• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مرد ہی بے وفاکیوں قرار پاتے ہیں؟(2,آخری حصّہ)۔۔عبید اللہ چودھری

مرد ہی بے وفاکیوں قرار پاتے ہیں؟(2,آخری حصّہ)۔۔عبید اللہ چودھری

اجتماعیت سے انفرادیت کا سفر:

تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ آغاز میں انسان جنگل کے باسی اور شکاری تھے۔ چھوٹے چھوٹے جھنڈ میں شکار کرتے تھے، عورت زچکی کے باعث کچھ مدت کے لئے اپنی محدودیت کے باعث خوراک کے حصول کے لیے مرد کے زیرِ  اثر تھی ۔ اس لئے ایک کمزور صنف ہی رہیں۔ پھر زراعت شروع    ہوئی ۔ معاشرت کا آغاز ہوا، پھر اشتراکی جائیداد، اشتراکی مفادات اور اشتراکی خطرات سے نکل کر گھرانوں کا تصور آیا اور سماج کا بنیادی جزو گھرانہ بن گیا۔آج کے دور میں جوانٹ فیملی سے سنگل فیملی اور بعض معاشروں میں انفرادی انسان کی اپنی خود مختار زندگی کا سفر ہمیں اس دلیل کی نشانی بتا رہا ہے کہ حضرت انسانی معاشرہ اپنے وجود کے آغاز سے لے کر آج کے دن تک اجتماعیت سے انفرادیت کے سفر کی طرف گامزن ہے۔ اجتماعیت سے انفرادیت کا یہ سفر  ذرائع پیداوار اور معاشی خودمختاری کا مرہون منت ہے۔ انفرادیت کے اسی سفر میں روایات ، اصول ، قانون اور حقوق بھی مسلسل تغیر کا شکار ہیں۔

مذہب کے بعد حقوق کی آمد:

مذہب کی آمد کی بحث سے یہ نتیجہ نکالنا آسان اور صائب ہے کہ ہر معاشرت نے اپنے اپنے مسائل کے حل کے لئے کوشش کی تو ہمیں ہر خطے میں الگ الگ عقائد اور روایات اور مذاہب ملتے ہیں۔ زراعت کے بعد تجارت شروع ہوئی ، صنعت کا وجود آیا، ذرائع آمد رفت میں انقلابی تبدیلی آئی ، سروسز کا شعبہ آیا ، غرض ذرائع آمدن بڑھتے ہی چلے گئے۔ ایسے میں عالمگیریت کا تصور اُبھرا۔ اجتماعی حقوق، بنیادی حقوق، سیاسی حقوق، اور اب انتہائی  ذاتی حقوق کی جدوجہد ہو رہی ہے۔ اس عالمگیریت میں پہلے عالمگیر مذاہب کو رائج کرنے ، پھر ریاست کے وجود کو طاقت ور بنانے ، اور آخر میں معاشی عالمگیریت اور عالمی انسانی حقوق کا زمانہ ہے۔

پہلے انسانی اور صنفی تعلقات کی بنیاد کو زیادہ تر معیشت سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا۔ اب ان تعلقات کے تعین میں انسانی حقوق بھی کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں ۔ اسی لئے روائتی سوچ کو تھوڑی مشکل پیش آ رہی ہے کہ یہ بدلتے انسانی تعلقات میں تبدیلی معیشت پر کنٹرول ہونے کے باوجود بھی قا بو سے باہر کیسے ہوتی چلی جا رہی ہے؟

وفا اور بے وفائی کا مکالمہ:

شروع شروع میں جائیداد کی وراثت ، بادشاہت اور خاندانی اقتدار کے لئے بڑے بیٹے کو اہل قرار دیا گیا۔ اقتدار اور دولت کے حصول کے لئے بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتال صدیوں جاری رہا۔ پھر ان انسانی اور برابری کے حقوق کی بات شروع ہوئی تو جائیداد کی تقسیم میں پہلی نرینہ اولاد کا پہلا حق ختم ہونے کے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ لیکن جائز وارث ہونے کے لئے جائز اولاد ہونا تو ثابت کرنا آج بھی ضروری ہے۔

موضوع پر بے لاگ اور آزادنہ بحث کے لئے کچھ دیر کے لئے گناہ ، ثواب، مذہب اور قانون کی بحث سے نکل کر سوچتے ہیں۔

دو بالغ جنس مخالف کی مکمل اور شدید قسم کی مرضی سے پیدا ہونے والی اولاد حرامی کیسے؟ اور بغیر مرضی کے شادی کے بندھن میں بندھ جانے اور پر سرخ دھبے والی چادر کوٹھے پر لٹکانے سے پیدا ہونے والی اولاد جائز کیسے ہے؟ یہ وہ بحث ہے جس کا آنے والے وقت میں بہت چرچا ہو گا۔

صدیوں سے جائیداد پر قابض مرد کی وراثت کے لئے خود کو جائز وارث ثابت کرنے والے جائز اور ناجائز کی اس بحث میں صف اوّل کے دینی مبلغین ہیں۔ اب اس بدلتے سماج اور بڑھتی برابر قانون کی حکمرانی میں جہاں جائیداد میں عورت کا حصہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ یقینی ہو رہی ہے، وہ معاشی اور سماجی طور پر بھی آزاد ہو رہی ہے۔ اب مرضی کی شادی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ مغربی معاشرے کی مثال لے لیں ۔ ایسے میں ترقی یافتہ معاشروں میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی قبولیت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورس نے بچے کی پیدائش کے بعد اپنی گرل فرینڈ سے شادی کی ہے۔

کیا آپ نے آج سے بیس سال قبل تک نکاح مسیار کے بارے میں سنا تھا؟

نکاح مسیار میں کوئی مسلم جوڑا اپنی شرائط پر بغیر کسی گواہ کے اور نکاح نامے کے جزو وقتی شادی کر سکتا ہے۔ معاہدے کی مدت اور شرائط ختم ہونے کے بعد نکاح منسوخ ہو جاتا ہے۔ ایسے نکاح کو مزید کچھ مدت کے لئے آگے بڑھایا جا سکتا ہے،یا پھر اسے دونوں فریقوں کی رضا مندی سے مستقل نکاح میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ ایسے نکاح سے پیدا ہونے والی اولاد کو جائز اولاد قرار دیا گیا ہے۔ آج سے 20 سال پہلے شروع ہونے والے اس خفیہ نکاح کی وہ قسم ہے جو عرب اور افریقہ کے کئی مسلم ممالک میں تیزی سے رواج پا رہی ہے۔

اسی طرح مسلم معاشرے میں لونڈی کا تصور آج بھی رائج ہے۔ لونڈی بھی بغیر نکاح کے ہوتی ہے اور اس سے اولاد کو جائز اولاد کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن نکاح مسیار کے بر عکس لونڈی اپنے مالک کی مرضی کے بغیر علیحدگی اختیار نہیں کر سکتی۔

شیعہ مسلم میں متہ کا رواج ہے۔ متہ بھی مدتی نکاح ہے۔ یہ نکاح مسیار سے اس اعتبار سے فرق ہے کہ متہ میں باکرہ لڑکی کے لئے ولی کی رضا مندی کی شرط ہے۔

اب کئی معاشروں میں اوپن میرج کا رواج فروغ پا رہا ہے۔ مرد اور عورت شادی تو کرتے ہیں ، گھر بھی بساتے ہیں ، بچے بھی پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن میاں اور بیوی دونوں کو شادی سے باہر مرضی کے جنسی تعلقات رکھنے کی اجازت ہے۔ سماجی دباؤ  کی وجہ سے اوپن میرج بھی زیادہ تر خفیہ ہی ہوتی ہے۔ مرد اور عورت میں فرق کا زیادہ انحصار کلاس کی بنیاد پر ہے! مرد کو بے وفائی کا طعنہ مقبول عام ہے۔ اور اس میں کافی حد تک سچائی بھی ہے۔ لیکن اب عورت اس الزام سے بری قرار نہیں دی جا سکتی۔ جس طرح قابل جاذب عورت خاص توجہ کا مرکز ہوتی ہے ویسے ہی ہینڈسم مرد بھی خاص توجہ حاصل کرتا ہے۔ پہلے سے زیادہ منصف اور برابری والے معاشرے میں لیکن یہ بات پتھر پر لکیر ہے۔۔۔ معاشرہ کوئی سا بھی ہو جب تک کوئی عورت لفٹ نہ  کروائےمرد کی جرات نہیں ہو سکتی۔

اب آپ نے روایتی  باتیں کرنی ہیں  تو ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن غیر روایتی حقیقت تو یہ ہے کہ کئی جوڑے شادی شدہ زندگی میں خوشی کا رنگ بھرنے کے لئے بیتاب ہیں۔ لیکن معاشرہ ، خوف،نام نہاد روایتیں، وغیرہ وغیرہ ان کی شادی کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں ۔ اس گھٹن کو بعد میں منہ ماری کا جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مرد اسے اپنی “ نام نہاد “ شان سمجھتا ہے تو وہ بے وفائی کے الزام اور کسی دوسری عورت سے تعلقات کو بھی میڈل کے طور پر لیتا ہے۔ خاموش رہ کر اپنی مردانگی کو بچاتا ہے۔ لیکن زیادہ تر مردوں اور کچھ عورتوں کو عادت ہو جاتی ہے۔ وہ ایک پر اکتفا کر ہی نہیں سکتے! سمجھ لیں کہ “ساتھی “تبدیلی بھی ان کا ایک نشہ ہوتا ہے۔

عورت کی بے وفائی کے بارے میں ان کے خاوندں کے پاس پکے ثبوت بھی آ جائیں ۔ لیکن ان میں سے اکثر خاوند اپنی “عزت “ کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں ۔ گھر پر لڑائی ہے لیکن اسے بازار میں  لے  کر آنے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ گھوم پھر کر بات ان کی ہی بے وفائی اور یا پھر ان  کی مردانہ کمزوری پر آئے گی۔ مردوں کی اس احتیاط کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے بے وفائی کے سامنے آنے والے کیسز کی بنیاد پر حتمی نتیجہ نکالنا مشکل ہے۔ کہ مرد زیادہ بے وفا ہیں کہ عورت  وفا دار ہے۔

بے وفائی کے اس سارے کھیل میں ۔۔۔ جوڑوں کی ہم بستری کی کیمسٹری   کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ میاں بیوی کے بیڈ روم تعلقات میں بھی تنوع بہت ضروری ہے۔ یہ تنوع ذہین لوگ اور جرات والے ہی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ باقی تو بس ۸ بچے اور سچا پیار نہ  عورت کو ملا  نہ  مرد کو سچا پیار ملا والی کہانی ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ:

٭ذرائع آمدن میں بڑھتی صنفی برابری

٭ عورتوں کی برابری کے بڑھتے رحجان

٭سائنس اور نئے ریاستی قوانین کی ترویج اور معاشرے میں مزہب کے اثر و رسوخ میں آتی مسلسل کمی

٭تیزی سے انفرادیت کی طرف بڑھتا سماج

Advertisements
julia rana solicitors

 کمزور ہوتا اور اپنی بقا کے لئے شکلیں بدلتا شادی کا ادارہ

اور ان سب کی موجودگی میں جہاں اچھائی اور برائی کے معیار بھی بدل رہے ہیں۔ جائیداد کی وراثت کی ترجیح  بھی بدل رہی ہے ۔ ایسے میں وفا اور بے وفائی کے معیار بھی بدل رہے ہیں ۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اس کا ایک ثبوت کسی بھی مرد اور عورت کی اوسط تین سے چار شادیاں ہیں۔ جب تک ایک کے ساتھ ہو وفا دار رہو۔ دل بھر گیا۔ چھوڑ کر دوسرے کے ساتھ وفا دار ہو جاؤ۔ اور یہ وہ نئی حقیقت ہے جس کو ترقی پذیر معاشرے کے مرد تیزی سے اپنانے کی جستجو میں ہیں ۔ جبکہ عورتیں ابھی اتنی معاشی آزاد نہیں جتنی آزادی مغرب میں ہے وہ اس تبدیلی کی مخالفت کر رہی ہیں۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply