• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نکاح متعہ ( شیعہ + سنی) و نکاح مسیار (سنی) کا تقابلی جائزہ/حصّہ اوّل۔۔ذوالفقار خاں ناصر ایڈووکیٹ

نکاح متعہ ( شیعہ + سنی) و نکاح مسیار (سنی) کا تقابلی جائزہ/حصّہ اوّل۔۔ذوالفقار خاں ناصر ایڈووکیٹ

اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت اور فطرت میں کچھ خصوصیات رکھی ہیں جن سے صَرفِ  نظر نہیں کیا جاسکتا۔ انہی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت جنسی میلان ہے۔ یہ بہت قوی ہوتی ہے۔ اس پر آسانی سے قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ مشہور فلسفہ دان فرائڈ نے تو اس میلان کو ” Second biological necessity after food” یعنی غذا کے  بعد دوسری تجسیمی ضرورت قرار دیا ہے۔

قرآن کریم میں حضرت یوسف ع  کا یہ جملہ منقول ہے:
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُِّ الَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَھُنَّ اَصْبُ اِلَیْھِنَّ وَ اَکُنْ مِّنَ الْجٰھِلِیْنَO فَاسْتَجَابَ لَہ رَبُّہ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَھُنَّ اِنَّہ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (۱)
(یوسف) نے کہا پروردگار! یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ مجھے دعوت دے رہی ہیں ،اور اگر تو ان کے مکر کو مجھ سے دور نہ کرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہو سکتا ہوں اور میں بھی جاہلوں میں سے ہو سکتا ہوں۔ پس اس کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی اور ان عورتوں کے مکر کو پھیر دیا یقیناً وہ سننے والا اورجاننے والا ہے۔

مرد اور عورت دونوں میں ایک دوسرے کے لیے کشش ہوتی ہے۔ ان کا ایک دوسرے کے بغیر رہنا انتہائی مشکل ہے۔ اسی لیے خدا نے آدم ع   کے ساتھ حوّا کو بھی خلق کیا اور کہا:
اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِءْتُمَا(۲)
اے آدم! اب تم اپنی زوجہ کے ساتھ جنت میں ساکن ہو جاؤ اور جہاں چاہو آرام سے کھاؤ۔

گویا جنت میں بھی ایک دوسرے کے بغیر سکون حاصل نہیں ہو سکتا۔ معلوم ہوا یہ تعلق ناگزیر ہے۔ اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس سے سماجی برائیاں پیدا نہ ہوں۔معاشرتی نقصانات نہ ہوں۔ برائیوں کا خاتمہ ہو سکے۔ شریعت نے اس کے لیے ایک راستہ رکھا ہے جسے نکاح کہتے ہیں۔ اب اس کی کئی صورتیں ہیں۔ نکاح دائمی جو کہ عام طور پر رائج ہے۔ نکاح متعہ جس کے شیعہ حضرات  قائل ہیں۔

نکاح متعہ جو صیغہ ، نکاح انقطاعی یا نکاح منقطع کے نام سے مشہور ہے ۔یہ ایک مستحب شادی یا ازدواج ہے جس میں خاتون ایک صیغہ پڑھ کر ایک معینہ مدت اور معینہ حق مہر کے بدلے میں اپنے آپ کو ایک مرد کے حبالہ نکاح میں لاتی ہے۔ قرآن کریم میں آیت
“فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً”
(ترجمہ: تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو):
اسی قسم کے نکاح کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

نکاح متعہ (عربی : نكاح المتعة ) جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے: ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے، یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے ، اور اولاد انہیں والدین سے منسوب ہو تی ہے، اگر فریقین چاہیں تو مدتِ اختتامِ متعہ پر علیحدگی کی بجائے اسے جاری (یا مستقل) بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نکاح ابتداء  سے اسلام میں متعدد بار جائز ہوا اور اس سے روکا گیا پھر جائز ہوا۔ تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے چند سال قبل تک اس کی موجودگی پر سنی بھی اور شیعہ بھی دونوں اتفاق کرتے ہیں۔ یعنی اس کا اصل میں حلال ہونا مسلم اور مورد اتفاق ہے مگر اکثر شیعہ اور سنی نیز دیگر فرقے اس کے حلیت باقی رہنے یا حرام ہوجانے کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ تاہم امامیہ کے درمیان متعہ کے جائز اور مشروع ہونے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں۔

متعہ کے اصول!
اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ چاہے متعہ رائج ہو یا نہیں اسے حلال سمجھا جائے ،جیسے حلالہ کو حلال سمجھا جاتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ یہ کیا بھی جائے۔ اسی لیے اس کا رواج عمومی نہیں۔ متعہ نکاح کے کچھ احکام درج ہیں جو مختلف آیت اللہ اور مجتہدین کے مواقع الجال (ویب سائٹس) پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

-نکاحِ متعہ میں صیغہ پڑھنا ضروری ہے اور اس میں مہر اور وقت  معین کرنا لازمی ہے۔
-نکاح متعہ صرف انہی سے حلال ہے جن سے نکاحِ دائمی حلال ہے۔ مثلاً پہلے سے شادی شدہ یا دورانِ عدت خاتون سے یہ نکاح نہیں ہو سکتا۔
-کنواری لڑکی بغیر ولی کی اجازت کے یہ نکاح نہیں کر سکتی۔
-نکاح متعہ کو دائمی نکاح میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
-حقوق کے لحاظ سے متعہ اور دائمی شادی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
-نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اگلے نکاح سے پہلے عورت کے لیے عدت کا پورا کرنا ضروری ہے
-احکام وراثت من و عن لاگو ہوتے ہیں۔

نکاح مسیار !
آج کل ایک نئی صورت سامنے آئی ہے جسے نکاح مسیار کہتے ہیں۔ لفظ مسیار سیر سے نکلا ہے۔ جس کے معانی ’’جانا‘‘ کے ہیں۔ چونکہ نکاح کرنے کے بعد عام طور پر عورت مرد کے گھر آجاتی ہے جبکہ نکاح مسیار میں عورت کے بجائے مرد اس کے گھر آتا جاتا ہے اسی لیے اسے نکاح مسیار کہتے ہیں۔

نکاح کی یہ صورت آج کل خلیجی ممالک کے علاوہ افغانستان میں بھی رائج ہے۔ عربی میں اسے نکاح مسیار کے علاوہ نکاح المرور اور عدم مکث طویل بھی کہا جاتا ہے۔ مرور کے معانی تو وہی سیر والے ہیں۔ البتہ عدم مکث طویل اس لیے کہتے ہیں چونکہ شوہر بیوی کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرتا۔

ڈاکٹر یوسف قرضاوی اس کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ھوالزواج الذی یذھب فیہ الرجل الی بیت المرأۃ ولا تنتقل المرأۃ الی بیت الرجل و فی الغالب تکون ھذہ الزوجۃ ثانیۃ وعندہ زوجۃ اخری ھی التی تکون فی بیتہ وینفق علیھا(۳)
یہ وہ نکاح ہے جس میں مرد عورت کے گھر جاتا ہے۔ عورت مرد کے گھر منتقل نہیں ہوتی۔ عام طور پر یہ مرد کی دوسری شادی ہوتی ہے۔ اس کی ایک اور بیوی ہوتی ہے جو اس کے گھر میں ہوتی ہے اور وہ اس کا نفقہ بھی ادا کرتا ہے۔
ھبۃ الکبار العلماء السعودیۃ کے رکن ابن منیع کہتے ہیں:
انہ زواج مستکمل لجمیع ارکانہ و شروطہ الا ان الزوجین قد ارتضیا واتفقا علی ان لا یکون للزوجۃ حق المبیت او القسمۃ وانما الامر راجع للزوج متی رغب فی زیارۃ زوجتہ فی ای ساعۃ من ساعات الیوم واللیلۃ فلہ ذلک۔(۴)
یہ بھی ایک مکمل عقد ہے جو اپنے تمام ارکان اور شروط پر مشتمل ہوتا ہے۔ البتہ میاں بیوی دونوں طے کر لیتے ہیں کہ زوجہ کے لیے حق مبیت نہیں ہوتا۔ شوہر کی مرضی ہوتی ہے کہ دن ہو یا رات جب چاہے اپنی بیوی کے پاس آسکتا ہے۔

حق مبیت یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی چند بیویاں ہوں تو برابر کی سطح پر وہ ان کے درمیان راتیں تقسیم کرتا ہے اور اسی حساب سے ان کے پاس آتا ہے۔

دمشق یونیورسٹی کے پروفیسر اور مجمع فقہ اسلامی کے رکن وھبہ زحیلی اس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ھو الزواج الذی یتم بین رجل وامرأۃ بایجاب و قبول و شھادۃ شھود و حضور ولی علی ان تتنازل المراۃ حقوقھا المادیۃ من مسکن و نفقۃ لھا ولا لاولادھا ان ولدت وعن بعض حقوقھا مثل قسم فی المبیت بینھا و بین ضرتھا و تکفی بان یتردد علیھا الرجل احیاناً(۵)
یہ ایسا عقد ہے جو عورت اور مرد کے درمیان ایجاب و قبول اور گواہوں اور ولی کی موجودگی کے ساتھ منعقد ہوتا ہے، اس بنیاد پرکہ عورت اپنے بعض حقوق مثلاً رہائش اپنے اور اپنی اولاد(اگر ہو جائے) کے نان و نفقہ اور شب بسری وغیرہ سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ مرد جب چاہے اس کے پاس آسکتا ہے۔

نکاح مسیار کی ابتدا
یہ نکاح زیادہ پرانا نہیں ہے۔ موجودہ شکل و صورت میں پہلی دفعہ سعودی عرب کے قصبہ قصیم میں فہد غنیم نامی شخص نے شیخ عثیمین کے فتویٰ  سے انجام دیا۔ شیخ عثیمین نے اسے جائز قرار دیا تھا۔(۶)
اس وقت یہ نکاح متحدہ امارات، لبنان، مصر، افغانستان، سوڈان اور شام میں رائج ہو چکا ہے۔

شیعہ فقہ میں اس قسم کے نکاح کی مثال نہیں ملتی۔ البتہ غیر شیعہ فقہ میں نکاح النھاریات واللیلیات جیسے نکاح موجود ہیں جو نکاح مسیار سے ملتے جلتے ہیں اگرچہ ابن قدامہ نے اسے ناجائز قرار دیاہے۔ وہ لکھتے ہیں:
نقل عنہ المروذی فی النھاریات واللیلیات: لیس ھذا من نکاح اھل الاسلام وممن کرہ تزویج النھاریات حماد بن ابی سلیمان و ابن شبرمۃ(۷)
مروذی نے نہاریات ولیلیات میں سے احمد بن حنبل سے اسے نقل کیا ہے۔ یہ نکاح اسلام میں نہیں ہے۔ حماد بن ابی سلیمان اور ابن شبرمہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔

نکاح مسیار کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاسکتی ہے۔
۱۔ بہت سے لوگ تعلیم کے حصول یا تجارت وغیرہ کی وجہ سے بیرون سفر پر جاتے ہیں اور ان کے سفر لمبے ہو جاتے ہیں۔ وہاں وہ جنسی محرومیت کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بیویوں کو ساتھ نہیں لے جاسکتے ہیں۔
۲۔ بعض افراد ایسے ہیں کہ جن کی بیویاں مختلف بیماریوں یا مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں اور اس طرح وہ اپنے شوہر کی جنسی ضروریات کو پورا نہیں کر پاتیں۔
۳۔ بہت سے فوجی ایسے ہیں جو بارڈر کی حفاظت کے لیے یا کسی اور وجہ سے لمبی ڈیوٹی پر اپنے گھروں سے دور چلے جاتے ہیں اور وہاں جنسی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
۴۔ بعض اوقات حمل کے دوران یا بعض دیگر وجوہات کی بنا پر انسان مجبور ہو جاتا ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے بیوی سے جنسی روابط ترک کردے۔
۵۔ بعض اوقات خواتین کے پاس زندگی گزارنے کے تمام وسائل ہوتے ہیں وہ یا ملازمت پیشہ ہوتی ہیں یا تعلیم حاصل کررہی ہوتی ہیں، انھیں جنسی خواہشات کی تکمیل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ ایسے میں زوج المسیار بہترین شرعی حل ہے۔

یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ضرورت متعہ کے سلسلے میں بھی کم و بیش یہی اسباب پیش کیے جاتے ہیں۔ حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ نکاح مسیار کو جائز سمجھنے والے متعہ کو زنا سے کیسے تعبیر کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ عملاً متعہ ہی کررہے ہوتے ہیں۔ صرف اس کا نام نہیں لینا چاہتے۔ نکاح مسیار کی حرمت کے قائلین نے اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی ہے کہ یہ نکاح متعہ کی مثل ہے ان کے نزدیک چونکہ متعہ حرام ہے لہٰذا یہ بھی حرام ہے۔ بعض ناآگاہ افراد نکاح متعہ کو انتہائی مسخ شکل میں پیش کرتے ہیں۔ اسے زنا، فحشاء اور جنسی آزادی کو قانونی شکل دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ اس قسم کے افراد کا تعلق اگر عوام الناس سے ہوتا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن افسوس یہ ہے کہ بعض علما  اور خود کو شیخ الحدیث کہنے والے بھی اس قسم کے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یقیناً شدید مذہبی تعصب انھیں اپنے مقابل کی کتب کا مطالعہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

یہاں ہم نکاح متعہ کی شرائط اور نکاح دائم کے ساتھ فرق واضح الفاظ میں بیان کریں گے تاکہ مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔
۱۔ مرد اور عورت کی باہمی رضا مندی۔ اگر کسی ایک طرف کو مجبور کیا گیا ہو تو نکاح متعہ منعقد نہیں ہوگا۔
۲۔ عقد کا صیغہ لفظ نکاح،تزویج یا متعہ کے ذریعہ جاری ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی اور لفظ کافی نہیں ہے۔
۳۔ اگر لڑکی باکرہ ہو تو ولی کی اجازت شرط ہے۔ اگر باکرہ نہ ہو تو پھر ضروری نہیں ہے۔
۴۔ عقد کی مدت اور حق مہر واضح طور پر معین کیا جاتا ہے۔
۵۔ مدت کا اختتام طلاق کی مثل ہے۔ اگر مباشرت ہوئی ہے تو عدت گزارنی پڑے گی۔
۶۔ عقد متعہ سے پیدا ہونے والے بچے اولاد شمار ہوتے ہیں۔ ان کے وہی احکام ہیں جو نکاح دائم سے پیدا ہونے والے بچوں کے ہیں۔ یہ بچے ماں باپ بہن بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں سے وراثت پائیں گے۔ ان بچوں اور دائمی شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کے حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بچے ماں باپ کی کفالت میں رہیں گے۔ ان کے تمام اخراجات نکاح دائمی سے ہونے والے بچوں کی مثل ہیں۔
۷۔ نکاح دائمی اور متعہ میں بنیادی فرق یہ ہیں:
الف: نکاح دائمی میں جدائی طلاق سے ہوتی ہے جبکہ متعہ میں مدت کے اختتام سے
ب: عقد متعہ میں بیوی نفقہ اور وراثت کی حقدار نہیں ہوتی۔ اسی طرح شوہر بھی بیوی کی وراثت کا حقدار نہیں ہوتا جبکہ نکاح دائمی میں دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
ج: اگر شوہر کی حق تلفی نہ ہوتی ہو تو بیوی اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جاسکتی ہے جبکہ نکاح دائمی میں ایسا نہیں ہے۔
د: متعہ میں مرد پر بیوی سے ہم بستری واجب نہیں ہے۔

مذکورہ بالا احکام پر غور کرنے سے بہت سے سوالات، غیر منصفانہ قضاوت، شبہات اور تہمتوں کا جواب روشن ہوجاتا ہے۔ ان امور پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ متعہ کا زنا اور عفت کے منافی دیگر اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو لوگ ان دونوں کا آپس میں قیاس کرتے ہیں وہ یقیناً ناآگاہ ہیں اور انھیں نکاح متعہ کی حقیقت اور شرائط کے بارے میں بالکل معلومات نہیں ہیں۔ یہاں پر ہم نکاح مسیار اور متعہ کے درمیان جو مماثلت اور افتراق ہے اس کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں:
جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک گروپ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply