شناخت کے زاویے (3)۔۔وہاراامباکر

اپنی روزہ مرہ کی زندگی میں ہم کئی قسم کی شناخت رکھتے ہیں۔ آپ اپنی بہن کے بھائی ہو سکتے ہیں۔ اپنے والدین کے بیٹے ہو سکتے ہیں، اپنے دوست کے دوست ہو سکتے ہیں، کمپنی کے ملازم ہو سکتے ہیں۔
یا پھر آپ اپنی شناخت اپنی دلچسپی، مہارت، صنف یا نسل کی بنیاد پر بنا سکتے ہیں۔ جو بھی ہے لیکن خیال ہے کہ آپ اپنی شناخت کو ایک جامد اور مستحکم شے سمجھتے ہیں۔ اور آپ کو یہ اسی طرح ہی پسند ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر چلیں ہم اٹھارہویں صدی کے فلسفی ڈیوڈ ہیوم کی طرف چلتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ایسا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیوم کا کہنا ہے کہ آپ پیدائش سے موت تک ایک شخص نہیں ہیں۔ اور ایسا سمجھنا ایک سراب ہے۔ یہ تصور بہت آزاد کرنے والا ہو یا بہت دہشتناک ہو۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ اس کو دیکھتے کیسے ہیں۔ اس کا مطلب آپ کے اپنے اور اپنے پیاروں سے تعلقات کے تناظر میں کیا ہے؟
اگر آپ نے کسی سے شادی کی تھی اور وہ شخص اب وہ نہیں ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا آپ دونوں کا وعدہ بے معنی ہو گیا؟ اور ذاتی ذمہ داری؟
اگر شخص کی شناخت مضبوط نہیں تو پھر کسی کو کیسے اس کے کام کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پچھلے حصے میں ہم نے باڈی تھیوری (ایک جسم کی ایک شناخت) اور میموری تھیوری (یاداشت کے ذریعے شناخت) کا موازنہ کیا تھا۔ دونوں ماڈل کمزوریاں رکھتے ہیں۔ ہمیں مستقل اور مسلسل رہنے والی شخصیت درکار ہے لیکن ہیوم کا کہنا ہے کہ ایسا ہے ہی نہیں اور یہ بہت سادہ سی بات ہے۔
اگر خاص شناخت ہونے کا مطلب خاص خصوصیات کا ہونا ہے تو کوئی بھی ایک شناخت ایک لمحے سے اگلے تک کیسے برقرار رکھ سکتا ہے؟
ظاہر ہے کہ میں وہ شخص نہیں جو اپنے بچپن میں تھا۔ اور میں تو صبح اٹھنے سے اب تک بھی تبدیل ہوا ہوں۔ ہیوم کا کہنا ہے کہ ایسا سمجھنا بے وقوفی ہے کہ ان میں کوئی اصل فرق نہیں۔
لیکن میرا ادراک اور وجدان ایسا نہیں کہتا تو ہیوم کے خیال میں کیا ہو رہا ہے؟
ہیوم کے خیال میں شخص تاثرات کا بنڈل ہے جس میں بے شمار مختلف اشیا ہیں۔ جسم، ذہن، جذبات، ترجیحات، یادداشت ۔۔۔ دوسرے کے لگائے ہوئے لیبل بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ ایک ڈبہ ہے جس میں ہر وہ چیز ڈال دیتے ہیں جو مجھے “میں” بناتی ہے۔ میرا ڈی این اے، میرے آداب، میرا سیاسی جھکاوٗ۔ میری عینک، میرے دوسروں سے تعلقات، میرے مختلف کردار۔ ہیوم کا نکتہ یہ ہے کہ “شخص” اس ڈبے کے سارے مواد کا شارٹ ہینڈ ہے۔ کچھ سامان نکلتا جائے گا، کچھ نیا آتا جائے گا۔ اگر آپ وہ ڈبہ دیکھیں جو میں ہوں اور اس کا موازنہ اس ڈبے کے ساتھ کریں جو میرے والد اور والدہ ہسپتال سے لائے تھے تو ان میں کچھ بھی یکساں نہیں۔ اور اس پر ہیوم نے کہا کہ ہم سب مسلسل تبدیل ہوتے تاثرات کے بنڈل ہیں اور یہ ہمارا ذہنی سراب ہے کہ یہ کانسٹنٹ رہتا ہے کیونکہ ہم گوشت کے اس ڈبے میں بند ہیں جو ایک روز سے اگلے روز تقریباً ایک سا لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرک پارفٹ سوچ کا ایک تجربہ تجویز کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ ایک مشین میں آپ کے ایک ایک ایٹم کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ آپ کی تمام انفارمیشن کو کاپی کر کے روشنی کی رفتار سے مریخ بھیج دیا جاتا ہے۔ مریخ پر ایک اور مشین ہے جہاں پر ایک ایک ایٹم کو اسی ترتیب سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی نامیاتی مادی کی کاپیاں استعمال کر کے جن سے آپ زمین پر بنے تھے۔ وہ شخص جو مریخ پر جاگا ہے، وہی یادداشت اور شخصیت رکھتا ہے جو آپ کی تھی۔ کیا وہ آپ ہیں؟ اور کیا آپ نے سپیس ٹریول کیا ہے؟ یا پھر یہ ایک نیا شخص ہے جسے جوڑا گیا ہے؟
اب ایک اور کیس دیکھتے ہیں۔ اگر اسی مشین میں آپ کے جسم کو تباہ کئے بغیر آپ کو سکین کیا جاتا ہے تاکہ یہ انفارمیشن مریخ پر دوبارہ تخلیق کی جا سکے۔ لیکن آپ زمین پر ویسے ہی موجود رہتے ہیں۔ کیا آپ نے سپیس ٹریول کیا؟ یا صرف آپ کی کاپی بنی ہے؟ اور اگر آپ زمین پر موجود ہیں تو کیا مریخ پر بھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارفٹ ہیوم سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ دونوں کیسز میں آپ نے سپیس ٹریول نہیں کیا۔ دونوں میں ایک نئے “آپ” مریخ پر بن گئے، خواہ پرانا آپ ویسے ہی موجود رہا یا تباہ ہو گیا۔
اور ویسے اگر آپ خلائی جہاز میں بھی مریخ جاتے تو بھی جو شخص مریخ پہنچتا، وہ نیا ہی ہوتا۔ کیونکہ اس سفر کے دوران آپ کے اندر کئی قسم کی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہوتیں۔
پارفٹ کے خیال میں ہیوم نے ایک بڑا ایک نکتہ چھوڑ دیا تھا۔ اگرچہ پیدائش سے موت تک کوئی ایک شخص نہیں لیکن وقت کے ساتھ ہم ان سب سے نفسیاتی تعلق برقرار رکھتے ہیں۔
زندگی کو زنجیروں کی لڑی کے طور پر دیکھ لیں۔ یہ جال آپ کی شناخت ہے جو بہت سی کڑیوں سے مل کر بنا ہے۔ اور یہ کڑیاں ایک دوسرے سے خاص نقطوں پر ملتی ہیں اور زنجیر بناتے ہیں۔ جس طرح ہماری زندگی کا وقت آگے چلتا جاتا ہے، زنجیر کی کڑیاں ساتھ لگتے جاتے ہیں۔ اور جو پرانی کڑیاں پیچھے رہ چکی ہیں، آہستہ آہستہ ان میں سے کچھ گر جاتی ہیں اور ساتھ نہیں رہتیں۔ ان سے نفسیاتی تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ مثلاً، آپ کو کسی وقت میں ٹوٹ بٹوٹ پسند تھا، پھر کسی وقت میں زنجیر سے یہ الگ ہو گیا۔ اور کسی وقت میں آپ نے دریافت کیا کہ فلسفہ آپ کی نئی محبت ہے تو یہ ایک نئی کڑی بن گیا۔
زنجیر کے کچھ حصے دوسروں کے ساتھ انٹرسیکٹ کرتے ہیں اور بہت طویل عرصے تک یا تمام زندگی برقرار رہتے ہیں۔ مثلاً، آپ کی اپنی والدین سے محبت ایسی کڑی ہو سکتی ہے جو تمام عمر قائم رہے۔
پارفٹ کہتے ہیں کہ “ہاں، میں وہ شخص نہیں جو پرائمری سکول گیا تھا اور میں وہ شخص نہیں ہوں گا جو بسترِ مرگ پر ہو گا۔ میں تو وہ بھی نہیں جس نے یہ جملہ بولنا شروع کیا تھا، کیونکہ ہر تجربہ ہمیں بہت تھوڑا سا ہی سہی، لیکن بدل دیتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ میرے حصے رہ جائیں گے اور اس کی وجہ ان سب کا نفسیاتی تعلق ہے۔ اور اس تعلق سے یہ بقا اہمیت رکھتی ہے۔ جب تک ان حصوں میں سے کئی برقرار رہیں گے، آپ خود کو ایک شخص کے طور پر دیکھیں گے۔ لیکن تمام زندگی کے لئے ایسا نہیں۔ جب آپ بالکل ابتدائی عمر میں تھے، اس وقت کا کوئی بھی حصہ آپ کے ساتھ نہیں۔ جس مادے سے آپ بنے تھے، وہ سب تبدیل ہو چکا ہے اور آپ کی اس وقت کے ساتھ کوئی یادداشت نہیں اور آپ کی زندگی کی ترجیحات مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہیں۔ آپ کا بچپن کا وجود باقی نہیں رہا۔ لیکن وہ جو آپ پچھلے سال تھے، اس میں سے زیادہ بڑا حصہ ہے جو باقی رہ گیا ہے”۔
اور یہاں پر پارفٹ ہمیں ایک اہم انسائیٹ دیتے ہیں۔
آپ کی اپنے پرانے دوست سے بڑے مدت بعد ملاقات ہوئی۔ آپ پہلی چیز پوچھیں گے کہ وہ اتنا عرصہ کیا کرتا رہا اور اس کے ساتھ کیا گزری۔ جب آپ یہ کر رہے ہیں تو (اس بارے میں سوچے بغیر) آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ دونوں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگر یہ تبدیلیاں زیادہ بڑی ہیں تو آپ کو اپنا دوست پہلے کسی اجنبی کی طرح لگے گا۔ آپ کو اس نئے شخص کو دوبارہ جاننے میں تھوڑا سا وقت لگے۔ اور آپ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ آپ کو کسی شخص کے تازہ ترین ورژن کو جاننے کی ضرورت ہے۔
اور اس کا برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ کی دوسرے شہر میں رہنے والی ایک پھوپھو ہیں جن سے سال کے سال ملاقات ہوتی ہے جو ابھی بھی آپ کے گال کھینچتی ہیں اور آپ کو تحفے میں نیا کھلونا دیتی ہیں۔ آپ ان کے بہت لاڈلے بھتیجے تھے جب آپ دس سال کے تھے۔ انکے ذہن میں آپ کا وہی تاثر ہے اور وہ آپ کے موجودہ ورژن سے واقف نہیں۔ وہ جس کے لئے کھلونا خرید رہی ہیں، وہ اب وجود نہیں رکھتا۔ لیکن چونکہ آپ کی ملاقات اتنی کم ہوتی ہے کہ پرانا گہرا تاثر ہی رہا ہے جو اپڈیٹ نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب واپس اہم سوال کی طرف۔ اگر میں وقت کے ساتھ یکساں نہیں رہتا تو میرے وعدوں یا ذمہ داریوں کی کیا تک بچتی ہے؟
پارفٹ کی تھیوری اس بارے میں ایک جواب دیتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں اور وعدوں کے تعلق کی مطابقت اس شخص کے ساتھ تعلق کی ڈگری سے ہے جس نے انہیں لیا تھا۔
اگر آپ پرائمری سکول میں دوسروں کو تنگ کرنے والے بچے تھے جو بڑے ہو کر بہت ہی پیارے انسان بن چکے ہیں جو کسی کے ساتھ بدتہذیبی دکھانے کا بھی نہیں سوچ سکتا تو آپ کو سکول کے دنوں کے بارے میں خود کو قصوروار سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ وہ شخص نہیں ہیں اور آپ اس بچے کی حرکتوں کے ذمہ دار نہیں۔
یا اسی طرح سکول میں بہترین دوست کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ بہترین دوست رہیں گے۔ لیکن اب آپ میں کچھ بھی مشترک نہیں رہا اور ایک دوسرے سے کوئی لگاوٗ محسوس نہیں کرتے تو اس وعدے کی اہمیت بھی نہیں۔
اور شادی کے وقت کئے گئے عہد و پیمان؟ پارفٹ کی نظر میں کوئی بھی وعدہ تمام عمر باقی نہیں رہتا۔ اس کی تجدیدِ نو بھی ہر وقت کرتے رہنا پڑتی ہے۔ تا کہ تمام زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ یہ متعلقہ رہیں۔ وقت کے ساتھ آپ اور آپ کا شریکِ حیات تبدیل ہوں گے اور نئے افراد میں ڈھلتے جائیں گے۔ مفکرین کے مطابق اگر وہ عہد و پیمان تازہ رکھے جائیں گے تو پھر ہی یہ تمام عمر برقرار رہیں گے۔ کیونکہ آپ اس وقت پر انحصار نہیں کر سکتے جب برسوں پہلے آپ بالکل مختلف انسان تھے۔ آپ جب صبح آپ نے دوسرے کے لئے گرما گرم چائے کا کپ بنایا یا گھر کی گلی صاف کی تو یہ ایک اور نیا پیمان تھا۔ تسلسل تعلق برقرار رکھتا ہے۔
یہ سوال صرف مریخ پر بھیجنے والے فرضی نہیں بلکہ ان پر غور سے ہم اپنے، اپنے پیاروں اور ان سے تعلقات کے بارے میں سیکھ سکتے ہیں۔
اور اب ہم ایک اہم اصطلاح کی طرف چلتے ہیں۔ “شخص” کیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply