پاکستانی کا کھتارسس/آئین کو جمہوری بناؤ۔۔اعظم معراج

سینٹ،خواتین،و اقلیتی ممبران کے انتحابات بذریعہ ووٹ کیوں نہیں ہوسکتےہیں؟۔
آج کل سینٹ کے انتخابات کا اکھاڑہ لگا ہے۔بہت سے شرفاء  شاہی لباس اتار کر شفاف لنگوٹ کسے میدان میں ہیں۔ بڑی بڑی باتیں، بڑے بڑے الزامات، بڑے بڑے قوانین، بڑی بڑی خدمات، بڑی بڑی رقمیں،بڑے بڑے خریدار، بڑے بڑے بکاؤ مال ،بڑی بڑی ترامیم ، بڑے بڑے وکلاء چھوٹے چھوٹے جج، بڑی سے بھی بڑی عدالتیں، بونوں کی سیاستیں سوداگروں کی دانشیں اگر اس سب کا مقصد صرف اور صرف ہم جمہوروں کی فلاح و بہبود ہی ہے، تو پھر جس جس صوبےاورانتظامی یونٹ وطبقات سے  سینٹ وجود میں آتی ہیں وہیں وہیں سے انھیں جمہوروں کے براراست ووٹوں سے سینٹر منتخب کروانے کی آئینی ترمیم کیوں نہیں پیش کرتے؟۔ جس سے جب یہ خرچیلے انسانی فلاح کے جذبے

سینٹ

سے سرشار ،اپنے زر میں مزید اضافے کےحریص اور جذبہ خود نمائی کے شوقین امیدوار جب حلقوں میں جاکر مال پانی خرچ کریں گے، یا مخصوص نشستوں کے لئے سیاسی جماعتوں کے مالکان مزید جمہوری غلاموں میں اضافے کے لئے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتاریں  گے، تو جمہوروں کو شغل میلہ دیکھنے کو ملے گا۔ کچھ مال پانی گلی کوچوں میں بھی خرچ ہوگا۔

نیشنل اسمبلی
پنجاب اسمبلی
سندھ اسمبلی
بلوچستان اسمبلی
سرحد اسمبلی

اس سے چند نام نہاد شرفاء کی عزتیں بھی محفوظ ہو جائیں گی اور انھیں مالکان سیاسی جماعت کو ووٹوں کی ضمانت دینے سے پہلے ناجائز نوٹوں کی گنتی جیسی ذلت بھری مشقت بھی نہیں کرنی پڑے گی اور آپ بھی روز فضول ترامیم کے لئے اپنی اپنی سیاسی جماعت کے مالکان کی خاطر میاں عامر محمود,میر شکیل الرحمن میاں حینف و رفیق،حاجی رازاق اور دیگر میڈیا بازار کی دوکانوں کے سیلز مینوں کے ہاتھوں ایک دوسرے کو بے عزت کرنے اور ہونے کی بجائے سینٹ کے براراست انتحابات کے لئے ترمیم کرلو،میرے پہلے ریاستی ستون کے محافظوں ۔ اس طرح تمہاری بھی کچھ عزت رہ جائے اور ریاست کے اس ستون کی بھی جس نے باقی دونوں کو بھی توانائی و عزت دینی ہوتی ہے۔ یہ ترمیم بھی سادہ سی چودہ چودہ کو عام جمہورو کو  منتخب کرنے دو، یعنی ہر صوبے کے چودہ حلقے پھر چار چار ماہرین کے لئے متعلقہ فیلڈ کے متعلقہ صوبے کے ماہرین کو الیکٹورل کالج یا پورے صوبے کے چار حلقے یعنی ماہرینِ انکے سامنے پیش ہوں جن کے فلاح و بہبود کے لئے وہ مرے جارہے ہوں۔اور اگر وہ پردہ نشینی میں قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو پھر انکے لئے پارٹی مالکان انکے لئےمہم چلاوائیں جو چاہتے ہیں ۔اس ماہر کی وجہ سے معاشرے میں بہتری آ سکتی ہے۔ پھر ہر صوبے سے چار چار خواتین کے لئے ہر صوبے کے چار حلقے ووٹرز صرف خواتین جنکی فلاح بہبود کے لئے خواتین سینٹر منتخب کی اور کروائی جاتی ہیں۔ پھر چاروں صوبوں سے غیر مسلم پاکستانیوں کے نام پر جو چار شاندار لوگ پارٹی مالکان منتحب کرواتے ہیں ۔انھیں بھی پورے صوبے کو حلقہ بنا کر اس صوبے کے سارے غیر مسلم پاکستانیوں کو ان کا الیکٹرول کالج بناؤ تاکہ سینٹ میں انکے نمائندے بھی انکے ووٹوں سے آئیں۔ہاں اور پارٹی مالکان کے ساتھ انکی رائے بھی شامل ہوجائے۔ اسکے بعد فیڈریشن کی جتنی سیٹیں ہیں انھیں بھی اسی طرح اس انتظامی یونٹ کے عام ان ووٹروں سے منتحب کروائیں جن کے نام پر پارٹی مالکان انھیں منتحب کرواتے ہیں اس طرح جیسے 849 حلقوں میں لولے لنگڑے انتحابات ہو جاتے ہیں.(فاٹا کے مرجر کے بعد ان حلقوں کی تعداد 865ہوگئی ہے۔) ان ایک سو چار میں بھی ہوجایا کرے گے۔ہاں سینٹ کی مدت خدمت بھی اتنی ہی کرلیں جتنی دوسرے خدمت خلق کے ایوانوں کی ہے۔اسی طرح قومی اسمبلی میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں پر سیاسی گھرانے اپنی خواتین یا میرٹ کی بجائے اپنی پسند کی خواتین کو خواتین کو اپنی صوابدید پر منتخب   کرتے ہیں ان خواتین کے لئے بھی ان خواتین کا ہی الیکٹورل کالج بنا کر انھیں وہاں سے منتخب کروائے تاکہ عام خواتین بھی اس طریقہ انتخاب میں شامل ہوں۔یہ طریقہ عرق ریزی سے دوہرے ووٹ کے ذریعے بھی متعارف کروایا جاسکتا۔
اسی طرح اقلیتی نمائندگان کو بھی جنکی شناخت پر ان 38 کو منتحب کیا جاتاہے۔انھی کی صوابدید پر دوہرے ووٹ سے یقینی بنایا جائے۔اس طرح یہ 104سینٹر,192خواتین 34 اقلیتی ممبران قومی وصوبائی اسمبلی یقیناً اپنے اپنے ووٹروں کے حقیقی نمائندے ہونگے۔ یہ ترامیم متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ بیٹھ کر عداد وشمار کو سامنے رکھ کر آسانی سے تیار کی جاسکتی ہیں۔ اسکے کے لئے سیاسی ،ریاستی وداںشور اشرافیہ کو اس جمہوریت کے لئے انتہائی بنیادی کام کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس چھوٹی سی کوشش سے آئین جیسی سیاسی طور انتہائی اہم دستاویز بھی کچھ جمہوری ہوجائے گی۔ اور اس سیاسی نظام کا 28 فیصد انتحائی غیر جمہوری حصہ بھی جمہوری یوجائے گا۔ یقیناً لولے لنگڑے انتحابات سے لولے لنگڑے نمائندے ہی آئے گے لیکن کم ازکم کم ازکم دائمی اندھے نظام سے دائمی اندھے بہرے سینٹر،خواتین،و اقلیتی نمائندگان آنا تو بند ہو جائے گے۔ حادثاتی لولے لنگڑے کسی بھی وقت بیساکھیوں کو پھینک کر یا علاج معالجے سے صحتیاب ہوسکتےہیں ہیں لیکن پیدائشی بہرے اور گونگے نظام کے پیدوار پیدائشی گونگے بہرے کبھی صحتیاب نہیں ہوتے۔ ان تین سو تیس نمائندگان کے لئے جب انتحابات ہونگے تو وہ پورے طبقات متحرک ہونگے۔جن کے یہ سلیکٹڈ ممبران نمائندے بن کر چند آقاؤں کے مفادات کی نگرانی کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور سترہ کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply