میں اور میری ڈاکٹری۔۔عارف خٹک

آج تک اپنے نام کیساتھ ڈاکٹر لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ایک تو ڈاکٹر جیسا منہ نہیں ہے اور دوسرا یار دوست فورا ً قوت باہ اور لانگ سیشن سیکس میڈیسن کا پوچھنے بیٹھ جاتے ہیں۔

نئی نئی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی تو بڑے ذوق و شوق سے نام کیساتھ ڈاکٹر لکھنے کا جنون سر چڑھا۔ لہذا دستخط کرنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا اور بات بات پر ای میلز کرتا تھا کہ آخر میں نام کیساتھ ڈاکٹر لکھوا سکوں۔ ایک دو سال کے بعد الحمداللہ اپنا جنون ٹھکانے لگا کہ ہر ملنے والے اور ملنے والی کو پانچ منٹ کی تقریر کرنی پڑتی کہ موصوف نہ دانتوں کے ڈاکٹر ہیں نہ کسی جنسی بیماری کے ماہر طبیب ہیں، بلکہ مذاق مذاق میں کلنیکل سائیکالوجی میں روسیوں نے منہ پر ڈگری دے ماری، کہ اب اس ملک سے دفع ہو اور آج تک انگریزی میں سائیکاٹرسٹ کی اسپیلنگ بھی نہیں آتی۔

ڈگری کے پہلے ہفتے گھر والوں کو فرط شوق سے گھنٹوں فون کرتا کہ آپ کا بچہ اب ڈاکٹر بن گیا ہے۔ جب اِن کو معلوم ہوا کہ ہمارے بچے کو ڈسپرین گولی کا نہیں معلوم کہ  زکام  کیلئے کھائی جاتی ہے یا دستوں کیلئے تو ان کے رویے بھی سرد مہر ہوگئے کہ بھلا انجکشن اور دوائیوں کے بغیر بھی کوئی ڈاکٹری ہوتی ہے۔ ان کو بتایا کہ اماں ہم نے  کتابیں بہت زیادہ پڑھی ہیں، تو اماں نے کہا کہ بیٹا جتنے خواتین ڈائجسٹ انھوں نے نوجوانی سے آج تک پڑھے ہیں اس بنا پر  ان کو تو “اُم الڈاکٹر” کا خطاب ملنا چاہیے۔

ہم بچپن سے شوخ و چنچل اب ڈاکٹری کا لاحقہ لگانے کے بعد  طبعیت میں سنجیدگی اور لہجے میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ سا آگیا۔ پہلے ہم بھاڑ جیسا منہ کھول کر ہنستے تھے اب ہم نے فقط ہونٹ تھوڑے ٹیڑھے کرکے ہنسنا شروع کردیا۔ الغرض زندگی ایک اداکاری کے مرہون منت ہوکر رہ گئی۔

ایک دن امریکہ سے ایک پاکستانی خاتون کا معلوم ہوا جو ہر وقت سیکس کے بارے میں بولتی رہتی تھیں، غالبا ً اس کا نام ڈاکٹر شازیہ نواز تھا۔ کھاتے پیتے، سوتے جاگتے ہر وقت مرد کے کمزور عضو تناسل کو کوستے رہنا ،ان کا محبوب مشغلہ تھا، ایک دن فرط ِ ٹھرک میں ہم نے ان کی وال کو وزٹ کیا  اور مسلسل ایک ماہ تک ان کے فرمودات سیکس و جذبات برانگیختہ مضامین پڑھ پڑھ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ محرومیاں انسان سے کیا کچھ نہیں کرواتیں، اور ڈاکٹر نام سے ہی نفرت ہوگئی، وہ دن اور آج کا دن ہمیں ڈاکٹر نام سے ہی چڑ ہوگئی۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ اب ہر ملنے والوں کو بندہ یہ کہہ کر مطمئن تو نہیں کرسکتا کہ بندے کا  تعلق طِب سے نہیں بلکہ فلسفے سے ہے۔ آگے سے پڑھے لکھے دوست زیر لب مسکرا کر پوچھ لیتے ہیں “یار خٹک بھائی گر پی ایچ ڈی کرکے کھوتیاں ہی بھگانی تھیں تو اس کیلئے ڈاکٹریٹ کی ضرورت تو ہر گز نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا اب ہر خٹک نام کیساتھ ڈاکٹر لگا سکتا ہے؟”۔

بس جناب ڈاکٹر نام لگاتے ہی کانوں میں آوازیں گونجنے لگتی ہیں کہ “گول مال ہے  بھئی سب گول مال ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

پچھلے دنوں ایک دوست نے جاب کیلئے اپنی سی وی پر بطور ریفرنس میرا نام لکھ دیا۔ میں نے ڈاکٹر نام ہٹوا کر فقط Arif Khattak Ph.D لکھوا دیا۔ اگلے دن دوست سے ملاقات ہوئی تو نوکری بابت پوچھ بیٹھا۔ کہنے لگا،امید ہے کہ نوکری مل جائیگی مگر انٹرویو لینے والے نے حیرت سے  آپ  کی بابت پوچھا کہ یہ “عارف خٹک پھد” کون ہیں؟۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply