• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • افسانے کی بدلتی سماجیات اور “گونجتی سرگوشیاں”۔۔تبصرہ :سید ماجد شاہ

افسانے کی بدلتی سماجیات اور “گونجتی سرگوشیاں”۔۔تبصرہ :سید ماجد شاہ

افسانوں کا تازہ مجموعہ “گونجتی سرگوشیاں” اکیسویں صدی کے بدلتے معیارات اور ادبی میلانات کی تفہیم میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انسانی رشتوں کے بے رحم حقائق، تعقل پسندی، مشاہدات اور تخلیقی اظہارات کی نئی جہتیں صفحہ بہ صفحہ منکشف ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہاں جو بیانیہ مرتب ہوا اس کے مطابق برقی سماجی رابطوں نے دنیا کا رنگ ڈھنگ یکسر بدل ڈالا ہے اور اب ہمارے عقائد و نظریات، سیاسی ترجیحات اور اصلاح معاشرہ کی اقدار کو ایک نئے عالمی تناظر میں دیکھنے کا عام رجحان ملتا ہے۔

کتاب میں شامل افسانہ نگاروں نے اپنے تخلیقی جوہر کے آگے کسی خاص اسلوب کی باڑ نہیں لگائی، اگر کہانی سادہ اسلوب کے ساتھ وارد ہوئی تو اسے جان بوجھ کر علامتی یا تجریدی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور اگر علامتی یا تجریدی خیال کے ساتھ وارد ہوئی ہے تو اسے زبردستی سادہ اسلوب کی راہ نہیں دکھائی گئی۔

اس مجموعے میں شامل افسانہ نگاروں کےموضوع، تکنیک اور اسالیب روایتی حد بندیوں سے آزاد ہیں۔ ہماری یہ افسانہ نگار فکری اعتبار سے رہتل، نظریے، تحریک یا تہذیبی اور ثقافتی بندھنوں سے وابستہ تو ہیں لیکن کسی مخصوص چھاپ کے زیر اثر ہرگز نہیں ہیں۔

ان افسانوں میں حقیقت نگاری، نئی لفظیات، نئی تکنیک اور نئے اسالیب میں اپنا جلوہ دکھا رہی ہے، خوش آئند بات یہ بھی ہے  کہ افسانوں میں سماج کے زندہ مسائل کا اظہارادبی سطح پر ہوا ہے اور پیش کیے جانے والے کرداروں کی نفسیاتی کشمکش بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔

۱۔معافیہ شیخ کے اکثر افسانوں میں علامت کا تسلسل نظر آتا ہے ان کے پاس موضوعات کا تنوع اور نئے تکنیکی اسالیب بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے قاری کو کہیں بھی اکہرے پن کا احساس نہیں ہوتا اور وہ سہولت کے ساتھ نئی فضا میں داخل ہوتا چلا جاتا ہے۔ کسی خاص کیفیت کو مصور کرنے میں انھیں مہارت حاصل ہے۔بیان میں ندرت اورکفایت لفظی کی مدد سے کہانی میں تہہ داری پیدا کرنے کے فن سے واقف ہیں۔علامتی انداز کے باوجود جملے مختصر ہیں اور کوئی الجھاؤ نہیں پیدا کرتے۔ عام اور برتے ہوئے موضوعات کو بھی معافیہ شیخ نئے زاویہ سے پیش کرنے کا گُر جانتی ہیں کہ کہانی میں تازگی پیدا ہو جاتی ہے۔معافیہ شیخ اکیسویں صدی میں جیتی ہی نہیں اس کے مسائل کو سمجھ کر فکشن میں ڈھالتی ہیں۔

۲۔فرحین خالد کے افسانے، افسانوی فضا میں گندھے ہوئے ہوتے ہیں۔اسلوب رواں اور کہانی کے ساتھ بڑی مہارت سے جڑا ہوا، موضوعات منفرد لیکن اس انفراد کے پس منظر میں ان کا مطالعہ اور مشاہدہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ صرف سنائے اور دیکھے کو برتنے کی قائل نہیں ہیں۔ فرحین خالد کے اکثر افسانے ایسا دائرہ بناتے ہیں کہ آخری جملے کے بعد دوبارہ افسانہ اپنی طرف کھینچتا ہے اور دوسری قرأت نئی معنویت کے ساتھ نئے در وا کرتی ہے۔فرحین خالد نہ صرف سائبر ایج کے مسائل سے آگاہ ہیں بلکہ نئے سماجی ڈھانچے سے پیدا شدہ نفسیاتی الجھنوں پر بھی نظر رکھتی ہیں اور ان کا درماں بھی ان کے افسانے کی زیریں لہروں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہی وقت کا نباض ہونا، انھیں اپنے عہد میں نمایاں کرتا ہے۔

۳۔ابصار فاطمہ۔۔ اردو افسانے میں حقیقت نگاری کے عناصر ہمیشہ کسی نہ کسی صورت موجود رہے ہیں جس کی وجہ سے اس صنف کا رشتہ زمین سے مستحکم ہوتا رہا، ابصار فاطمہ کے افسانوں میں حقیقت نگاری نئی لفظیات، نئی تکنیک اور نئے اسالیب میں اپنا جلوہ دکھا رہی ہے خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ ابصار فاطمہ کے افسانوں میں سماج کے زندہ مسائل کا اظہار ادبی سطح پر ہوا ہے۔ان کے کرداروں کی نفسیاتی کشمکش افسانے کے کہے(متن) اور اَن کہے میں محسوس ہوتی ہے۔ سندھ کی دیہی زندگی، اقلیتوں کی کسمپرسی، سماجی دوہرے معیارات کی مزمت اور خصوصاً نفسیاتی مسائل سے جنم لینے والے خوفناک منفی اثرات جو سماجی سطح پر بیمار افراد میں اضافے کا باعث ہیں، جیسے موضوعات ابصار فاطمہ کو خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

۴۔ثروت نجیب دیومالائی فضا میں افسانہ بنُنے کا گُر جانتی ہیں، جو قاری پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ افسانہ ابتداء سے ہی قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے کہ وہ مکمل افسانہ پڑھے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ ان کے ہاں حقیقت اور رومان کا امتزاج ان کے افسانے کا خاصہ ہے۔ان کے افسانوں کے جملے رہتل سے یوں پیوست ہوتے ہیں، جیسے رہتل زبان کا حصہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رہتل کہیں الگ سے شعوری طور پر افسانے میں ٹھونسی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔افسانوں کی زبان انتہائی پختہ اور فارسی آمیز مٹھاس لیے ہوئے ہے۔انداز پُر اثر ہے۔ دیومالائی چاشنی اور شاعرانہ نثر کہانی کو یوں یاداشت کا حصہ بنا دیتی ہے جیسے عہدِ قدیم کے قصہ گو سامع کی یاداشت پر کہانی ثبت کر دیا کرتے تھے اور کہانی نسلوں کا ورثہ بن جاتی تھی۔

۵۔سمیرا ناز ایک باشعور اور مشکل پسند افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے انوکھے مطالعات ایک خاص ادبی استدلال کے ساتھ ملتے ہیں۔ سمیرا نازکے افسانوں میں اسلوب کی نیرنگی ہے کہیں اسلوب سادہ ہے تو کہیں علامتی۔ سمیرا ناز ایک خالص افسانہ نگار ہیں جو خود کو موضوع، اسلوب اور صنف کے دائرے میں مقید نہیں کرتیں، انھوں نے مرد، عورت اور تیسری جنس کے دکھ کو یکساں محسوس کیا ہے اور پھر بڑی دیانت داری سے اسے لکھا ہے۔ جس سے موضوعات کا ایسا گلدستہ بن گیاہے، جو صرف ایسے زیرک ادیبوں کے ہاں ملتا ہے، جو کائنات کو اس کی کُل میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ مکالمے ہوں یا خود کلامی، باہر کے مناظر ہوں یا کردار کے اندر موجزن دنیا، اس کو مہارت سے ایک مربوط انداز میں افسانہ بنا دینا سمیرا ناز کا ہی حصہ ہے۔

۶۔صفیہ شاہد نے زندگی کے ایسے نازک اور اہم موضوعات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے جو بالعموم ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں یا شاید ایسے موضوعات کو اتنا معمولی سمجھا جاتا ہے کہ اس پر بات نہیں کی جاتی۔ان کے افسانوں کا کرافٹ متاثر کن ہے۔ ان کا اسلوب زبان و بیان کے ان قرینوں سے واقف ہے، جن سے افسانے کی فضا قائم رہتی ہے۔اسلوب کی ایسی چابک دستی نئے لکھنے والوں میں کم ہی دیکھی گئی ہے۔ افسانوی جملہ لکھنے کی مشق ان کے اسلوب کو اور جلا بخشے گی۔صفیہ شاہد کہانی سے اور اپنے کرداروں سے مکالمہ کرتی ہیں، انہیں سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار کہانی کے فطری بہاؤ میں اپنی مرضی سے سانس لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

۷۔ فاطمہ عثمان نے زندگی کے تیکھے اور نزاعی موضوعات کو سادہ بیانیہ میں پیش کیا ہے ان کے موضوعات چونکا دینے والے ہیں کیونکہ اس کے ساتھ بہت سے سماجی ٹیبوز وابستہ ہیں۔ اس لیے ان کے کردار قدرے پیچیدہ ہوتے ہیں۔ اسلوب میں بے ساختہ پن اور خود اعتمادی چھلکتی ہے۔ افسانے کے عناصر مثلا کہانی، پلاٹ، کردار نگاری، مکالمے وغیرہ عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں جس پر حقیقت سے زیادہ فینتاسی کا گمان ہوتا ہے۔ مثلاً فاطمہ عثمان کے نسوانی کردار وہ زبان نہیں بولتے جو عام حالات میں بولی جاتی ہے، ان کی زبان وہ ہوتی ہے جو انہیں ماحول اور حالات کی نزاکت کو نظر انداز کر کے بول دینی چاہیے، یعنی قاری کو فاطمہ عثمان کے افسانے سمجھنے کے لیے ان کی مخصوص فضا میں جانا پڑتا ہے۔

مجموعی طور پہ دیکھا جائے تو یہ مجموعہ آپ کو موقع فراہم کرتا ہے کہ آپ دنیا کو ایک الگ نگاہ سے دیکھیں جو عورت کی ضرور ہے لیکن اسے متعصبانہ یا صنفی امتیاز کی بنیاد پہ قائم کی گئی رائے نہیں کہا جا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:مبصر جناب ماجد شاہ اردو اور ہندکو زبان کے معروف شاعر اور نثر نگار ہیں آپ کے دو اردو افسانوی مجموعے “ق” اور “ر” شائع ہوچکے ہیں اور ایک ہندکو ناول “بلدا دیوا” بھی شائع ہوا ہے جو ہندکو زبان کا پہلا ناول ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply