مہمان بلائے جان اِن پشاور۔۔عارف خٹک

مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، مگر گاؤں کے مہمان شہر میں زحمت بن جاتے ہیں، خصوصاً  پشاور میں۔ بلکہ اگر آپ کسی شہر میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں، خصوصا ً پشاور میں تو آپ بھول جائیں کہ آپ اپنا کاروبار یا نوکری کرسکیں گے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جپ پشاور میں  اپنے ساتھ بیوی بچوں کو بھی گاؤں سے بُلا لیں   ،مجال ہے کہ کوئی دن آپ کا سکون سے گزرے۔

دوردراز کے گاؤں کے لوگ ،جن کو آپ نے زندگی میں کبھی دیکھا بھی نہیں ہوتا، صبح پانچ بجے فون کرکے نیند سے اٹھائیں گے۔
“بھائی جان  ذرا کوہاٹ اڈہ آکر میری اماں کو گاڑی سے وصول کرلینا۔ چھ سالہ فرید اللہ اور دس سالہ زرینہ بھی ساتھ ہیں، اماں کافی عرصے سے چل پھر نہیں پارہی ہے، آپ کو تو معلوم ہے کُرک اور بنوں کے ڈاکٹروں کو دکھا دکھا کر تھک گیا ہوں، ان کو ڈبگری گارڈن میں ہڈیوں کے ڈاکٹر کو دکھانا ہے۔ معدہ والے ڈاکٹر کو بھی دکھا دو،کمر میں بھی تکلیف ہے ،ہاتھ کے ہاتھ ان کو بھی دکھا دینا”۔

بیچارہ  بندہ باامر مجبوری ان سے پوچھ لیتا ہے کہ بھائی وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ کون بات کررہے ہیں؟۔ تو آگے سے شکایتی آواز میں الٹا آپ سے پوچھا جاتا ہے “اوہ مجھے نہیں پہچانا؟۔ میں آپ کی والدہ کی خالہ صدیقہ جان کی منجھلی بیٹی کا داماد ہوں۔ شیرمحمد خان”۔

ایک ہی سانس میں شیرمحمد خان اماں کی بیماریاں گنوانے کیساتھ ساتھ اپنا تعارف بھی کر وا دیتا ہےاور سامنے والے کی سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کے نیچے رہ جاتی ہے، کہ کل بھی باس نے وارننگ دی تھی، کہ جناب چھٹیاں بہت بڑھ رہی ہیں آپ کی، کہ پچھلے ہفتے بھی چھ سات مریضوں کو بھگتایا تھااور آج پھر پورا دن خوار   ہونا ہوگا ۔

بندہ روہانسا ہوکر شیر محمد خان سے پوچھ بیٹھتا ہے کہ چھ سالہ فرید اللہ اور دس سالہ زرینہ کا کیا کرنا ہے۔ شیرمحمدخان ،جواب   آں غزل کہنے لگتا ہے،
“کچھ نہیں فریداللہ  آج کل گم صم ہے کسی دماغ والے ڈاکٹر کو دکھا دو،بستر میں پیشاب بھی کردیتا ہے۔ البتہ زرینہ کو دھندلا دھندلا نظر  آرہا ہے، آنکھوں کے ڈاکٹر کو دکھا دو۔”
پھر توقف کے بعد شیرمحمد خوشخبری سنا دیتا ہے کہ
“اماں کو پندرہ سو روپے دیے ہیں، پیسوں کی فکر مت کرنا۔”۔

بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور ڈرتے ڈرتے اپنی ماموں زاد بیگم کو نیند سے اٹھاتا ہے۔ ‘شیربانو آج مہمان آرہے ہیں شیرمحمد خان کی اماں بمعہ دو بچوں کے’۔ ماموں زاد بیگم نیند سے ہڑبڑا کر اٹھ جاتی ہیں،جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔  آنکھیں مسلتے ہوئے اپنے شوہر نامدارکو یہ کہہ کر مسل دیتی ہیں کہ
“اللہ ابا کو قبر میں ایسا ہی بے سکون رکھے، جیسا مجھے ،تیرے ساتھ شادی کراواکر رکھا ہوا ہے”۔
شوہر بیچارا منمنا کر کہہ اٹھتا ہے
” کیا کروں اب مہمانوں کو بھگا تو نہیں سکتا، اچھا یہ بتاؤ  کچھ پیسے ہیں گھر میں؟ کیونکہ پچاس بیماریوں سمیت تین مریضوں کا علاج پندرہ سو میں تو نہیں ہوسکتا”-
بیگم اپنے کان سے دو بالیاں اتار کر شوہر حضور کے منہ پر مار دیتی ہیں کہ،
“لے بیچ اس کو یہی تیری واحد “بَری” ہے جو پھپھو نے ابا پر احسان کرتے ہوئے بناکر دی تھیں”۔

تھوڑی دیر کے بعد اپنا پھٹا دوپٹہ سر پر ٹھیک کرکے دل کے پھپھولے پھوڑنے لگتی ہیں۔

“ہم پشاور چھوڑ کر لاہور منتقل نہیں ہوسکتے؟۔ روز مہمان، روز مہمان اب تو اپنا گھر سرائے لگنے لگا ہے اوپر سے حضور کی تنخواہ اتنی کہ ادھر ہتھیلی پر رکھی نہیں کہ کچی  برف کی طرح پگھل گئی۔ اوپر سے مہمان ایسے آرہے ہیں جیسے آپ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کُرک سے ایم این اے سلیکٹ ہوکر آئے ہیں اور انجینئر جوہر خٹک جیسے کمیشن خور آپ کو لاکھوں کے تحفے تحائف “فری” میں دے رہے ہیں”۔

ہمارے گھر پشاور، ایک دور کی خالہ بغرض علاج گاؤں سے آئی تھی۔ شٹل کاک برقع  پہنا ہوا تھا،گھر آکر بھی برقع  اتارنے پر آمادہ نہیں تھی کہ اجنبی در و دیوار ہیں، پردہ خراب ہوگا۔ خالہ پردے کی اتنی پابند تھی کہ بقول یوسفی
“زنان خانے میں مرغا غلطی سے دہلیز پار کرلیتا تو، وہ جھٹ سے منہ پر پلو گرا لیتی”۔

اماں نے سمجھا بجھا کر اس کا برقع  اُتروایا، میں نے منہ دیکھا تو بے ساختہ خودکلامی کی کہ ‘خالہ آپ کو واقعی برقع  نہیں اتارنا چاہیے۔

اگلی صبح اماں نے شاہی فرمان جاری کیا کہ خالہ کو میں لیڈی ریڈنگ سرکاری ہسپتال لیکر جاؤں۔ اماں کو بتایا کہ آج میری کلاس ہے یونیورسٹی میں۔۔تو بیچ بات کے گویا ہوئیں،
“جانتی ہوں تیری کلاسز ولاسز، گھر سے یونیورسٹی کے بہانے نکل کر حیات آباد پارک میں بچیاں تاڑتے ہو۔ کل بھی پڑوسن کہہ رہی تھی کہ میں جب بھی بیٹیوں کیساتھ پارک گھومنے گئی ہوں، تیرا شہزادہ ہاتھ میں سگریٹ لیکر بچیاں تاڑتا ملا ہے”۔

میں اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔ اماں نے پانچ سو روپے پکڑا دیئے کہ ٹیکسی کرکے جانا۔ میں گھر سے خالہ کو شٹل کاک میں قید کرکے باہر نکال لایا اور بجائے ٹیکسی کے، پیدل بس اسٹاپ کی طرف چل پڑا کہ پانچ دس روپے میں گر  آنا جانا ہوسکتا ہے تو ضرورت کیا ہے کہ بندہ ٹیکسیوں کی عیاشی کرے ،یہ پیسے بعد میں جانی کون ائس کریم پارلر میں کسی شمیم پر بھی خرچ کیے  جاسکتےہیں۔

پینٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے خالہ سے ایک مخصوص فاصلے پر چلا جارہا تھا کہ لوگوں کو یہ پتہ نہ چلے کہ شٹل کاک میں ملبوس خاتون میرے ساتھ ہیں۔

بس  سٹاپ پر پہنچ کر ایک بس آئی تو خالہ سے کہا ،خالہ آپ آگے زنان خانے میں بیٹھ جانا۔ مگر شومئی قسمت اس وقت ٹریفک پولیس والے کو دیکھ کر ڈرائیور نے ایکسلیٹر پر پیر رکھ دیا اور آگے نکل گیا۔ خالہ نے جب بس آگے نکلتے دیکھی ،تو زور زور سے آوازیں دینے لگیں
“رک جا خانہ خراب”۔
اور بس کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ سب لوگ خالہ کو دیکھ رہے تھے اور خالہ اتنی تیزی کیساتھ بس سے ریس لگارہی تھی کہ برقع  ہوا کیوجہ سے پھول کر پیراشوٹ بن گیا تھا۔ میری شرمندگی سے سانسیں رک گئیں۔ بس آگے نکل گئی اور خالہ دو سو میٹر دور کھڑی ہانپ رہی تھی۔ میں شرمندہ شرمندہ خالہ کے پاس گیا کافی لوگ بھی ساتھ ہو چکے تھے ،کہ ماجرا کیا ہے۔ میں نے سر پر انگلی رکھ کر گھمائی کہ بیچاری دماغی مریضہ ہیں، اور سب تماش بین تاسف سے سر ہلاتے ہوئے چلے گئے۔ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا
“خالہ کیا ضرورت تھی یہ تماشا  کرنے کی”۔
کہنے لگی
” بس نکل گئی اب کل دوسری  آئیگی تو ہسپتال جا سکوں گی”۔
میں نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے کہا
“خالہ یہ گاؤں نہیں ہے جو بنوں کیلئے گل اواسی ماما کی بس صبح نکلتی ہے اور شام کو آتی ہے۔ یہ شہر ہے دوسری  آجائیگی”۔
خالہ کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔ مگر میرا اطمینان اب غائب ہوگیا تھا کہ مزید تماشا  کرنے سے بہتر ہے کہ ٹیکسی پر پانچ سو روپے خرچ کرلوں ،شمیم پر خرچ کرنے کیلئے اللہ کوئی اور سبب بنا دیگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس دن کے بعد فیصلہ کیا کہ پشاور نہ خود رہوں گا نہ بیوی بچوں کو رہنے دونگا۔ وہ دن اور آج کا دن جب بھی کراچی کوئی مہمان وارد ہونے لگتا ہے ،میں ملحقہ اورنگی ٹاؤن کی کٹی پہاڑی پر کھڑا ہوکر اسٹیٹس لگا دیتا ہوں۔
“فیلنگ الون 😩 ان کابل ماؤنٹینز” اور کابل کی سِم کی رومنگ چالو کردیتا ہوں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply