مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونا جواز نہیں ہے کہ اسلام کا دفاع ذات پہ لازم کر لیا جائے۔ اسلام بعین حق ہے وہ نکتہ ہے جو باقیوں سے اسے ممتاز کرتا ہے۔ دفاع تو اس کا کیا جاتا ہے جو ہمارے دم سے قائم ہو۔ گولچی کو لے لیں اگر وہ اپنی جگہ خالی چھوڑ دے تو دس صفر سے میچ اگلے کے نام ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن کیا اسلام کو کسی گولچی کی ضرورت ہے؟ دفاع کرنے کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب ہم متعین ذمہ داریوں سے بڑھ کر ذمہ دار بننے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں، مثلاً اللّہ کہتا ہے کہ ہدایت دینے کا اختیار اس نے کسی کو نہیں سونپا، حتیٰ کہ اس کے بھیجے گئے تمام پیغمبروں کو بھی صرف حکمت اور علم کے خزانوں سے لیس کیا ہے لیکن لوہا منوانے کی بجائے لوہا آزمانے کے شوقین لوگوں کو چین ہی نہیں آتا جب تک لڑکی والے ہاں نہ کر دیں۔ انھیں لگتا ہے کہ وہ کل کائنات ہیں اور مکمل ہیں اور سامنے والے کو صرف اتنا اختیار ہے کہ وہ ہاں میں ہاں ملاتا جائے۔
سیدی وہ جماعت بنانے چلے تھے جو متبادل کی حیثیت رکھے ہوئے ہو۔ اوّل تو جماعت میں ڈاکٹرز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی ڈاکٹرز بنے ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن ایسا کیا ہوا کہ ایک ڈاکٹر صاحب کے والد محترم مسرت کے اظہار کی غرض لیے ٹویٹ کرتے ہیں اور یہ ٹویٹ ان کے لیے کئی سوالات پیدا کرنے کا کام کر لیتا ہے؟ جمہوری معاشروں میں سوالوں سے نظریں چرانے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور دیہاتی کا حضرت عمر سے بے سر و پا سوال اس چیز کا پیغام سموئے ہوئے ہے کہ ذمہ دار کسی بھی سوال کا جواب دینے کا پابند ہے۔ اگر ذمہ داری پہ فائز نہیں بھی ہیں تو جہاں تربیتی مراحل میں باقی چیزیں شامل ہیں یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کے سوالوں کو لیا جائے تاکہ تسلی بخش جواب ممکن ہو سکے۔
چونکہ پی ایچ ڈی ہو رہی ہیں اور معمولی سی پیش رفت پہ ہنگامہ آرائی کی ضرورت ہی نہیں ہے، لہذا بہتر یہی تھا کہ دفاعی مورچے خالی ہی رہتے اور جنگ بندی کے معاہدے کا پاس رکھتے ہوئے گولہ باری سے پرہیز کیا جاتا ،یا صرف اس حد تک ہوتا کہ سوال اٹھانے والے کو تسلی بخش جواب مل جاتا، لیکن ایک فرد کے دفاع کے لیے تاریخ کے جھروکوں میں جاکر کے من چاہے ریکارڈز اٹھا لانا اور منہ پہ مارنا حکمت سے بالکل خالی ہے۔
شخصیت پرستی سید نے کبھی بھی پسند نہیں فرمائی۔ سید مودودی نے ان شاء اللہ حق پہ ہوتے ہوئے کسی بھی طرح کے دفاع میں وقت کے ضائع ہونے کا امکان پیش نظر ہوتے ہوئے کام سے کام رکھا۔ ایک بچے کی پی ایچ ڈی کو لے کے یوں دفاعی مورچے سنبھالنے اور اسے حق و باطل کا مسئلہ بنا ڈالنے سے کہیں بہتر تھا کہ خاموشی سے ان کی بات لے لی جاتی اور آئینہ مان کر مستقبل کی بہتری کی کوشش کی منصوبہ بندی ترتیب دے دی جاتی کیونکہ گڑ بڑ کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک سوال نہیں کئی سوالات ہیں۔ ذمہ داران کی جہاد میں شرکت کی یقین دہانی سے مطمئن کیا تو یہ سوال لے آئے کہ مغرب کی تعلیم کیسے فتنہ ہے جبکہ لختِ جگر وہی لے رہے۔ یہاں اقبال کی مثال دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی تو یہ اٹھا لائے کہ مخلوط نظام تعلیم کیسے حلال طے پا گیا ،یا یہ صرف لخت جگر کے لیے خاص پیکج ہے؟ یہاں سے جان کی امان مانگی تو یہ جواب دینے آ گئے کہ بھئی کاروبار تو بڑے بنا لیے ہیں کیا معیار بھی ہے یا نہیں؟ اس لیے فرد کے دفاع سے باہر نکل کر کے صرف جماعت، تحریک، نصب العین اور نظریے کے پرچار کے لیے توانائیاں صرف کی جائیں۔ یاد رہے ہر ایک نگہبان ہے اور نگہبانی کے لیے جوابدہ ہے۔
کسی کا بھی بچہ ہو وہ مجاہد کیوں بنے؟ سعادت کی زندگی کیوں نہ بسر کرے؟ صرف دعائیں کیوں نہ کرے؟ وہ ٹیکس بھی دے اور بندوق بھی چلائے؟ چلو چلا لی۔ کیا قوم نے قربانیوں کو کھاتے میں تصور کیا؟ کیا سیکھنے کی ضرورت ہے؟ کیا فوج اور ان کے بچے مر گئے ہیں؟ کیا ہر قربانی کے لیے غریب کا بچہ ہی ہے؟ کیا ہمیشہ ہی مچھلی مگر مچھ کا شکار بنے؟ اور یہ کہہ دینا کہ وہ مرضی سے گئے تھے۔ کوئی زور زبردستی نہیں تھی۔ زبردستی تو ایک انسان دوسرے پہ نہیں کر سکتا لیکن تبلیغ و تلقین تو واعظوں کا ہمیشہ سے حق رہا ہے۔
سید مودودی رح نے اپنے دفاع کی ضرورت بھی کبھی محسوس نہیں کی اور یہاں شخصیت اور پیش رفت دونوں ہی معمولی ہیں۔ ہر چیز کو حق و باطل کا مسئلہ بنا لینے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ جنھیں ہم خام مال کہتے ہیں اور ری سائیکلنگ کے دعوے کرتے ہیں, انھیں دور کرکے کیا ہاتھ آتا ہے؟ شاید وہ مرحلہ ہے جب انسان دوسروں کی اصلاح اور قبر بنانے کے چکر میں اپنی تربیت بھول جاتا ہے۔ بہتر یہی ہے ماضی کو بھول کر سرخ و سبز کے ایکے اور سیاہ کو اوقات میں لانے کا وقت ہے۔ لڑائی لا حاصل ہے اور بحث بے فائدہ ہے اور بہتری آگے بڑھنے اور قوم بن کر چلنے میں ہے۔ استعمال ہوتے رہے ہیں کافی ہے اور ماضی ہے۔ اب مستقبل اپنے ہاتھوں میں ہے لہذا ٹانگیں کھینچنے سے کہیں بہتر ہے اپنے ہاتھوں کو مل جل کر محفوظ بنائیں تاکہ مستقبل کوئی استعمال میں نہ لا پائے۔
Facebook Comments