فلسفی ہیرو (6)۔۔وہاراامباکر

شاید آپ نے فلم “میٹرکس” دیکھی ہو۔ فلم میں جو دنیا دکھائی گئی ہے، اس میں تمام انسان جیلی کے کنٹینروں میں مقید ہیں۔ تار اور ٹیوب انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا دماغ ایک فرضی دنیا تخلیق کر رہا ہے جس میں وہ روزمرہ کی زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ یہ دنیا اصل ہے۔
کچھ لوگ اس قید سے باہر نکل آتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اصل دنیا بنجر زمین ہے اور جو زندگیاں ہر کوئی گزار رہا ہے، وہ صرف دماغ میں تخلیق کردہ کہانیاں ہیں۔ چند لوگ اس سراب سے ریسکیو کر لئے جاتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ اصل دنیا سے اتنے ناخوش ہیں کہ وہ واپس سراب میں جانے کا انتخاب کرتے ہیں۔
لیکن نیو اور کچھ لوگ ٹھہر کر لڑنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ آرام و آسائش کی قیمت پر سچ کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ اس فلم کے فلسفی ہیرو ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اس فلم کے بعد آپ نے سوچا ہو کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ کیا ہم کسی ایسی ہی دنیا میں تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو ایسا سوچنے والے آپ پہلے شخص نہیں۔ اور اصل نیو، وہ جو سچ کی تلاش میں سراب کی میٹرکس کے خلاف جنگ کرنے نکلے تھے، وہ رینے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سقراط دہشت زدہ تھے کہ وہ (اور ہم سب) دنیا کے بارے میں کس قدر کم واقفیت رکھتے ہیں۔ فلسفی کا جنون علم حاصل کرنے کا ہے اور اس بارے میں فکر کرنا کہ جو وہ جانتے ہیں، وہ غلط تو نہیں۔ لیکن اس سوال پر جس نے بڑا گہرا غوطہ لگایا، وہ سترہویں صدی کے سائنسدان، ریاضی دان اور فلسفی رینے ڈیکارٹ تھے۔
سکیپٹک وہ ہے جو اس بارے میں سوال کرتا ہے کہ کیا کسی بھی چیز کو یقین سے جانا جا سکتا ہے۔ اور ڈیکارٹ ایک بڑے سکیپٹک تھے۔ اور ان کے خیالات پر اس طرح کی تشکیک کا نام Cartesian skepticism دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیکارٹ کو احساس ہوا کہ بہت سی چیزیں جن پر انہیں یقین تھا، درست نہیں تھیں۔ ہم سب اس فیز سے گزرتے ہیں اور یہ ہمارے میچور ہونے کے عمل کا حصہ ہے۔ جھیل پر اترنے والی پریاں یا قبرستان کی چڑیلیں؟ کیا کسی وقت میں آپ انہیں اصل سمجھتے تھے؟ ڈیکارٹ کو احساس ہوا کہ شاید ایسی چیزیں ہیں جنہیں وہ اصل سمجھتے ہیں لیکن شاید ابھی تک انہیں اس کا احساس ہوا نہ ہو۔ آخر کیسے وہ پہچانیں کہ سچ کیا ہے؟
ڈیکارٹ اس پر پریشان رہے اور پھر ایک طریقہ نکالا۔ کسی بھی شے پر یقین نہ کیا جائے۔ کم از کم عارضی طور پر۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہوں نے ایک مثال دی۔ فرض کیجئے کہ میرے پاس سیب کی ٹوکری ہے۔ اور اس میں سے کچھ سیب گلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ اگر انہیں نکالا نہ گیا تو یہ اچھے سیبوں کو بھی خراب کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سب سیب باہر پھینک دئے جائیں اور باری باری ہر سیب کا معائنہ کر کے اچھے سیب کو واپس ڈال لیا جائے۔
اسی طرح خراب اور گلے ہوئے خیال بھی ہو سکتے ہیں جو باقی سب کو خراب کر سکتے ہیں۔ ڈیکارٹ نے اپنے خیالات کی ٹوکری الٹا دی اور فیصلہ کیا کہ نئے سرے سے شروع کریں گے۔
اگر وہ ہر ایک کا معائنہ کریں گے اور صرف اسے قبول کریں گے جس پر شک نہیں تو پھر وہ انہیں پتا ہو گا ان کی ٹوکری میں صرف ٹھیک چیزیں ہوں گی۔ اور یوں، ڈیکارٹ نے ایک ایک کر کے معائنے کا یہ کام شروع کیا۔
انہوں نے ابتدا ایمپریکل یقین سے کی۔ ان چیزوں سے جنہیں ہم حسیات کے ذریعے براہِ راست جانتے ہیں۔ کئی لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ ہماری انفارمیشن کے ذرائع میں یہ سب سے قابلِ اعتبار طریقہ ہے۔ اگر میں کسی کو دیکھ، سن، چکھ، سونگھ اور چھو سکتا ہوں تو مجھے اس کے بارے میں علم ہے۔ ٹھیک؟
نہیں۔ ڈیکارٹ نے کہا کہ حسیات تو ہمیں ہر وقت دھوکا دیتی رہتی ہیں۔ کسی شخص پر کسی اور کا گمان ہونا، بیماری میں کھانے کا ذائقہ بدل جانا، چکر آئے تو سب کچھ گھومتا ہوا محسوس ہونا، گرم مشروب کے بعد پانی کا سرد لگنا۔ اور یہ طویل فہرست ہے۔ آپ ان گنت ایسے واقعات بتا سکتے ہوں گے جب آپ کی حسیات نے آپ کو غلط انفارمیشن دی۔ اور جب آپ کو اس کا احساس ہو جاتا ہے تو پھر حسیات پر اعتبار کیسے کریں گے؟ ڈیکارٹ کے لئے اس نے معاملہ خراب کر دیا۔
کیا آپ نے کبھی ایسا خواب دیکھا ہے جو اتنا تفصیلی تھا کہ آپ کو لگا کہ یہ اصل تھا۔ آپ کا ردِ عمل، احساس اصل تھے۔ کبھی ایسا لگا کہ آپ خواب کے اندر سو کر اٹھے ہیں لیکن اصل میں خواب میں ہی ہیں۔
ہر ایک کو تو ایسا تجربہ نہیں ہوتا لیکن کئی کو ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اس وقت معلوم نہیں ہوتا کہ ہم خواب میں ہیں۔ تو پھر سوال یہ کہ ہمیں یہ کیسے معلوم ہے کہ اس وقت ہم محوِ خواب نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ آپ کو لگے کہ آپ یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں لیکن اصل میں آپ اپنے بستر پر سوئے ہوئے ہیں اور یہ تو صرف خواب ہے؟ کیا آپ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید آپ کہیں کہ ہاں، کبھی کبھار مغالطہ ہو جاتا ہے۔ لیکن خواب ختم ہو جاتے ہیں اور جب میں اٹھتا ہوں تو مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ صرف میرے سر میں جاری تھا۔ اور جب میری حسیات گڑبڑ کرتی ہیں تب بھی یہ عارضی طور پر ہوتا ہے۔ یہ عارضی واقعات ہیں جو کسی خاص صورتحال تک محدود ہیں۔ جس طرح صورتحال تبدیل ہوتی ہے مجھے پتا لگ جاتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں تھا۔ اگلے حسیاتی تجربات پچھلوں کی تصصیح کروا دیتے ہیں۔
یہ کوالٹی، جس میں ہم خود کو چیک کر سکتے ہیں اور پتا لگا لیتے ہیں کہ جو محسوس کیا وہ دھوکا تھا، اسے ڈیکارٹ نے “مقامی شک” کا نام دیا۔ یہ کسی وقت میں ہونے والے حسیاتی تجربے پر شک ہے۔ لیکن اگر ہر چیز ہی دھوکا ہے؟ اور ہر کوئی پیدائش سے موت تک غلط حقیقت اور سراب کا شکار ہے؟ اور کچھ بھی ویسا نہیں جیسا محسوس ہوتا ہے؟ ویسا ہی جیسا میٹرکس میں ہے۔ اس وقت کا شک جس سے نہ آپ باہر نکل سکیں اور نہ ہی اس کو چیک کر سکیں، “گلوبل شک” کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچ کا ایسا تجربہ برٹینڈ رسل نے تجویز کیا تھا جو “پانچ منٹ کا مفروضہ” ہے۔
کیا کائنات کو خالقِ کائنات نے پانچ منٹ پہلے بنایا تھا؟ اور اس کو جان کر ایسے بنایا گیا کہ یہ اربوں سال پرانی لگے۔ ڈائنوسار کی ہڈیوں سے لے کر آپ کے گھٹنے پر زخم کے نشان تک سب ایسا ہی سراب ہے جو اس طرح رکھا گیا۔ اور اس زخم کے بارے جو آپ کی سائیکل سے گرنے کی یادداشت ہے، وہ بھی اسی وقت ڈالی گئی تھی۔
یہ سوچ پاگل پن لگے لیکن ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ایسا نہیں۔ رسل کا سوال یہ تھا کہ “کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟” ڈیکارٹ کی اس بارے میں رائے تھی کہ ہاں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیکارٹ نے سوال کیا کہ اگر کوئی شرارتی جینئیس ہے جس کا مقصد ہمیں حقیقت کے بارے میں دھوکا دینا ہے اور وہ چالاک بھی ہے تو ہم اسے کیسے پہچانیں؟ ڈیکارٹ کے خیال میں اگرچہ ایسا نہیں تھا، لیکن سوال اس کی موجودگی کا نہیں، بلکہ یہ کہ ایسے وجود کو کیسے غلط قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور جب تک ایسا نہیں کیا جا سکتا، انہیں پریشانی تھی کہ ہم پھنس چکے ہیں۔ ہم کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ کچھ بھی بھروسہ نہیں کر سکتے۔
ہمارا ہر یقین، ہر حسیاتی تجربہ، ہر سوچ ذہن میں اس شرارتی جینئیس کا کارنامہ ہو سکتا ہے جو ہمارے سراب کو اس قدر مکمل بنا رہا ہے کہ ہمارے پاس سراب کو پہچاننے کا کوئی طریقہ ہی نہیں۔ (ویسے ہی جیسے میٹرکس کی مشین)۔
ڈیکارٹ مایوسی کے دہانے پر تھے۔ اور پھر، انہیں ایک احساس ہوا۔ ان کے پاس ہر چیز پر شک کرنے کی وجہ تھی۔ لیکن ایک استثنا تھا۔ اور وہ یہ حقیقت تھی کہ وہ شک کر رہے تھے۔
وہ جانتے تھے کہ وہ شک کر رہے ہیں اور اس بات پر مکمل طور پر یقین کر سکتے تھے۔ اور اگر وہ شک کر رہے تھے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کا اپنا وجود ہے۔ کم از کم سوچنے والے شے کے طور پر۔
آخر کار، شک ایک سوچ ہے اور اگر سوچ ہے تو کوئی سوچنے والا ہے جس کے پاس یہ سوچ ہے۔
ڈیکارٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ تو نہیں جان سکتے کہ ان کے پاس اصل جسم ہے کیونکہ یہ جسم بھی شرارتی جئنئیس کے سراب کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن ان کے پاس ذہن تو یقیناً موجود ہے۔ ورنہ یہ سوچ نہ ہوتی اور یہ ڈیکارٹ کا “پا لیا” والا لمحہ تھا۔ انہوں نے ایک سِرا ڈھونڈ لیا تھا۔
اور ڈیکارٹ نے اپنی کتاب Meditations on first philosophy میں یہ شہرہ آفاق فقرہ لکھا، “Cogito ergo sum”۔ “میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ فلسفے کی ایک بہت ہی مشہور بصیرت ہے جو ڈیکارٹ نے اپنے اس فکری سفر میں پا لی تھی۔ میں اپنے وجود پر شک نہیں کر سکتا۔ میں (اپنے جسم سمیت) ہر شے پر شک کر سکتا ہوں۔ لیکن اس پر نہیں کہ کم از کم میں ایک ذہن ہوں جس میں سوچیں ہیں۔
یہ ڈیکارٹ کا بنیادی یقین تھا۔ اپنی ٹوکری میں واپس رکھا جانے والا پہلا سیب۔
اس کے بعد انہوں نے طریقہ نکالا کہ اس کو بنیاد بنا کر کیسے دوسرے یقین واپس رکھے جا سکتے ہیں۔ جب انہیں اس پر یقین ہو گیا کہ وہ ایک سوچنے والا وجود ہیں تو انہوں نے سوچوں کا تجزیہ کرنا شروع کیا۔ اور خدا سے لے کر فزیکل دنیا تک، اپنے یقین ایک ایک کر کے واپس تعمیر کئے۔ اور پھر اس شرارتی جینئیس کو غلط قرار دینے کا طریقہ نکالا۔ اور واپس اپنی یقینوں کی ٹوکری بھر لی۔
اور یوں تشکیک کی طاقت سے ڈیکارٹ نے اپنے ولن یعنی شرارتی جئنئیس کے خطرے کو شکست دے دی۔ اسی طرح جیسے نیو نے میٹرکس کو شارٹ سرکٹ کر دیا تھا (اگرچہ ڈیکارٹ کے مقابلے میں اتنے سپیشل ایفیکٹ نہیں تھے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیکارٹ نے ایک ایسا یقین پا لیا تھا جو شکوک سے بالاتر تھا۔ یہ ان کا سوچنے والی شے کے طور پر اپنا وجود تھا۔ لیکن اس کی بنیاد پر باقی سب کچھ جو ڈیکارٹ نے ثابت کر لیا؟
اس پر فلسفیوں میں ابھی خاصی بحث ہے کہ وہ اس میں کتنا کامیاب ہوئے تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply