حسیبہ قمبرانی کا دکھ جو میں نہ لکھ سکا۔۔محمد منیب خان

ایک سال ادھر کی بات ہو گی یا کچھ مہینے کم زیادہ۔ ٹی وی سکرینوں پہ کانپتے ہاتھوں میں  دو تصویریں  تھامے لرزتے ہونٹوں سےحسیبہ قمبرانی اپنے بھائیوں کی رہائی کی بھیک مانگ رہی تھی۔ میں نے جوں ہی یہ منظر دیکھا میرا دل درد سے بھر گیا۔ میں جوکسی اپنے بہن بھائی کی تکلیف کا سوچ کر کانپنے لگتا ہوں اور ایک یہ ہے کہ جس پہ غم بیت رہا ہے اور جو پھر بھی اس قدر حوصلہ تو رکھتی ہے کہ اپنی بات کہہ رہی ہے۔ اپنا دکھ بیان کر رہی ہے۔ وہ ویڈیو دو چار روز الیکڑانک میڈیا کی زینت بنی اور پھر خبروں سے ہٹ گئی۔ جبکہ اس کے برعکس وہ سوشل میڈیا پہ کچھ دنوں تک چلتی رہی۔ پھر سوشل میڈیا بھی ٹھہرا بلا کا تماش بین، وہ بھیایک موضوع کو اس وقت تک لتاڑتا ہے جب تک اس کے پاس کوئی دوسرا موضوع نہ آئے۔ دوسرا کوئی واقعہ ہاتھ لگتے ہی پچھلا واقعہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو وہ سوتیلی اولاد کی طرح نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لہذا حسیبہ قمبرانی کی وہ ویڈیو سوشل میڈیا سےغائب ہو گئی۔

سوشل میڈیا لائکس، کمنٹس ری ٹوئٹس کی دوڑ ہے۔ سمجھ لیں کہ آپ کو آئے روز کچھ ایسا لکھنا اور شیئر کرنا ہے جس کی پذیرائی ہوتی رہے۔ آپکو ہر روز نیا سُر لگانا ہے، نیا آئٹم پیش کرنا ہے۔ یا کسی ایسے آئٹم کو دہرانا ہے جس پہ پہلے پذیرائی مل چکی ہو۔سوشل میڈیا کے لائیکس بھی پاکستان کی جمہوریت کی طرح ہیں بس جس کو جس قسم کے مواد پہ زیادہ لائیکس ملیں گے وہ شخص ویسا ہی مواد شیئر کرتا رہے گا، چاہے وہ مواد کتنا ہی بے ڈھنگا، عجیب اور نامناسب ہی کیوں نہ ہو۔ سوشل میڈیا کے اس کردار پہ بحث کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ البتہ اس وقت یہ مدعا بیان کرنے کا مقصد یہ بات واضح کرنا تھا کہ دکھ چاہے کسی کو قیامت کا ملا ہو لیکن سوشل میڈیا پہ ایک مخصوص وقت تک کے لیے “اِن” رہتا ہے اور پھر وہ آوٹ ڈیٹڈ ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی حسیبہ قمبرانی کی ویڈیو بھی  سوشل میڈیا سے غائب ہو گئی۔

جس روز میں نے یہ ویڈیو دیکھی تھی میرے دل میں بھی ایک ٹیس اٹھی اور میں نے اسی روز ارادہ باندھا تھا کہ میں اس بہن کےدکھ پہ کچھ ضرور لکھوں گا۔ اپنے طور اس کا درد بیان کروں گا لیکن جزوقتی لکھاریوں  کو بعض اوقات ایسی مصروفیات گھیر لیتی ہیں کہ وہ اپنے خیال کو الفاظ میں ڈھال نہیں پاتے۔ لہذا میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ خیال میرے ذہن میں پکتا رہا اور میں الفاظ کو زیب قرطاس نہ کر سکا۔ البتہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گزرے ایک سال میں مجھے یہ منظر نامہ مکمل بھولا ہو۔ بلکہ جب بھی کوئی تحریر لکھتا تو مجھے اپنے ذہن پہ ایک ایسی تحریر کا بوجھ محسوس ہوتا رہا جو خیال سے الفاظ کے قالب میں نہ ڈھل سکی ہو۔ اب جب کہ چند روز پہلے سوشل میڈیا ہی کی وساطت سے یہ خبر ملی کہ حسیبہ قمبرانی کے دونوں بھائی یکے بعد دیگرے لوٹ آئے ہیں توایک عجیب سا اطمینان محسوس ہوا۔ یوں لگا کہ اب بھی کسی نہ کسی طرح قانون اپنا وجود رکھتا ہے، اب بھی ناخداؤں کا کوئی خداہے۔ البتہ حسیبہ قمبرانی کی ویڈیو جس احتجاج کے دوران بنی تھی اس احتجاج میں حسیبہ اکیلی نہیں تھی۔ حسیبہ کے ساتھ کئی باپ اپنے لخت جگر ڈھونڈ رہے تھے کئی مائیں اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کو تلاش کر رہی تھیں،کئی سہاگنیں اپنے سہاگ کی بازیابی کی امید آنکھوں میں لیے احتجاج میں بیٹھی ہوئیں تھیں اور کئی حسیبہ جیسی بہنیں اپنے دلارے بھائیوں کی راہ تک رہی تھیں۔ یقیناًابھی تک وہ سب کے سب لوگ واپس نہیں لوٹے۔ البتہ ان سب کو امید ہے کہ وہ واپس لوٹ آئیں گے۔ خدارا ان کی امید ٹوٹنے نہ دیں۔اپنوں کے بنا عیدیں شبراتیں بڑی وحشت ناک ہوتی ہیں۔

ان میں سے جو مجرم ہیں ان کو عدالتوں میں پیش کریں۔ سزائیں دلوائیں۔ استغاثہ کو مضبوط کریں۔ اگر کسی کے خلاف کوئی ثبوت موجود ہیں تو ان کو سزا سے کون بچا سکتا ہے؟ اور مجرم کی حمایت میں کون آواز اٹھا سکتا ہے؟ مجرموں کو  بہر صورت سزا پاناہے۔  لیکن جب لوگ غیر معینہ مدت کے لیے گھروں سے غائب رہیں گے تو افواہیں پھیلیں گی، چہ مگوئیاں ہوں گی۔ لوگ اپنے ذہن کےمطابق باتیں بنائیں گے۔ اب آپ خود ہی سوچیے کہ بھلا  کس کس کی زبان بند کی جا سکتی ہے؟ میں حسیبہ قمبرانی کا دکھ نہیں لکھ سکا لیکن مجھے اطمینان ہے کہ میں اسکی خوشی کو لکھ رہا ہوں۔ البتہ بہت سوں کا دکھ اب بھی موجود ہے، شاید ان کا دکھ کوئی بھی  بیان نہ کر سکے۔ البتہ ریاست کو ان کے دکھ کو سمجھنا چاہیے اور ان کے سروں پہ ہاتھ رکھنا چاہیے۔ تاکہ میرے جیسے لوگ مایوسی اور دکھ کی نہیں بلکہ خوشی کی تحریریں لکھیں۔ منیر نیازی نے کیا خوبصورت شعر کہا تھا

ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمیں پہ

Advertisements
julia rana solicitors london

اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply