• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تحریک آزادی قدس اور بدلتی دنیا۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

تحریک آزادی قدس اور بدلتی دنیا۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

قدس شریف میں مسلمانوں کا قبلہ اول یعنی مسجد اقصیٰ ہے۔ یہ شہر کئی حوالوں سے مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ خاتم الانبیاءﷺ نے کئی سال اسی کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی اور پھر اللہ نے بیت اللہ کو مسلمانوں کے لیے قبلہ قرار دیا۔ اس کے باوجود قبلہ اول کی اہمیت اسلام اور مسلمانوں کے ہاں قائم رہی اور مسلمان ہمیشہ اس کے تحفظ کے لیے قربانیاں دیتے رہے۔ تاریخی طور پر قدس شریف کے حوالے سے صدیوں تک مسیحی مسلم اختلاف موجود رہا۔ مسیحی دنیا بار بار اس مقدس شہر پر حملہ آور ہوتی رہی، بارہا انہوں نے یہاں مقیم مسلمانوں کی نسل کشی کی۔ امت مسلمہ کے مدبر رہنماوں کی کاوشوں اور جذبہ ایمانی سے مسلمان بار بار قدس شریف کو آزاد کراتے رہے۔

قدس اہل فلسطین کا ہے، مسلمانون نے ہمیشہ سے یہی موقف رکھا ہے، جب مسلمانوں نے اسے فتح کیا تو یہاں کے باشندے بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے۔ اس سرزمین کے اصل وارثوں نے اسلام قبول کر لیا تو اس زمین کا تعلق اسلام سے مذہبی کے ساتھ ساتھ جغرافیائی بھی ہوگیا۔ یہ بات مسیحیوں نے کبھی بھی قبول نہیں کی اور وہ ہمیشہ یورپ سے ایک کے بعد ایک لشکر لے کر سرزمین فلسطین پر حملہ آور ہوتے رہے۔ ان کی یرشلم پر قبضے کی خواہش اس قدر شدید تھی کہ نسلاً بعد نسلاً مسلمانوں کو ان کی یلغاروں کا روکنا پڑا۔ مسیحی تنظیم اس میں اس قدر شدت پسندی تھی، اس نے فلسطین پر حملے کے لیے 1212ء میں ایک معروف صلیبی جنگ کی تیاری بھی کی، جسے “بچوں کی صلیبی جنگ” کہا جاتا ہے۔ مسیحی راہبوں کے مطابق کیونکہ بڑے گناہگار ہوتے ہیں، اس لیے انہیں مسلمانوں کے خلاف فتح حاصل نہیں ہو رہی، جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں، اس لیے وہ صلیبیوں کو فتح دلائیں گے۔

اس مقصد کے لیے 37 ہزار بچوں کا ایک لشکر ترتیب دیا گیا، جو فرانس سے روانہ ہوا۔ 30 ہزار بچوں پر مشتمل فرانسیسی لشکر کی قیادت افواج کے سپہ سالار اسٹیفن نے کی۔ 7 ہزار جرمن بچے نکولس کی زیر قیادت تھے۔ یہ الگ داستان ہے کہ اہل حوس نے ان بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی ایک بڑی تعداد جسے مذہب کا جھانسا دے کر لایا گیا، اسے بطور غلام بیچ دیا گیا۔ اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ اہل مغرب بار بار فلسطین پر حملہ آور ہوتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگیں عظیم کے اختتام پر جب فلسطین پر اسرائیلی ناسور کو مسلط کر دیا گیا تو یہ کہا گیا کہ آج صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ہمیں روشن خیالی اور مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کا بھاشن دینے والے آج بھی کتنے مذہبی ہیں؟ اور ان کے فیصلوں پر مذہب کس قدر اثر انداز ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ اسی ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اصل میں وہ خود مذہب سے دور نہیں ہونا چاہتے بلکہ ہمیں مذہب سے دور کرنا چاہتا ہیں، تاکہ ہم یہ شناخت بھول جائیں۔

اہل فلسطین صدیوں سے ان حملوں کو سینے پر روک رہے ہیں، جیسے صلیبی جنگوں میں ایک آدھ صدی کے لیے صلیبی لشکر آجاتے تھے اور جلد ہی مسلمان لشکر ان کا صفایا کر دیتے تھے، اب بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ یہ اہل فلسطین کا انسانی حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر قابض افواج کو جو ان پر ننگی جارحیت کی مرتکب ہو رہی ہیں، کسی بھی طریقے سے نکال باہر کریں۔ پچھلے کچھ عرصے میں فلسطین کی تحریک میں کافی تیزی آئی ہے، فلسطینیوں کی مزاحمت منظم ہوئی ہے اور اب ایسا نہیں ہوتا کہ اسرائیلی افواج فلسطینی علاقوں پر قبضہ کریں اور اب ان کا سارا زور قدس شریف میں موجود اہل فلسطین کو تنگ کرنا اور ان کے گھروں اور زمینون کا ہتھیانے پر ہے۔

کل ہی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا، مشرقی بیت القدس میں صدیوں سے بسنے والے فلسطینیوں کی زمینوں پر صیہونی قبضہ کر رہے ہیں اور صیہونی عدالتیں صدیوں سے بسنے والے ان مسلمانوں کے گھروں سے بے دخل کرنے کے پروانے جاری کر رہی ہیں۔ ایک صیہونی کو ایک فلسطینی بہن کہہ رہی کہ تم میرا گھر چھین رہے ہو؟ وہ جواب دیتا ہے کہ اگر میں نہیں چھینوں گا تو کوئی اور چھین لے گا، اس لیے میں ہی لے لیتا ہوں۔ انسانیت، شرافت، اقدار، قانون اور انصاف نام کی کوئی چیز ان صیہونیوں کے ہاں باقی نہین ہے۔ اس پورے معاملے میں اب حالات بدل رہے ہیں، اب مقاومت مضبوط ہو رہی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد اور امام خمینیؒ کی اہل فلسطین کی بیابانگ دہل حمایت کے بعد خطے کے آزادی پسند آپس میں متحد ہوئے ہیں اور انہوں نے بڑے پیمانے پر قوت کو جمع کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک وقت تھا، اسرائیل چند گھنٹوں میں اپنے بارڈر سے بیروت تک آجاتا تھا، مگر اب یہ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں آسکتا کہ وہ آسانی سے ایسا کرسکتا ہے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام کو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ اس کی ایٹمی تنصیبات پر میزائل حملے نے ان کے ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ اسرائیلی ریاست ایک فاشسٹ رجیم ہے، جو فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اسرائیل بین الاقوامی قانون کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھتا ہے، قدس شریف بین الاقوامی قانون کی رو سے اسرائیل کا دارالحکومت نہیں بن سکتا، مگر اس نے بنا لیا ہے اور بڑی ڈھٹائی سے وہاں ہونے والے فلسطینی اتھارٹی کے الیکشن میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب فلسطین کے لوگ آزادی حاصل کریں گے اور ہم ان شاء اللہ مسجد اقصیٰ میں نمازیں ادا کریں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply