور یاترا ختم ہوئی، مگر درویشوں کا ڈیرہ وہ ختم نہیں ہوئی ۔۔کیونکہ ہم اسکو دوبارہ سہ بارہ یہاں تک کہ اب پانچ بار پڑھ چکے ۔۔خیر سے درمیان میں ہماری گفتگو کچھ ہوتی رہی ہلکی پھلکی ،پھر فیسبک پر ایک شخص کی وجہ سے ہماری راہیں مزید پختہ ہوگئیں، مطلب دوستی کو کھاد فراہم ہوگئی اور اسکے بعد دو تین بار    طویل گفتگو ہوئی۔ آخر ہم نے اردو آڈیو کتاب کا سلسلہ شروع کیا ،اور اس کے بعد جب اس سال لاہور یاترا کی تو ہم سمجھ بیٹھے تھے کہ ایک انتہائی ادبی سی بیٹھک ہوگی مگر ہوا کیا۔ ۔ایک انتہائی خوبصورت زندہ دل بیٹھک ہوئی جو کہ یادگار رہی، پہلے سے زیادہ دعا عظیمی و وقار بھائی بھی ساتھ تھے ۔ وہ کچھ کیا جو بچے کرتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی رات  کے اس پہر یکدم پوسٹ دیکھی ،خیال آیا وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے ،معلوم ہی نہیں ہوتا ،جب ہم خوش ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی پوچھے بھئی رابعہ الرباء کون ہیں ؟ تو میں جھٹ سے کہہ  سکتا ہوں اکیسویں صدی کی رابعہ بصری ہیں ،اور ایک انتہائی شریر انسان ،ان کا قلم کیسا لکھتا ہے تو انکا قلم زندگی کے چھوٹے چھوٹے گوشوں کو بڑی آسانی سے چھوتا ہے ،آپ تحریر پڑھنے کے بعد جانتے ہیں کہ اس میں کیا  تبایا گیا  ہے ،ورنہ پڑھتے ہوئے لفظوں میں بہہ جاتے ہیں ۔۔خالد سہیل نے درست کہا تھا نثر میں نظم کا اثر ہوتا ہے ۔خوش رہو سلامتی  ہو رابعہ

Facebook Comments

محسن علی
اخبار پڑھنا, کتاب پڑھنا , سوچنا , نئے نظریات سمجھنا , بی اے پالیٹیکل سائنس اسٹوڈنٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply