کچھ بیان حیرت کا۔۔رعایت اللہ فاروقی

(مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ایسی تحریر کئی سالوں بعد پڑھی کہ جسکے حرف حرف کو جرعہ جرعہ پیا اور مخمور ہو گیا۔ اگر رعایت اللہ فاروقی آج اپنا لکھا سب کچھ جلا دیں تو یہ تحریر انکو زندہ رکھنے کیلئے کافی ہو گی۔ چیف ایڈیٹر)

چند گزارشات کرنے جا رہا ہوں۔ میری تجویز ہے کہ انہیں کسی ڈائری وغیرہ میں محفوظ کرلیں، آگے عمر کے مختلف مراحل پر کام دیں گی۔

انسانی عقل کا پہلا سفر “حیرت” کا ہی ہے۔ حیرت کا یہ سفر یوں تو پیدا ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے مگر بالکل ابتدائی عمر میں یاداشت اسے محفوظ نہیں رکھ پاتی۔ ورنہ پیدا ہوتے ہی اس کا رونا اس کی سب سے پہلی حیرت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ سنجیدہ اور قابل توجہ حیرت کا دوربلوغ کے بعد اس دنیا کی کچھ ٹھوس مگر چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروع ہوتا ہے۔ اٹھارہ برس کے بعد حیرت کا یہ دور نظریاتی مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ اب نظریاتی مباحث پڑھتے ہوئے عقل قدم قدم پر حیرتوں کا شکار ہوتی ہے۔ اور وجہ اس کی بس اتنی سی ہوتی ہے کہ عقل ہر چھوٹی بڑی نظریاتی بات سے پہلی مرتبہ متعارف ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ انسانی عقل کے تعارف میں شامل ہے کہ جس چیز سے بھی یہ پہلی بار آشنا ہوتی ہے “حیرت” میں مبتلا ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی پہلی دعوت پر بھی بہت بوڑھے بوڑھے اہل مکہ کی عقل پہلے مرحلے میں حیرت کا ہی شکار ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ باتیں ان کی عقلوں کے لئے نئی تھیں۔ چنانچہ اگر ہم مشرکین مکہ کے ان ابتدائی ایام کے مکالمے سنیں تو ان کا سب سے نمایاں عنصر “حیرت” ہی ہے۔

نظریاتی مباحث کے مطالعے میں درست اور غلط کی دو راہیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مذہبی گھرانوں کے نوجوان صرف درست سیکھ جاتے ہیں اور غلط نظریات سے خود کو “گمراہ کن” سمجھ کر دور رکھ لیتے ہیں۔ جس کے دو نقصانات ہوجاتے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے نظریات کے ٹھوس ہونے پر یہ ہوتے پر یقین ہیں مگر فی الواقع ان کا درست پر یقین محض ایک خوش فہمی ہوتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی درست کی پختگی کے لئے لازم ہے کہ اس کے مقابل موجود غلط سے بھی مکمل آگہی ہو۔ جب کسی درست کے مقابل کھڑے غلط کے دلائل ہی معلوم نہیں تو آپ کیسے حقیقی یقین حاصل کرسکتے ہیں کہ آپ کا نظریاتی شعور مضبوط اور پختہ ہے ؟۔ دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ درست اور غلط کے تقابلی جائزے کی صورت عقل جو نئے نکات تک رسائی حاصل کرتی ہے جسے علم میں نیا اضافہ کہا جاتا ہے وہ نہیں ہو پاتا۔ آپ کی عقل بس کچھ معلومات کی اسیر رہ جاتی ہے وہ انسانی شعور کے لئے کوئی نیا نکتہ دریافت کرنے کی قدرت سے محروم رہ جاتی ہے۔ اور یاد رکھئے کہ علم ہے ہی وہ نیا نکتہ جو نظریاتی تقابل و تجزیے کے نتیجے میں سامنا آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چنانچہ کسی شخص کے صاحب علم ہونے کا درست معیار یہی ہے کہ اس کی عقل علم میں کوئی نیا اضافہ کر رہی ہے۔ اگر کسی نے بے شمار معلومات جمع کر رکھی ہیں اور گفتگو میں اس کا زور بیاں پہلے سے موجود اور دریافت شدہ علم کے بیان پر ہی ہے۔ اور وہ جو بھی کہتا ہے کسی اور کا ہی نقل کر رہا ہوتا ہے تو یہ معلومات ہمالیہ جتنی ہی کیوں نہ ہوں بس معلومات ہی ہیں۔ اس سے وہ ہمارے روایتی گھسے پٹے معیار پر توصاحب علم کہلا سکتا ہے مگر حقیقی معنی میں اس کی حیثیت فقط ایک آرکائیو کی ہے۔ یعنی وہ گوگل کی طرح بس ایک سرچ انجن ہی ہے۔ اگر گوگل کا سرچ انجن عالم نہیں تو یہ حضرت بھی عالم نہیں ہیں۔ عالم وہی ہے جو علم کو کوئی نیا اضافہ دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اور یہ تب ہوتا ہے جب اس کا “سفر حیرت” اختتامی مراحل میں پہنچ جاتا ہے۔ عمر کے اس دور میں وہ حیران ہوتا نہیں بلکہ حیران کرتا ہے۔ اب یہ  کہا یا لکھا انسانی عقلوں کے لئے “نیا” ہوتا ہے سو اس سے متعارف ہونے والی عقل نے حیران تو ہونا ہے۔ میرے عزیز ! آگے کی عمر میں اپنے تحیر کا جائزہ لیتے رہیے۔ جتنا آپ زیادہ حیران ہوں اتنے ہی آپ کم علم ہیں، اور جتنا آپ کا سفر حیرت تھمتا جائے اتنا ہی یہ آپ کا علم مستحکم ہونے کی دلیل ہوگا۔ کبھی غور کیجئے گا آپ کو ہر حقیقی صاحب علم بہت خاموش طبع اور بہت پرسکون ملے گا۔ وجہ یہی ہے کہ اس کا دور حیرت تمام ہوچکا ہوتا ہے۔ اب وہ حیران ہوتا نہیں بلکہ حیران کرتا ہے۔

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply