امریکہ اور سعودیہ دونوں ایسے ممالک ہیں جنہوں نے پاکستان کی ہر دور میں ہر قسم کی امداد کی اور ہر قسم کی نوکری بھی کروائی۔ افغان جہاد سے لے کر افغانستان حملے تک ایسا کون سا کام نہیں ہے جن میں ممالک کی براہ راست امداد رہی۔ دونوں ممالک میں سے امریکہ کچھ ہاتھ واپس کھینچ چُکا ہے کیونکہ اس کے مطابق پاکستانی ان کے کرائٹیریا پر پُورا نہیں اُترا ۔ اب پاکستان شکوہ کر رہا ہے امریکہ کی دی جانے والی امداد سے ہمارا اپنا زیادہ خرچہ ہوگیا ہے لیکن یہ نہیں بتا رہا کہ اس مالی نقصان کے ساتھ ہزاروں انسانی جانوں کا بھی نقصان ہے۔ لیکن کیا کریں مال و متاع جمع کرنا ہی تو ہمارے حکمرانوں کا مشغلہ رہا ہے جس کے نتائج بھگتنا عوام کے حصے میں رہا ہے۔ سعودیہ بھی تو بڑھ چڑھ کر حصہ دیتا رہا ہوسکتا ہے وہ بھی کبھی کہہ دے کہ بھائی اتنا مال دیا ہے تو اُس کا حساب روزنامچہ بھی ظاہر کیا جائے ۔
مملکت اسلامی سعودیہ کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ریاض میں منعقد ہونے والی ایک بزنس کانفرنس میں اعلان فرمایا کہ سعودیہ اب 1979 سے پہلے والے معتدل اسلام کو لانے کا خواہشمند ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ سعودی عرب سے کتنا پہلےوالا اسلام معتدل تھا اور 79ء کے بعد والا اسلام کیوں اور کس لیے انتہا پسند ہوگیا۔ ابھی تک ہم بطور پاکستانی اس بیان کو سمجھنے سے ہی قاصر رہے شاید۔ اب ان بیانات کی وجوہات میں سے جو ایک مجھ جیسے طالب علم کو نظر آئی ہے وہ دہشت گردی کی فائیو جی سروس یعنی داعش ہے ۔ داعش انہی تنظیموں کا تسلسل اور نئی سروس ہے جسے سعودیہ عرب نے اپنے دفاع کے لیے کاشت کیا تھا۔ اب سعودیہ کو سوُجھی کہ و ہ بھی امریکہ و یورپ کے لوگوں کی طرح رہنا سیکھے اور آزاد خیال تصور کیا جاسکے لیکن اپنے ہاتھ سے کاٹی گئی بوٹی تو نگلی جا چُکی ہے لیکن اس بوٹی کے ساتھ جو ہڈی شاید نظر نہیں آئی تھی وہ گلے میں پھنس چُکی ہے۔ سعودیہ کو یہ یقین ہے کہ پاکستان کی ‘نمبرون فوج’ سے وہ اپنے دشمن کو زیرنگیں کر سکتا ہے جس کی صاف نشانی پاکستانی کے گزشتہ آرمی چیف کو چونتیس ممالک کی فوج کا سربراہ بنانا ہے۔ سعودیہ کے موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان موجودہ دُنیا کو سمجھ چُکے ہیں اور لگتا یہ بھی ہے کہ وہ نئے ادوار کی جدت پسندی کی جانب گامزن ہوچکے ہیں اور قدامت پسند ی سے راہ فرار اختیار کرنا چاہ رہے ہیں۔
سعودیہ خود جدت پسندی یا معتدل اسلام کی طرف جانا چاہتا ہے لیکن ساتھ اپنے دشمن ایران پر اب بھی نالاں ہے ۔ گزشتہ روز ہونے والی اتحادی ممالک کی تقریب میں سعودیہ نے یمن مذاکرات میں رکاوٹ ایران کو قرار دیا ہے۔ سعودی عرب کی موجودہ قیادت نئے سرمایہ دارانہ نظام سے متاثر لگتی ہے۔بادشاہ سلامت کے صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان جو وزیر دفاع بھی ہیں اور ڈپٹی کراؤن پرنس بھی، اس کی بہت بڑی وجہ بنتے جا رہے ہیں۔
کیا ان سب معاملات کے بعد ہمارا ایک سیاسی و مذہبی طبقہ کچھ سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ پاکستان اب کس دو راہے پر جا ٹھہرے گا۔ میں اور آپ بھلے اپنے موجودہ حکمرانوں کو گالیاں دیں لیکن ان کی تعریف اگر درست ہو تو کرنے میں کیا حرج ہے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ امریکی ہمارے وائسرائے نہیں ہیں۔ ہم امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں۔ افغانستان، بھارت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ افغانستان سے یہاں آ کر ہمارے امن کو تباہ کیا جاتا ہے۔ افغانستان کے 45 فی صد علاقے پر وہاں کی حکومت کی عمل داری ہی نہیں۔
اور نجم سیٹھی کی بھرپور محنت سے بین الاقومی کرکٹ کی بحالی قابل تعریف ہے۔ لیکن ہمیں بھی اب دونوں طرف سوچنا چاہیے ایک تو امریکہ کی پاکستان سے دانستہ و نادانستہ کنارہ کشی سے ایک سبق لکھ لینا چاہیے کہ مزید پاکستان کسی بھی بڑے پھنے خان ملک کے لیے کسی پراکسی کا حصہ بننے سے گُریز کرنا چاہیے ۔ دوسرا یہ بھی سوچنا ہے کہ جتنی مذہبی انتہاپسندی میں ہم سعودیہ و ایران کی وجہ سے آخری درجے تک پہنچ گئے ہیں اب وہ خود ہمیں پھنسا کر نکل رہا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں