سوشل میڈیا پر متحرک لاپتہ افراد

سوشل میڈیا کے کچھ متحرک لوگوں کے اٹھا لیے جانے کی خبریں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ یہ لوگ کیا کر رہے تھے یا بھینسا، موچی اور روشنی میں سے کون کون سے پیجز چلا رہے تھے، اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں کیونکہ میں ان لاپتہ افراد کے ان پیجز سے متعلق ہونے کے بارے میں کوئی یقینی علم نہیں رکھتا۔ یہ ذکر البتہ کیے دیتا ہوں کہ ان میں سے دو پیجز پر میرے خلاف بھی بعض لوگوں نے کافی عرصہ پہلے کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ سوشل میڈیا کے ایک طاقت بن جانے کے بعد بلاگرز اور لکھاریوں کے لاکھوں فین بن چکے ہیں جن کا ذہن کسی بھی طرف موڑنا ان بلاگرز اور لکھاریوں کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مختلف حکومتوں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس قوت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے پہلے سے موجود میڈیا سیل میں سوشل میڈیا کے لیے افرادِ کار بھرتی کیے جو ان کے اہداف کے لیے عوامی سپورٹ فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یہی وہ قوت ہے جو اس وقت ان لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھا رہی ہے۔ میں ان لاپتہ افراد کے لواحقین اور ہوا خواہوں کا انسانی دکھ محسوس کرتا ہوں اور ان کے غم و تشویش میں شریک ہوں۔

تیسری دنیا اور مسلم دنیا کے بیشتر ممالک میں سوشل میڈیا پر قومی سلامتی کے اداروں کی توجہ اس وقت ہوئی جب مصر میں عرب بہار کے کامیاب ہونے کو سوشل میڈیا کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ اس پر بڑے بڑے فیچر چھپے اور یوں سوشل میڈیا ایک موثر ہتھیار کی حیثیت میں پالیسی سازوں اور سیکورٹی کے اداروں کی نظروں میں آیا۔ انہی دنوں میں سائبر جرائم اور ان کے قوانین کی باقاعدہ گرم بازاری ہوئی۔ پاکستان میں تو سائبر کرائم بل بہت بعد میں آیا۔ چین جیسے بڑے ملک نے بھی فیسبک اور دیگر سافٹ ویئرز پر پابندی لگا دی۔ مصر میں حکومت کو گرانے کے جرم میں سوشل میڈیا پر متحرک کچھ لوگوں کو بھی پکڑا گیا۔ یہ کام باقی ممالک میں بھی ہوا اور ہو رہا ہے۔ اصولی بات ہے کہ دنیا بھر میں قومی سلامی اور امنِ عامہ پہلے آتے ہیں اور شخصی آزادی بعد میں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کو موثر قوت میں بدلنے کا کام 2007 کے لگ بھگ شروع ہوا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے لیے سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم جوئی کی گئی۔ اس کے بعد سے انتخابات اور دیگر مواقع پر رائے عامہ کی ہمواری کے لیے سوشل میڈیا کا کاریگرانہ استعمال کیا جا رہا ہے، ریاست و حکومت کی طرف سے کم اور منفی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کی طرف سے زیادہ۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ سوشل میڈیا پر علمی و تعلیمی اور دیگر مثبت سرگرمیوں میں مصروف لوگ بھی خاصی تعداد میں ہیں اور اپنا اپنا موثر حلقہ رکھتے ہیں۔ ان سے سماج کو فائدہ ہوتا بھی نظر آتا ہے۔

خیر اور شر کی قوتیں اپنا اپنا کام کرتی رہتی ہیں اور اپنے مقاصد کے لیے جتھے بناتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی یہی ہو رہا ہے۔ مصر میں عرب بہار کی کامیابی کے بعد سے بیشتر ممالک میں منظم طریقے سے سوشل میڈیا خاص کر فیسبک پر موجود ناپسندیدہ افراد اور گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں بھی یہ کارروائیاں کافی عرصے سے جاری ہیں۔ ان کارروائیوں میں بڑے بڑے پیج ایڈمنز اور فالورز کا بڑا حلقہ رکھنے والے لکھاریوں کو قومی سلامتی پالیسی سے ہم آہنگ رہنے کے لیے کئی طرح کی سنجیدہ کوشش کی جانا بھی شامل ہے۔ یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ بعض سرکاری ایجنسیاں نیز موثر مالدار طبقہ ان میں سے کچھ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ ہیکرز کے ذریعے گستاخانہ مواد اور مذہبی منافرت پر مشتمل پوسٹیں لکھواکر کچھ بڑے پیج ایڈمنز کی فین فالونگ کو ختم کرایا گیا۔ نام بدل بدل کر کام کرنے والے ناپسندیدہ عناصر کا بھی پیچھا کیا گیا اور کئی ایسے پیجز کو پاکستان اور سعودی عرب وغیرہ میں بین کرایا گیا جنھیں بلاک کرنے سے فیسبک انتظامیہ نے انکار کیا۔ سوشل میڈیا پر متحرک مذہبی منافرت پھیلانے، ریاستی رٹ کو غیر موثر کرنے اور بداخلاقی کرنے والے ناپسندیدہ عناصر کی سرکوبی کے لیے سائبر کرائم بل بھی منظور کرایا گیا، جو حکومت کی ایک اچھی کوشش ہے۔ تاہم حکومت پر اس بل سے سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند رکھنے کا کام لینے کا الزام بھی لگتا رہتا ہے۔

اب جب کہ فیسبک پر مختلف کانٹینٹ لکھنے کی وجہ سے کچھ گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں اس لیے سوشل میڈیا پر متحرک افراد غائب ہونا شروع ہوگئے ہیں جس کا فیسبک اور ٹویٹر کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر بھی شور ہے، راقم کی رائے میں اس وقت دو کام کرنے کے ہیں، ایک حکومت کا اور دوسرا سوشل میڈیا سے متعلق لوگوں کا۔ حکومت کو تو اپنی اور ریاستی رٹ قائم رکھنے کے ان لاپتہ کیے گئے افراد کی جانچ اور اگر ضروری ہو تو سزا دینے کے پروسیس میں ہمہ وقت شفافیت رکھنا ضروری ہے۔ جب کہ سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں کو چاہیے کہ ان لاپتہ کیے گئے افراد کو مذہبی منافرت کا ہدف بنانے سے گریز کریں کیونکہ اس کا نتیجہ بھیانک ہوگا۔ ابھی حکومت نے ان لوگوں پر کوئی الزام نہیں لگایا اور نہ کوئی جرم ان پر ثابت ہوا ہے جب کہ فیسبک پر ان کے مخالفین نے ان پر فردِ جرم عائد کر دی ہے اور ان کے حامیوں نے اس مجوزہ فردِ جرم کا جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ میری رائے میں یہ رویہ، دونوں طرف کا، ازحد بچگانہ ہے اور ہمارے قومی اتاؤلے پن کی دلیل ہے۔ یہ تو وہی حرکت ہے جو مشتعل مسلمانوں کا کوئی ہجوم کسی عیسائی یا احمدی کے خلاف کرتا ہے یا عیسائیوں کا کوئی مشتعل ہجوم کسی مسلمان کے خلاف کرتا ہے اور فیصلہ سڑک پر یا تنور میں زندہ جلاکر کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکہ سمیت مہذب دنیا کے بڑے ممالک میں ایجنسیاں لوگوں کو تفتیش کے لیے مقدمہ چلائے بغیر اپنی تحویل میں رکھ سکتی ہیں اور یہ تحویل قانون کے تحت ہوتی ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان کے قانون کے تحت ایجنسیاں کسی فرد کو بغیر مقدمہ چلائے 90 دن تک زیرِ تفتیش رکھ سکتی ہیں۔ قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کیا جائے اور غم و غصہ نکالنے میں قانون، ریاست اور مذہب کو فریق نہ بنایا جائے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”سوشل میڈیا پر متحرک لاپتہ افراد

Leave a Reply to Shahbaz Cancel reply