ٹیپو سلطان تاریخ کے آئینے میں۔۔محمد عماد عاشق

کبھی کوئی دوست مطالعہِ پاکستان کے حوالے سے کسی اچھی کتاب کے بارے میں دریافت کرے تو میں ایک کتاب کا نام لازمی لیتا ہوں۔ یہ کتاب “The History and Culture of Pakistan” ہے، جسے برطانوی مصنف Nigel Kelly نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کا اسلوب بہت عام فہم اور سادہ ہے اور اس میں بہت سی اہم تفصیلات کو نہایت جامعیت سے سمیٹا گیا ہے۔ فقیر کو اس کتاب کا تعارف بیکن ہاؤس کے ذریعے حاصل ہوا کہ جماعت ہشتم میں اس کا کچھ حصہ پڑھایا گیا۔ بعد ازاں کچھ امتحانات کی تیاری کے دوران بھی اس کتاب سے استفادہ کیا۔ اس کتاب کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سی متنازع  باتوں کا بہت عمدہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔   4 مئی  یومِ شہادتِ شیرِ میسور ہے۔ ٹیپو سلطان کے حوالے سے اس کتاب میں جو شان دار تجزیہ پیش کیا گیا،  اس کا تذکرہ کرنا بر محل ہوگا۔

مصنف نے اس کتاب میں کچھ انگریز مؤرخین کے اقتباسات پیش کیے ہیں ۔ ان اقتباسات میں انگریز مؤرخین نے اپنے زمانے میں ٹیپو سلطان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ مؤرخین ٹیپو کے زمانے میں ہندوستان میں موجود تھے اور انہوں نے ٹیپو پر کافی سنگین الزامات لگائے، جن میں سرِ فہرست الزام یہ ہے کہ ٹیپو عدم رواداری کا شکار تھا۔ بہت ظالم تھا، اور خصوصاً اپنی رعایا میں موجود غیر مسلم آبادی  کے ساتھ بہت سنگ دل رویہ روا رکھتا تھا۔ ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ ٹیپو نے اپنی ریاست میں موجود غیر مسلموں کی عبادت گاہوں خصوصاً  مندروں کو مسمار کروایا۔

یہ سب اقتباسات پیش کر کے مصنف قارئین کو دعوتِ   غور و فکر  دیتے ہوئے ایک سوال کرتا ہے کہ آخر یہ انگریز مؤرخین ٹیپو کے بارے میں اتنا سخت رویہ کیوں اپنائے ہوئے ہیں۔ قاری اس بات پر غور و خوص کرتا ہوا صفحہ پلٹتا ہے تو اسے اگلے ہی صفحے پر اس سوال پر مصنف کا شان دار تجزیہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ وہ تجزیہ پڑھ کر انسان مصنف کو بھی دعا دیتا ہے اور قاری کے دل میں ٹیپو کی عظمت و رفعت مزید بلند ہوتی ہے۔ یہاں میں مصنف کا تجزیہ اپنی طرف سے کچھ پس منظر اور پیش منظر شامل کر کے قارئین کی نذر کرتا ہوں تاکہ قارئین کو مصنف کی منشاء سمجھ آ سکے۔

برِصغیر ہند و پاک میں جب انگریزوں نے تُجار کے بھیس میں قدم رکھا تو رفتہ رفتہ ان کا اثر و رسوخ بڑھتا  گیا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی وہ فوج جو کبھی کمپنی کی حفاظت کے لیے رکھی گئی تھی، اب مقامی سرداروں کے ساتھ جنگیں لڑ کے ان کے علاقے چھین کر کمپنی کی جاگیر میں اضافہ کرتی رہیں ، یہاں تک کہ 1757 کی جنگِ پلاسی میں جب ہند و پاک کی امیر ترین ریاست بنگال کے نواب سراج الدولہ کومیر جعفر کی غداری کی  بدولت ایسٹ انڈیا کمپنی کے کمان دار روبرٹ کلائیو کے ہاتھوں شکست ہوئی تو یہ کمپنی کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کے بعد کمپنی کی فتوحات میں اضافہ ہوا اور رفتہ رفتہ دہلی میں قائم مغل سلطنت برائے نام رہ گئی۔ اب انگریز کے سامنے صرف ایک رکاوٹ تھی اور وہ تھا حیدر علی کا جاں نثار بیٹا سلطان ٹیپو جس نے انگریزوں کو اپنی جرات، بہادری ، معاملہ فہمی، بہترین جنگی حکمتِ عملی اور دلیری سے پے درپے شکست سے دوچار کیا اور کئی مواقع پر کمپنی اپنے زخم چاٹتی رہ گئی ۔ برِ صغیر میں انگریز کے اقتدار کو دوام حاصل ہونے کی راہ میں صرف ایک شخص رکاوٹ تھا اور وہ مردِ مجاہد ٹیپو سلطان تھا۔

اس پس منظر کو سامنے رکھ کر مصنف یہ کہتا ہے کہ اس صورتِ حال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو انگریز سرکار سے رقم ، اسلحہ اور افرادی قوت درکار تھی، مگر وہ یہ سب فقط کسی فرمائش کے بل بوتے پر حاصل نہ کر سکتی تھی، بلکہ اس کے لیے اسے باقاعدہ جواز پیدا کرنا تھا۔ اور یہی جواز اُن دروغ گو انگریز مؤرخین کے ذریعے پیدا کیا گیا، جنہوں نے ٹیپو سلطان کی شخصیت کو مسخ کر کے انگریز سرکار کے سامنے پیش کیا اور یوں کچھ کمپنی کو درپیش خطرات کا بہانہ کر کے اور کچھ “انسانی حقوق” کو جواز بنا کر برطانوی پارلیمنٹ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے مزید وسائل کا بندوبست کیا گیا۔ ان ہی وسائل میں سے میر صادق جیسے غدار خریدے گئے اور بالآخر ٹیپو سلطان جامِ شہادت نوش کر گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہا جاتا ہے کہ دشمنی کا لطف بھی تب آتا ہے جب مخالف ظرف والا ہو۔  آج یومِ علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) بھی ہے۔ انہوں نے ایک کافر کو اس لیے قتل نہیں کیا تھا کہ اس نے ان کے چہرہِ اقدس پر تھوکنے کی گستاخی کی تھی اور یوں مولا علی کو شائبہ ہوا کہ اب اگر قتل کیا تو اس میں ذاتی انتقام شامل ہوگا۔ یہ ہوتا ہے ظرف۔ یہ ہوتی ہیں اعلیٰ اقدار۔ ہمارا ٹیپو ان ہی اقدار کا پیرو تھا۔ ان ہی اوصاف کا حامل تھا۔ اسی لیے کہتا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ اس کی بہادری کا عالم دیکھیں کہ انگریزوں کو اسے شکست دینے کے لیے کس قدر گھٹیا ہتھکنڈے اپنانے پڑے۔ تاریخ میں ایسے لوگ ہمیشہ ابدیت حاصل کر تے  ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ٹیپو سلطان تاریخ کے آئینے میں۔۔محمد عماد عاشق

  1. بے شک ٹیپو سلطان ایل بہت بڑا مجاہد تھا لیکن اس کے والد حیدر علی اس سے بھی بڑا تاریخی کردار تھا.

Leave a Reply to Aamir Safdar Hussain Cancel reply