سنبھل جاؤ۔۔سعید چیمہ

تعلیم رسوا ہوئی اور سرِ بازار ہوئی، رسوا کرنے والے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، رسوائی ایسی تھی کہ جاہلِ مطلق بھی شرما گئے، شاعر نے شاید سچ کہا تھا، ورنہ تو اکثر دروغ گوئی ہوتی ہے۔

تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ

تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی

سیالکوٹ میں جو تماشا ہوا سوشل میڈیا کے فضائل کی بدولت سب نے دیکھا، کبھی کہاوت سماعتوں سے ٹکراتی تھی کہ ایک چوہا شجر کی جس ٹہنی پر بیٹھا تھا، اسی کو کاٹ رہا تھا، شاید اس لیے کہ عقل کی نعمت سے نوازا نہ گیا ہو گا، مگر ڈاکٹر صاحبہ کیوں کر ایسے فعل کی مرتکب ہوئیں جو پارٹی اور ان کی انفرادی شخصیت کی ٹہنی کاٹنے کے مترادف تھا،  اشرف المخلوقات سے کچھ بھی بعید از قیاس نہیں ہوتا، چودہ سو برس ہوتے ہیں، تاریخِ انسانی کا دھارا موڑنے والی شخصیت، خطاب کے بیٹے جو پہلے چرواہے تھے، پھر آں جنابﷺ کے طفیل خلیفہ ثانی بنے، نے کہا تھا کہ اے امر! تو نے لوگوں کو کب سے غلام بنانا شروع کر دیا جب ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا، کوئی دردِ دل رکھنے والا ہے جو ڈاکٹر صاحبہ سے یہ پوچھے کہ وہ اسٹنٹ کمشنر کیا آپ کی غلام تھیں، عوام کو تو آپ پہلے ہی غلاموں سے بد تر سمجھتے تھے، اب بیوروکریسی بھی شاید غلمان میں شامل ہو گئی ہے، غلام دوسرے بھی سمجھتے تھے، جاتی امرا کے شریف اورلاڑکانہ کے بھٹو بھی، مگر سرِ عام ایسی بد تہذیبی کا مرتکب تو کوئی بھی نہیں ہوا تھا، ہر روز ایک نیا معجزہ حکومت دکھاتی ہے، کبھی وزیرِ اعظم کے عظیم فرمودات کی صورت میں تو کبھی وزرا اپنے اعمال کے ذریعے معجزات دکھا کر مخالفین کو بھی ورطہء حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں، سارا سال مہنگائی کا دیو عوام کی چیخیں نکلواتا ہے، مگر با برکت مہینے میں رمضان بازار لگا کر عجب تماشا کیا جاتا ہے، ایک مہینے کے لیے سستی چیزیں، اور وہ بھی کتنی سستی، جتنی سستی اتنی ہی غیر معیاری بھی، نا اہلوں کی فوج ظفر موج رمضان بازار لگانے کو بھی ایسا کارنامہ سمجھتی ہے کہ رقیب بھی ناز کریں، خدا بھلا کرے شہباز شریف کا، جو حکمرانوں کو ایسی شعبدہ بازیوں کے گُر سکھا گئے، بارش آئے تو پانی میں اتر کر تصویریں بناؤ، کسی پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹے تو پریس کانفرنسز میں خطیبانہ جوہر دکھاؤ، مہنگائی کنٹرول نہ ہو تو عوام کو چونا لگا کر مافیا کو سبسڈی دو، مریض کے اعضا کاٹ کر دوبارہ اسی کو لگا دو مگر ہاتھ کی صفائی ایسی ہو کہ لوگ آپ کے قصائد پڑھیں۔

آج بھی یہی معاملہ ہے، روزگار فراہم کرنے کے مواقع پیدا نہ   ہوں تو مفت دسترخوان کا افتتاح کر دو، کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو تو تقاریر سے ہوا میں قصر تعمیر کر دو، کون سا تم سے کسی نے استفسار کرنا ہے، تمھاری پارٹیوں میں کارکن تھوڑی ہیں، وہ تو خوشامدی ہیں پرلے درجے کے، جو حقیقت کے نزدیک تمھیں پھٹکنے بھی نہیں دیتے، تم خود بھی حقیقت کی دنیا میں نہیں آنا چاہتے، تم آبھی کیسے سکتے ہو، تمھیں اس دنیا میں چین کیسے پڑے گا جہاں باپ اپنی چار کلیوں کو فقط اس لیے نہر میں پھینک دیتا ہے کہ ان کو کھلانے کے لیے روٹی نہیں، تمہارا ضمیر ایسی دنیا میں کیوں کر تمھیں آنے دے گا جہاں باپوں کی کمریں اس دہری ہو گئی ہیں کہ ان کی بیٹیوں کی بالوں میں چاندی اتر رہی ہے مگر مہنگائی شادی کی اجازت نہیں دیتی، تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم اپنے محلوں میں نرم بستروں پر خوابِ غفلت کے مزے لو، عوام اگر دہائی دے رہے ہیں تو دیتے رہیں، تمہیں  کون سا سنائی دیتا ہے، عباس تابش نے تمہارے متعلق ہی کہا تھا

دہائی دیتا رہے جو دہائی دیتا ہے

کہ بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے

تم جن کے ماننے والے ہو وہ تو اقتدار کو کانٹوں کی راہ سمجھتے تھے، مگر تم ہو کہ اس کو پھولوں کی سیج سمجھ کر باؤلے ہو رہے ہو، تم ایسا کیا کھاتے جو تمھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہوتا، تم نمازیں بھی پڑھتے ہو، روزے بھی رکھتے ہو، درباروں پر خاضریاں بھی دیتے ہو، قرآن کی آیتیں بھی سناتے ہو، تصوف کی باتوں کی رٹ بھی لگاتے ہو، تسبیح بھی لگاتار گھماتے ہو، مگر تمہارے دل کی دھڑکن پھر بھی دھیمی کیوں نہیں ہوتی، تمہاری آنکھوں سے تنہائی میں آنسو کیوں نہیں چھلکتے،  تمھیں تمہارا ضمیر کچوکے کیوں نہیں لگاتا، تمھیں کس چیز نے بے خوف کر دیا ہے، حالانکہ  رب کا عذاب بے خوف کرنے والی چیز نہیں ہے، کیا تم اس گمان میں ہو کہ حقوق اللہ کی ادائیگی تمھیں بچا لے گی، لوگوں کی سسکیوں کے مقابلہ تمہارے نیکیوں کے دفتر کیسے کر سکیں گے، یہاں تم اقتدار میں ہو، مگر اس دن تو  اقتدار عادل کا ہو گا، تم اس دن کیسے اس کا سامنا کر سکو گے، یہاں تو تم واعظ صبح و شام کرتے ہو، اپنی غلطیوں کے لیے الفاظ بھی ڈھونڈ لیتے ہو، مگر وہاں کیا عالم ہو گا جب تمہاری زبان پر تالہ لگا دیا جائے گا اور تم کچھ بھی بول نہ سکو گے، تم سنبھل کیوں نہیں جاتے، اس سے پہلے کہ رسوائی جب ظالموں کا مقدر کر دی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پسِ تحریر: اس بات پہ بھی شکر کہ اسسٹنٹ کمشنر کی توہین کرنے والی بھی ایک خاتون ہی تھی، وگرنہ تو تانیثیت (feminism) والوں نے ناک میں دم کر دینا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply