بچوں کو تحفظ دینے میں ناکام معاشرہ۔۔سید عمران علی شاہ

پروردگارِ عالم کو اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت و انس ہے، رب کائنات نے اسی محبت کی بناء پر اپنی مخلوق کو کروڑوں نعمتوں سے سرفراز فرمایا،لیکن رب کریم نے مخلوق پر حکمرانی اور فضیلت کی دستار سے انسان کو نواز کر نہ صرف اشرف المخلوقات بنایا بلکہ اس کی حرمت کو اوج کمال بخشا، کہ “حقوق ﷲ کی معافی تو شاید مل بھی جائے لیکن حقوق العباد کی عدم ادائیگی کی صورت میں معافی کا خانہ یا کسی قسم کی کوئی رعایت عطا  نہیں ہے” ۔
انسان کو نوازی گئی نعمتوں میں سے سب زیادہ توقیر انسانی رشتوں کو حاصل ہے، انہی رشتوں میں والدین کے لئے اولاد کا رشتہ اولین اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ، بے نظیر محبت کا مظہر ہوتا ہے۔
اولاد کی محبت اس قدر طاقت ور اور معجز نما  ہوتی ہے کہ انسان تو انسان جانور اور حیوانات بھی اپنے بچوں کی خاطر اپنی جان تک نچھاور کردیتے ہیں۔والدین خود چاہے جیسے چاہیں گزارہ کرلیں مگر، اپنی اولاد کے لئیے ہمیشہ بہتر مستقبل اور زندگی کے خواہاں بھی رہتے ہیں اور اپنی اولاد بہترین مفاد اور ان کو آسائشیں فراہم کرنے کے لئیے تادم مرگ جدوجہد میں مصروف عمل رہتے ہیں،بچوں کے ساتھ محبت و شفقت سنت رسول کریم ہے، آقائے دوجہاں نے اپنی پوری زندگی یتیم پروری فرمائی۔

بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، ان سے محبت، شفقت اور ان کی دیکھ بھال، معاشرے کے ہر ایک فرد کی اوّلین ذمہ داری ہے،ایک لکھاری کی حیثیت سے میں  نے بچوں کے حقوق پر بارہا تحریر کیا، مگر بہت شدت غم سے کہنا پڑ رہا ہے کہ، ہم اپنے بچوں کو محفوظ زندگی گزارنے کے بلکہ صرف اور صرف زندہ رہنے کے بنیادی حق کو باہم پہنچانے میں مکمّل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
بچے آج بھی جنسی، ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔

بچوں سے آج بھی ورکشاپس، ہوٹلز اور بھٹوں پر جبری مشقت ویسے ہی کروائی جارہی ہے جیسے ماضی میں ہوتی رہی ہے،تعلیمی اداروں اور درسگاہوں میں تشدد بچوں پر تمام طرح کے تشدد جوں کے توں ہیں،بچوں کے صحت، تعلیم اور نشوونماء کے اعداد و شمار بھی کچھ قابل ذکر نہیں ہیں، بلکہ ان کے ساتھ مزید زیادتی یہ ہورہی ہے کہ، ان اعدادوشمار کو الفاظ کے گورکھ دھندے میں لپیٹ کر حکام بالا کو سب اچھا ہے کی رپورٹ بھیجی جاتی ہے جس سے بچوں کے بدترین استحصال میں روزبروز اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔

قصور کے انسانیت سوز زینب قتل و زیادتی کے واقعے پوری قوم ہلا کر رکھ دیا تھا، اس واقعے کے مجرم کو سزا  تو دی گئی مگر اسے نشان عبرت نہ بنایا گیا اگر ایسا ہوجاتا تو اس کے بعد کسی درندے کی جرات نہ ہوتی کہ وہ کسی اور بچی یا بچے سے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کرتا، مگر آج بھی بچے بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رونماء ہورہے ہیں۔سب زیادہ سنگین نوعیت مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت کا رویہ ہمارے بچوں اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے زہر قاتل بنتا جارہا ہے،اور بچوں کے خلاف تشدد کا رجحان ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔

چند روز قبل داؤد خیل کے نواحی علاقے میں ایک ظالم و جابر باپ نے بیٹے کی خواہش میں اپنی 3 حقیقی بچیوں کو بے دردی سے موت کی آغوش میں سلا دیا،ظلم بربریت کی ایسی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔

اسی طرح گزشتہ ہفتے ایک سفاک درندہ صفت باپ نے اپنی بیوی سے جھگڑ کر اپنے چار معصوم بچوں کو نہر میں پھینک دیا، جس سے ان ننھے فرشتوں کا انتقال ہوگیا،بچوں کے ساتھ اس بہیمانہ سلوک کا ذمہ دار ہم سب کے سب ہیں، عدلیہ، مقننہ، ایڈمنسٹریشن، حکومت وقت، والدین، پریس و الیکٹرانک میڈیا، تعلیمی نظام، معاشرے کا ہر ایک فرد ان بچوں کا مجرم ہے۔

ہم بحیثیت معاشرہ و قوم جہاں بہت سے اہم معاملات میں ناکام ہو چکے ہیں، وہیں ہم اپنے بچوں کو تحفظ دینے میں مکمّل طور پر ناکام معاشرہ ثابت ہوئے ہیں، بچوں کے ساتھ تشدد، زیادتی اور استحصال کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، مگر سب سے بڑا لمحہ فکری یہ ہے کہ یہ کوئی آخری واقعہ بھی نہیں ہے، اور ان واقعات کی مؤثر روک تھام کیلئے، ہم بطور قوم نہ ہی کوئی سنجیدگی دکھائی ہے اور نہ کوئی ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

خدارا بچے تو پھول ہوتے ہیں اور ان کے لیے تو صرف اور صرف محبت و شفقت ہی بہترین طرزِ عمل ہے، بچوں کی اہمیت ان بے اولادوں سے پوچھیں کہ جن کو پروردگار نے اولاد عطاء نہیں فرمائی،
بچوں کو مارنا یا قتل کرنا بد ترین اور قبیح فعل ہے، اگر آپ بچے پال نہیں سکتے تو ان کو کسی بے اولاد جوڑے کی حوالے کر دیں، یا ان کو کسی غیر سرکاری تنظیم کے سپرد کر دیں، مگر ان کو جان سے مارنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے۔

ہم خود سے سوال کریں اور پوچھیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا کیا کردار ادا کیا ہے،غربت، افلاس اور گھریلو جھگڑے کی آڑ میں بچوں پر اپنا غیض و  غضب  نکالنا کہاں کی دانشمندی ہے، اور اس غیر انسانی رویے کی کیا منطق ہے،آج معاشرے کے ہر ذی شعور فرد کو بچوں کے حقوق اور ان زندگی کی بقاء کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے معاشرے سے عدم برداشت کے رجحانات کو دائمی طور پر ختم کرنا ہوگا،حکومت کو بچوں کی حفاظت سے متعلق قوانین پر سخت ترین عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

عدلیہ کو بچوں سے متعلق جرائم پر تیز ترین ٹرائل کا نظام رائج کرنا ہوگا اور بچوں پر ظلم و جبر کرنے والے مجرم خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہو، ان پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت سرعام نشان عبرت بنانا ہوگا، پریس و الیکٹرانک میڈیا کو بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے معاشرے کی نوک پلک سنوارنے کے لیے اپنا حقیقی کردار ادا کرنا ہوگا اور بچوں سے متعلق ہونے والے مخصوص جرائم پر نہایت ذمہ دارانہ رپورٹنگ کو اپنانا ہوگا ، پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بچوں پر ظلم ڈھانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے زبردست حکمت عملی اپنانی ہوگی،ہمارے بچے ہم سے اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے پر امید ہیں، تو ایسے میں ہم پر ان کے ہر قسم تحفظ کی مکمّل ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔اگر ہم نے ان کو تحفظ نہ دے سکے تو ہم بجا طور اپنے بچوں کو تحفظ دینے میں ایک ناکام معاشرہ کہلانے پر حق بجانب ہونگے۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply