خضرِ راہ کی طلب کیوں؟۔۔محمد اویس حیدر

دنیائے اسلام میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو اسلام کے صرف بیسِک رولز (basic rules) کو ہی فالو کرتے ہیں۔ یعنی شریعت کے  ظاہری احکامات پر عمل پیرا ہونا اور ممنوعات سے بچنا۔
یقیناً یہ مکمل اسلام ہے۔۔

دوسرے لوگ وہ ہیں جو اس سے ایک درجہ مزید آگے پڑھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام اور اس کے احکامات پر تو چلنا ہی ہے مگر کیا فائدہ کہ اگر اس ذات کی معرفت تک نہ پہنچ سکیں جس نے انسان کو پیدا کیا۔ انسان اللہ تعالیٰ کے تقرب کا طالب تو ہوتا ہی ہے مگر معرفت کا اعزاز یہ ہے کہ طالب اللہ رب العزت کا مطلوب بھی بن جائے۔ بندہ اللہ سے راضی اور اللہ اپنے بندے سے۔

پہلا درجہ ایک مسلمان سے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ مومن تک کا ہے، جبکہ دوسرا  درجہ صالحین اور مقربین کا۔۔۔ جنہیں زبانِ عام میں اولیاء کرام بھی کہا جاتا ہے۔

لہٰذا ہر انسان کو بھی اپنے لیے خود یہ فیصلہ ضرور کر لینا چاہیے کہ اس کا راستہ کون سا ہے؟ اگر سادہ سادہ شریعت کا راستہ ہے تو زندگی انجوائے کرے اور خاموشی سے دین کے احکامات مکمل کر جائے۔ بس فلاح پا گیا اور یہی اس کے لیے کافی ہے۔۔۔لیکن اگر اللہ تعالیٰ کو محبوب اور خود محب بن کر محبت کی راہ پر چلنا ہے تو پھر یہ راستہ دشوار اور بڑے جگرے والوں کا ہے۔
جگر خوں ہو تو ہوتی ہے چشمِ دل میں نظر پیدا۔۔

یہ راستہ تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کا ہے۔ اور ساتھ مجبوری یہ ہے کہ انسان اپنا تزکیہ خود نہیں کر سکتا۔ انسان کی آنکھیں پورا جہان دیکھ سکتی ہیں مگر اپنا چہرہ نہیں دیکھ سکتیں۔ اپنا چہرہ دیکھنے کے لیے کسی آئینے کے روبرو پیش ہونا پڑتا ہے۔ بس یہ آئینہ ہی آپ کا مرشد، گرو یا استاذ ہوتا ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ گرو کسے بنایا جائے اور کہاں تلاش کیا جائے؟ چنانچہ اس کے لیے سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے حضور درخواست پیش کی جائے اور بار بار کی جائے کہ یا الٰہی میں آپ کا تقرب چاہتا ہوں آپ کی ذات کی معرفت چاہتا ہوں آپ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور سچی پیروی چاہتا ہوں۔ پس مجھے بھی اپنے کسی صالح و مقرب بندے کی صحبت عطا فرما۔۔۔ اور اپنے مقربین کے فیض سے مستفیض فرما۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں قوت پرواز مگر رکھتی ہے

اللہ سے اللہ کو ہی مانگنے والے پر اللہ تعالیٰ ضرور اپنا فضل فرمائے گا۔ جس کے بعد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی سچا غلام ضرور مل جائے گا اور اسی خضرِ طریق کی راہ نمائی میں ان شاءاللہ العزیز سفر طے ہو جائے گا۔
یعنی خضرِ راہ بہرحال ناگزیر ہے۔ کیونکہ انعام یافتہ انسان کے تقرب سے ہی انسان اللہ کا مقرب بنتا ہے۔

علاوہ ازیں باقی سب یو ٹیوب کے لیکچرز ، رنگ برنگی کتابوں کا مطالعہ اور فیس بُک اور دیگر بحث مباحثے یہ سب تزکیہ نفس کا نہیں بلکہ تسکین نفس کا بھرپور ذریعہ ہیں۔ لائبریریوں میں اتنا اسلام بیان ہو چکا ہے کہ اصل اسلام ہی کہیں چھپ گیا ہے۔ اتنی کتابیں اور تفسیریں لکھی جا چکی ہیں کہ ایک انسان کی اوسطاً ساٹھ ستر سال کی عمر بھی کم ہے تمام کے مطالعے کے لیے۔ افسوس کہ عمر کٹ جاتی ہے اور انسان کسی ایک نتیجے پر بھی نہیں پہنچ پاتا چنانچہ پتا چلتا ہے کہ بندے کا سفر جہاں سے شروع ہوا تھا تمام عمر گزار کر بھی وہیں کھڑا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہٰذا بچت کثرتِ افکار کو چھوڑ کر کسی ایک فکر کے تابع ہونے میں ہی ہے۔ وہ ایک فکر جس عاقبت پر آپ کا دل و دماغ دونوں مطمئن ہوں۔ جس کی عاقبت میں آپ بھی شامل ہونا چاہیں۔ مگر جس کی عاقبت پر یقین نہ ہو اس فکر سے بچنے میں ہی بھلائی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں لا حاصل محنتوں سے بچائے اور ان عبادتوں سے بھی جنہوں نے ضائع ہو جانا ہے۔
استغفِرُاللّٰه ربی و اتوب الیہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply