• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایڈم اسمتھ کے معاشی نظریے پر مارکس کی تنقید۔۔ولادیمیر لینن/ مترجم: شاداب مرتضی

ایڈم اسمتھ کے معاشی نظریے پر مارکس کی تنقید۔۔ولادیمیر لینن/ مترجم: شاداب مرتضی

سرمایہ دارانہ نظام میں پروڈکٹ کی ویلیو خود کو تین حصوں میں تحلیل کرتی ہے:

1۔پہلا حصہ مستقل سرمائے (Constant Capital) کی جگہ لیتا ہے، یعنی وہ قدر جو خام مال، مشین اور  ذرائع پیداوار وغیرہ کی شکل میں پہلے سے موجود تھی، اور جسے تیار پروڈکٹ کے ایک حصے میں دوبارہ شامل کر دیا جاتا ہے۔

2۔ دوسرا حصہ متغیر سرمائے (Variable Capital) کی جگہ لیتا ہے، یعنی مزدور کی کفالت کا احاطہ کرتا ہے،اور آخر میں؛

3۔ تیسرا حصہ جو قدرِ زائد (Surplus Value) پر مشتمل ہوتا ہے، جو سرمایہ دار کا حصہ ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ۔۔۔ پہلے دو حصوں کی تحصیل (یعنی مارکیٹ میں فروخت) کوئی دشواری پیدا نہیں کرتی کیونکہ پہلا حصہ پیداوار (Production) میں چلا جاتا ہے اور دوسرا حصہ، مزدور طبقے کے ذریعے، کھپت (Consumption) میں. لیکن تیسرے حصے، قدرِ زائد، کی تحصیل کیسے ہوتی ہے؟ سرمایہ دار اسے مکمل طور پر نہیں کھپا سکتا!

قدرِ زائد کی تحصیل کے نظریے (Theory of Realization) کو درست انداز سے سمجھنے کے لیے ہمیں ایڈم اسمتھ سے آغاز کرنا چاہیے جس نے اس موضوع پر اس غلط نظریے کی بنیاد رکھی جو مارکس کے آنے تک سیاسی معیشت پر بلاشرکت غیرے حاوی رہا۔ ایڈم اسمتھ نے چیز (کموڈٹی – Commodity) کی قیمت کو صرف دو حصوں میں تقسیم کیا: متغیر سرمایہ (جو اس کی لفظیات میں اجرت ہے) اور قدرِ زائد (وہ “منافعے” اور “کرائے” کو اکٹھا نہیں کرتا، اور اسی لیے اس نے دراصل کل تین حصے شمار کیے). اس طرح اس نے اجناس کے مجموعے کو، یعنی کل سالانہ سماجی پیداوار کو، انہی حصوں میں تقسیم کردیا اور انہیں سماج کے دو طبقوں کی “آمدنی (Revenue)” کے لیے براہِ راست مختص کر دیا: یعنی مزدور اور سرمایہ دار (جنہیں ایڈم اسمتھ کام کرنے والا (Undertaker) اور زمیندار (Landlord) کہتا ہے)۔

اس نے کس بنیاد پر قدر (ویلیو – Value) کے تیسرے حصے، یعنی، مستقل سرمائے کو خارج کر دیا؟ ایڈم اسمتھ اس حصے کا مشاہدہ کرنے میں ناکام نہیں رہا، لیکن اس نے یہ فرض کیا کہ یہ حصہ بھی اجرتوں اور قدرِ زائد سے مل کر بنا ہے۔ اس نے اس طرح اس موضوع پر استدلال کیا:

“مکئی کی قیمت میں، مثال کے طور پر، ایک حصہ زمیندار کا کرایہ ادا کرتا ہے، دوسرا حصہ ان مزدوروں اور محنت کش جانوروں کی دیکھ بھال کا خرچ اور اجرت ادا کرتا ہے جنہیں اس کی پیداوار میں لگایا گیا، اور تیسرا حصہ کاشتکار (فارم کا مالک – Farmer) کا منافع ادا کرتا ہے۔ یہ تینوں حصے، فورا ًیا بالآخر، مکئی کی مجموعی قیمت تشکیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ کاشتکار کے مال کی تبدیلی کے لیے یا اس کے محنت کش جانوروں کی اور زرعی آلات کی دیکھ بھال کے لیے ایک چوتھا حصہ بھی ضروری ہے۔ لیکن اس پر لازما ً غور کرنا چاہیے کہ کسی بھی زرعی آلے کی قیمت، مثلا ً محنت کش گھوڑے کی قیمت، بذاتِ خود انہی تین حصوں سے مل کر بنی ہے۔ (یعنی، کرائے، منافع اور اجرتوں سے مل کر). لہذا، حالانکہ مکئی کی قیمت گھوڑے کی قیمت اور اس کی دیکھ بھال کے خراجات کی ادائیگی کر سکتی ہے، لیکن اس کی مجموعی قیمت، فوراً  یا بالآخر، ہنوز، کرائے، محنت اور منافع  کے انہی تین حصوں میں شامل ہوتی ہے۔”

ایڈم اسمتھ کے اس نظریے کو مارکس “نہایت حیران کن” نظریہ کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ “اس کے دعوے کا ثبوت محض اپنے دعوے کو دہرا دینے پر مشتمل ہے۔” “استمھ ہمیں ادھر ادھر دوڑاتا رہتا ہے،” یہ کہتے ہوئے کہ آلات کی  قیمت بذاتِ خود انہی تین حصوں میں شامل ہوجاتی ہے، اسمتھ اس بات کا اضافہ کرنا بھول جاتا ہے: اور ان ذرائع پیداوار کی قیمت میں بھی جو ان آلات کو بنانے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایڈم اسمتھ (اور بعد کے معیشت دانوں) کی جانب سے سرمائے کے مستقل حصے کو پروڈکٹ کی قیمت سے نکال دینے کی غلطی کا سبب سرمایہ دارانہ معیشت میں اجناس کے زخیرے (Accumulation) کا، پیداوار کی بڑھوتی کا، یعنی قدرِ زائد کی سرمائے میں تبدیلی کا، غلط تصور ہے۔

یہاں بھی ایڈم اسمتھ نے یہ فرض کرتے ہوئے مستقل سرمائے سے صرفِ نظر کیا کہ قدرِ زائد کا زخیرہ ہو جانے والا حصہ، یعنی وہ حصہ جو سرمائے میں بدل جاتا ہے، اسے پیداوار کرنے والا مزدور مکمل خرچ کر دیتا ہے، یعنی وہ حصہ مکمل طور پر اجرتوں میں چلا جاتا ہے، جبکہ دراصل قدرِ زائد کا زخیرہ شدہ حصہ مستقل سرمائے پر (پیداواری آلات، خام مال، اور دیگر امدادی سامان پر) اور اجرتوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ایڈم اسمتھ (اور ریکارڈو، مل (Mill) اور دوسروں) کے اس خیال پر اپنی تصنیف “سرمایہ” کی پہلی جلد کے ساتویں حصے “سرمائے کا زخیرہ” کے بائیسویں باب “قدرِ زائد کی سرمائے میں منتقلی” کے دوسرے سیکشن “مستقل بڑھتی ہوئی پیداوارِ نو کے بارے میں سیاسی معیشت کے غلط تصورات” میں مارکس کہتا ہے کہ “سرمائے” کی دوسری جلد میں “یہ دکھایا جائے گا کہ ایڈم اسمتھ کے عقیدے (Dogma) نے (جسے اس کے تمام پیروکاروں نے اختیار کیا) سیاسی معیشت کو سماجی پیداوار کے عمل کے ابتدائی ترین میکنزم کو سمجھنے سے بھی محروم رکھا۔”

ایڈم اسمتھ سے یہ غلطی اس لیے ہوئی کہ اس نے اجناس کی قدر کو (پروڈکٹ کی ویلیو کو) نئی پیدا ہونے والی قدر (ویلیو) سے الجھا دیا: مؤخر الذکر (نئی قدر) یقیناً  خود کو متغیر سرمائے اور قدرِ زائد میں شامل کرتی ہے جبکہ اوّل الذکر میں اس کے علاوہ مستقل سرمایہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس غلطی کا انکشاف مارکس قدر کے اپنے تجزیے میں پہلے ہی کر چکا تھا جب اس نے تجریدی محنت میں، جو نئی قدر تخلیق کرتی ہے اور ٹھوس، کارآمد محنت میں، جو پہلے سے موجود قدر کو کارآمد جنس کی نئی شکل میں دوبارہ پیدا کرتی ہے، فرق دکھایا تھا۔

کل سماجی سرمائے کی دوبارہ پیداوار اور اس کی گردش کے عمل کی وضاحت کرنا سرمایہ دارانہ معاشرے میں قومی آمدنی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے خاص طور پر ضروری ہے۔ یہ بات نوٹ کرنا نہایت دلچسپ ہے کہ مؤخر الذکر مسئلے سے نپٹتے ہوئے، ایڈم اسمتھ اپنے اس غلط نظریے سے مزید چپکا نہیں رہ سکا جو مستقل سرمائے کو ملک کی مجموعی پیداوار سے خارج کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

“کسی عظیم ملک کے تمام باشندوں کی مجموعی آمدنی (Gross Revenue) ان کی زمین اور محنت کی مکمل سالانہ پیداوار کا احاطہ کرتی ہے، (جبکہ) خالص آمدنی (Net Revenue)، اس کا، جو دیکھ بھال اور کفالت کے اخراجات نکالنے کے بعد بچ جاتی ہے، یعنی اول، ان کا جامد (مستقل سرمایہ)؛ اور، دوئم، ان کا گردشی (متغیر) سرمایہ، یا، جو وہ اپنے سرمائے سے تجاوز کیے بغیر، اپنے اس مال میں لگا سکتے ہیں جو فوری کھپت کے لیے ہوتا ہے، یا جسے وہ اپنی کفالت، سہولیات اور تفریح پر خرچ کرتے ہیں۔” ۔

چنانچہ، ایڈم اسمتھ نے ملک کی کل پیداوار سے سرمائے کو خارج کر دیا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ خود کو اجرتوں، منافعے اور کرائے میں، یعنی “خالص” آمدنی (Net Revenue) میں تحلیل کر دیتا ہے؛ لیکن معاشرے کی مجموعی آمدنی (Gross Revenue) میں وہ سرمائے کو اشیائے کھپت سے الگ کرتے ہوئے (یعنی خالص آمدنی سے الگ کرتے ہوئے) شامل کرتا ہے. یہی وہ تضاد ہے جس میں مارکس ایڈم اسمتھ کو پکڑ لیتا ہے: اگر پیداوار میں کوئی سرمایہ نہیں تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آمدنی میں سرمایہ ہو؟ خود اس بات سے بے خبر رہتے ہوئے، ایڈم اسمتھ اس مقام پر مجموعی پیداوار کی قدر میں تین حصوں کو تسلیم کرتا ہے: نہ صرف متغیر سرمایہ اور قدرِ زائد بلکہ مستقل سرمایہ بھی۔ مزید برآں، ایڈم اسمتھ کا سامنا ایک اور بہت اہم فرق سے ہوتا ہے، ایک ایسا فرق جو تھیوری آف رئیلائزیشن میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

“جامد (مستقل) سرمائے کو برقرار رکھنے کا تمام خرچ لازمی طور پر معاشرے کی خالص آمدنی (Net Revenue) سے نکال دینا چاہیے۔ نہ ہی وہ چیزیں جو ان کی کارآمد مشینوں اور تجارت کے آلات کی مدد کرنے کے لیے ضروری ہیں، منافع بخش عمارتیں وغیرہ، اور نہ ہی اس محنت کی پیداوار جو ان چیزوں کو مناسب شکل میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے، کبھی بھی اس کا کوئی حصہ بن سکتے ہیں۔ اس محنت کی قیمت یقینا ً اس کا ایک حصہ بن سکتی ہے؛ جیسے کہ کام میں لگائے گئے مزدور، جو اپنی اجرتوں کی تمام قدر اس مال پر لگا سکتے ہیں، جو ان کی فوری کھپت کے لیے مختص ہے۔ لیکن محنت کی دوسری قسموں میں، (محنت کی) “قیمت” اور (محنت کی) پیداوار، دونوں، اس مال میں شامل ہوجاتی ہیں، قیمت کام کرنے والوں کے (مال میں)، پیداوار دوسرے لوگوں کے (مال میں)۔”

یہاں ہمیں دو طرح کی محنت کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت کی جھلک نظر آتی ہے: ایک وہ محنت جو کھپت کے لیے ان چیزوں کی پیداوار کرتی ہے جو “خالص آمدنی (Net Revenue)” میں داخل ہوجاتی ہیں، اور ایک دوسری قسم کی محنت جو “تجارت کے لیے آلات، کارآمد مشینیں۔۔۔عمارتیں وغیرہ “پیدا کرتی ہے” یعنی ایسی چیزیں جنہیں کبھی بھی ذاتی کھپت کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے اس بات کا اعتراف ایک قدم کے فاصلے پر ہے کہ رئیلائزیشن کی وضاحت مطلقاً  اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کھپت کی دو شکلوں میں فرق کیا جائے:ذاتی اور پیداواری (یعنی دوبارہ پیداوار کرنا). ایڈم اسمتھ کی ان دو غلطیوں کا ازالہ کرنا، یعنی پیداوار کی قدر سے مستقل سرمائے کو نکال دینا اور ذاتی اور پیداواری کھپت کو الجھانا، ہی وہ چیز تھی جس نے مارکس کو اس قابل بنایا کہ وہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں سماجی پیداوار کی رئیلائزیشن کے بارے میں اپنا شاندار نظریہ تشکیل دے۔

جہاں تک ان دوسرے ماہریں اقتصادیات کی بات ہے جو ایڈم اسمتھ اور کارل مارکس کے درمیان آتے ہیں، ان سب نے ایڈم اسمتھ کی غلطیوں کو دوہرایا اور اس وجہ سے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ پاٰئے۔ اس کے نتیجے میں (قومی) آمدنی کے نظریات میں پھیلی ہوئی الجھن کے بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے۔ جہاں تک اجناس کی عمومی فاضل پیداوار (Overproduction) کے امکان کے بارے میں تنازعے کا تعلق ہے جو ایک جانب ریکارڈو، سے (Say)، اور مل (Mill) کے درمیان اور دوسری جانب مالتھس، سسمنڈی، کالمرز، کرشمان اور دوسروں کے درمیان ہوا، اس میں دونوں طرف کے فریقین، ایڈم اسمتھ کے غلط نظریے پر قاٰئم رہے، اور نتیجے میں، جیسا کہ ایس۔ بلگاکوف درست کہتا ہے، “مسئلے کی جھوٹی بنیاد اور غلط تشکیل کی وجہ سے یہ تنازعات صرف لایعنی بحث اور لفظوں کے ہیر پھیر تک ہی لے جا سکے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

ولادیمیر لینن: “روس میں سرمایہ داری کا ارتقاء”۔ 99-1896ء۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری