کیا توہم پرستی سے حکومتیں بچ سکتی ہیں۔۔ غیور شاہ ترمذی

اس بار پھر پاکستان میں 29 رمضان بدھ کے دن یعنی 12 مئی کو تھا اور دنیا بھر کے فلکیاتی اداروں کے مطابق پاکستان بھر میں دور بینوں سے بھی چاند نظر آنا ممکن نہیں تھا لیکن بھلا ہو ہماری مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا کہ جس نے رات ساڑھے 11 بجے اچانک شوال کا چاند نظر آنے کا اعلان کرتے ہوئے 13 مئی بروز جمعرات کو ملک بھر میں عید الفطر منانے کا اعلان کر دیا۔

ہم چونکہ وطن عزیز کے قانون پسند شہری بن چکے ہیں اور فی الحال ہمارا سول نافرمانی وغیرہ جیسی غداری نما تحریک چلانے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے، اس لئے ہم مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور حکومت کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے آج جمعرات مؤرخہ 13 مئی 2021ء کو عید الفطر منا رہے ہیں ۔اس موقع پر ہم اپنے تمام دوست احباب، عزیز رشتے داروں اور تمام ہم وطنوں اور دنیا بھر کے امن پسندوں کو عید الفطر کی دلی عید مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ پاک سب کو خوشیوں بھری اور میٹھی عیدیں نصیب فرمائیں۔

اب ذرا تحریر کے موضوع کی طرف واپس چلیں اور آج سے تقریباً 54 سال پہلے 11 جنوری سنہ 1967ء بروز بدھ 29 رمضان (یعنی امسال کی طرح 29 رمضان اور بدھ کا دن) کا ذکر ہے کہ جب پاکستان میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ اُن دنوں عوام میں یہ بات مشہور تھی کہ جمعہ کی عید حکمرانوں پر بڑی بھاری ہوتی ہے۔ رمضان المبارک اپنی برکتیں لٹا رہا تھا کہ 29 رمضان بدھ کا دن آ گیا۔ پورے ملک میں لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی مگر کسی کو کامیابی نہ ملی اور لوگ نمازِ تراویح پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ رات کے تقریباً ساڑھے 11 بجے کے لگ بھگ حکومت کی طرف سے اگلے دن یعنی جمعرات کو عید کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔

یہ بات جب اکابر علما تک پہنچی تو انہوں نے 29 رمضان کو چاند نظر آئے بغیر زبردستی کی عید کرنے سے انکار کر دیا اور لوگوں کو جمعرات کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جن لوگوں تک علمائے کرام کا پیغام پہنچا، انہوں نے روزہ رکھا لیکن اکثریت نے ہمارے ارادہ کی طرح اگلے دن یعنی جمعرات کو عید الفطر منا لی۔ کئی ایک مرکزی مقامات پر حکومت نے خود زبردستی عید الفطر کی نماز بھی پڑھوا ڈالی۔ ایک جگہ بڑی دلچسپ صورت حال یوں بنی کہ حکومتی لوگ نمازِ عید کے لئے عید گاہ پہنچے مگر اِن لوگوں کو عید پڑھانے والا کوئی اِمام نہ مل سکا۔ وہ جس بھی عالم ِ دین سے رابطہ کریں وہ جواب دیتا کہ میں تو روزے سے ہوں۔ بہر کیف حکومتی نمائندوں نے ایک مولانا کو ڈرا دھمکا کر امامت کے مصلے پر کھڑا کر دیا اُن مولانا نے پہلی رکعت میں معمول سے زیادہ قیام کیا اور پہلا سجدہ بھی معمول سے لمبا کیا۔ پھر جب دوسرا سجدہ بھی معمول سے لمبا ہوتا چلا گیا تو ایک بے چین نمازی نے سر اٹھا کر امام صاحب کے مصلے کی طرف دیکھا تووہ فوراً اُ ٹھ کھڑا ہوا اور بلند آواز سے بولا کہ نمازیو! اُ ٹھو تمہاری نماز ختم ہو گئی۔ نمازی اُس کی آواز پر اُٹھے تو دیکھا کہ مولانا مصلے پر موجود نہیں تھےاور مصلے کے پہلو میں اُن کے جوتوں کا جوڑا پڑا ہوا تھا۔ لوگوں نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو مولانا دور ننگے پاؤں بھاگے جا رہے تھے۔حوالہ:۔۔ (کتاب: رویت ہلال مسئلہ اور حل، تالیف: خالد اعجاز مفتی، صفحہ 11، ایڈیشن 2006)

واقعی ہی تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ بقول راوی کے آج سے تقریباً  54 سال پہلے رات گئے چاند نظر آنے کی رویت یہ فراہم کی گئی تھی کہ صدر مملکت جنرل ایوب خان کی بوڑھی والدہ افطار کے بعد چھت پر چہل قدمی کرنے گئی تھیں تو انہوں نے چاند دیکھ لیا۔ جنرل ایوب کی بوڑھی ماں سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں افطار کے کافی دیر بعد چھت پر چڑھ کے اگر وہ چاند دیکھ سکتی تھیں جو پورا مغربی و مشرقی پاکستان بھی نہیں دیکھ سکا تھا تو آج سنہ 2021ء میں دنیا بھر کے ماہرین فلکیات کی آراء کو مسترد کرتے ہوئے ہماری ٹیلنٹڈ مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور مفتی پوپلزئی کمیٹی کے لوگ بھی رات ساڑھے 11 بجے چاند کی رویت کا اعلان کر سکتے ہیں۔

حکومت کے اندرونی ذرائع میں سے ایک نے اس راقم کو بتایا ہے کہ جنرل ایوب خاں کی طرح ہمارے موجودہ وزیراعظم کا مسئلہ بھی روحانی بلکہ بقول ان کے “روحونی” ہی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر عید الفطر جمعۃ المبارک کو ہوئی تو روز عاشورہ محرم بھی بروز جمعہ کو ہی ہو گا تو یہ ان کی حکومت کے لئے سخت برا شگون ہو گا۔ توہمات پسند حکمرانوں کی تعویز، دھاگے اور استخارے اور پیر (بلکہ پیرنی زوجہ) کی اجازت بلکہ “امر” کی طرف سے اگر جمعۃ المبارک کو عید نہ منانے کا اشارہ تھا تو پھر عید الفطر جمعرات کو ہی ہونی تھی۔ اس سے پہلے بھی ہمارے حکمران توہم پرستی کے عجیب و غریب مظاہرے کر چکے ہیں۔ جنرل ضیاء کو اپنی موت سے پہلے اپنے قتل کی سازش کا خوف ہر وقت طاری رہتا تھا۔ اس نے تو ایوان صدر میں درختوں کی پوری قطاریں اپنے قتل سے چند دن پہلے اس لئے کٹوا دی تھیں کہ کہیں ان درختوں کی آڑ سے اس پر حملہ نہ ہو جائے۔

ہمارے موجودہ وزیراعظم جنازوں میں شرکت نہیں کرتے۔ سنا ہے کہ انہیں پیرنی صاحبہ کی طرف سے جنازوں میں شرکت سے منع کیا گیا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پیر صاحبان حاملہ خواتین کو کہتے ہیں کہ پیپل اور بوڑھ (برگد) کے درخت کے نیچے سے نہیں گزرنا، بانجھ عورت کے پاس نہیں بیٹھنا اور جس گھر میں جنازہ پڑا ہو اس گھر میں نہیں جانا وغیرہ وغیرہ۔ اگر حکم عدولی کی تو تمہاری اور بچے کی جان کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اور ہاں دوبارہ تعویز لینے میرے پاس نہ آنا اور کوئی اور پیر ڈھونڈ لینا (چونکہ اس عمر میں وزیراعظم صاحب کو نئی پیرنی کم زوجہ یا زوجہ کم پیرنی ملنی مشکل ہے تو موجودہ پیرنی زوجہ کا امر تسلیم کرنا ہی دانشمندی کہلائے گا۔

یاد رہے کہ وزیراعظم صاحب نے سانحہ اے پی ایس سکول پشاور 16 دسمبر 2015ء کو اپنے قریبی ساتھیوں کے منع کرنے کے باوجود بھی اور سینکڑوں بے گناہ بچوں کی قبروں کی مٹی اور ماؤں کے آنسو خشک نہ ہوتے ہوئے بھی ٹھیک 20 دن بعد یعنی 6 جنوری 2016ء کو سہرا بانھ لیا تھا حالانکہ پاکستانی معاشرے میں ایسا کوئی شقی القلب انسان ہی کر سکتا ہے۔ شاید یہاں بھی معاملہ توھم پرستی کا ہی تھا کہ کسی انتریامی اور جوتشی نے کہا ہو گا کہ اگر یہ شبھ گھڑی ہاتھ سے نکل گئی تو پھر عمر بھر کے لئے کنوارے رہ جاؤ گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اختتامیہ:
بات وقت کی ہوتی ہے۔ جیسے عروج آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے۔ اسی طرح جب زوال آتا ہے تو وہ بھی آتا ہی چلا جاتا ہے۔
جنرل ایوب سنہ 1967ء میں بدھ کے دن 29 رمضان کی رات گئے اگلے دن عید الفطر کروا کر بھی اپنی حکومت نہیں بچا سکے۔
جنرل ضیاء بھی ایوان صدر میں درختوں کی پوری قطاریں کٹوا کر نہ اپنی جان بچا سکے۔
یقین رہے کہ اگر وزیراعظم عمران خاں کا زوال شروع ہو چکا ہے تو وہ بھی بدھ 29 رمضان المبارک کی رات ساڑھے 11 بجے اگلے دن عید الفطر کا اعلان کروا کر بھی اپنی حکومت نہیں بچا سکیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply