میں کہہ رہا تھا ۔۔۔
“اس لمس کےنام جوانسان کی اولین حِس ہے ”
ادب میں جنس کو موضوع بنانا عیب نہیں،
جنس کا بطور حربہ سلیقے سے استعمال بھی گناہ نہیں ۔اس کا ٹھیک سے برت نہ سکنا، گناہ عظیم ہے ۔
یہ کام نہ تو پارساؤں کا ہے۔ ۔نہ سفلیوں کا ۔
یہ تو پُل صراط پہ چلنے جیسا ہے ۔
جسم ہی نہیں کائناتی قوتوں کا بھی توازن رکھنا پڑتا ہے ۔
شاہ جی کہتے رہے ۔
حسن ، پجاری سے ہوتا ہے، وہاں وہ داسیوں سے بدتر تھی ،اکتیس سال آگ میں جل کر اس پہ انکشاف ہوا،
ہر انسان خود حسن کا خدا ہوتا ہے
لیکن صرف کسی ایک پجاری کیلئے ”
سورج کے ساتھ گھوم کر سمجھ آئی کہ
“میں ہوں تو میرا سایہ بھی ہے
سید ماجد شاہ کی کتاب ( ق )
پڑھتے ہوئے شکر ادا کیا کہ دو تہائی زندگی بیت گئی۔پتہ نہیں اب کتنی باقی ہے ۔
سوچتی ہوں” گھوم رے سورج”جیسا کوئی منتر میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں بھی سورج کو اپنی من مرضی سے گھما کر وہ تمام لمحے چرا لاتی، جب پجاری دیوی کی کھوج میں تھا
پھر سوچتی ہوں کہ یہ منتر سسی ،ہیر ،سوہنی کے ہاتھ لگ جاتا تو یہ سب آج کہانیوں میں زندہ نہیں ہوتیں ۔دنیا انہیں محبت کے استعاروں کے طور پہ یاد نہ کرتی۔
پھر ،تقدیر کے لکھے کو بدلا بھی تو نہیں جا سکتا ۔۔۔
شاہ جی کی تحریروں میں کردار ہیں ۔زندگی ہے، جلتی بجھتی ضرورتیں ہیں، روزمرہ کہانیاں اور ان سے وابستہ سبق ہیں ۔
میں نمانی فقروں کے حصار میں رہ گئی
انہوں نے افسانے لکھے ۔میں نے زمانوں کو محسوس کیا ۔۔
وہ جلترنگ سنی جو بارش کے قطرے کھڑکی کے شیشے پہ بجاتے ہیں ۔
محبت کو محبت ہی بیان کر سکتی ہے ۔
لکھتے ہیں۔۔
“چہرے پہ آنکھیں بے معنی ہوجائیں تو یقین جانیں انگلیوں کی پوروں میں،
ہمارے پاؤں اور ہمارے کانوں میں، سانسوں میں ،جسم کے ایک ایک روئیں میں،
ہزاروں آنکھیں اگ آئیں گی ۔”
یقین کرلیں میں نے “ق”کو آنکھوں سے نہیں دل سے پڑھا ہے ۔
ربیعہ سلیم 9 مئی2021
تبصرے کا بیشتر حصہ کتاب سے منقول ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں