بھگتیں گا پاکستانی ۔ ۔اظہر سید

یہ تو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن لے کر ملک سے بھاگ جائیں گے، بھگتے گا یہ بدنصیب ملک ۔ چالیس سال کی افغان جنگ اور ستتر سال کی مقبوضہ کشمیر کی جدو جہد آ زادی نے کچھ اور دیا ہو یا نہ، مذہبی انتہا پسندی کی آ گ ضرور لگائی ہے ۔جن لوگوں نے کارپوریٹ مقاصد کیلئے مذہب کو استعمال کرنے کی حکمت عملی وضع کی، تمام مر کھپ گئے ، لیکن اس ریاست کی بنیادیں کھوکھلی کر گئے ہیں ۔جو مذہب کو استعمال کرنے کی حکمت عملی پر ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں وہ اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ کھلا دھوکہ کر رہے ہیں ۔یہ لوگ ریٹائر ہو کر پنشن لے کر اپنے پچھلوں کی طرح منظر سے غائب ہو جائیں گے ،بھگتیں گے ہم اور آپ ۔

ریاستیں مذہب کے سیاسی استعمال سے مستحکم ہوتیں تو یورپ تاریک دور سے نکل کر دنیا کی قیادت نہ کرتا ۔انہوں نے پادری سے جان چھڑا لی اور ترقی کی دوڑ میں آ گے نکل گئے ۔ہمارے والے حب الوطنی کا جعلی پرچم لے کر تاحال اپنے عوام اور دنیا کو احمق سمجھ رہے ہیں ۔

یورپین یونین نے ابھی رعایتی ٹیکسٹائل کوٹے پر پابندی کی قرارداد منظور کی ہے اور برطانیہ نے ابھی مخصوص شعبوں کی ترسیلات پر پابندی لگائی ہے ۔ یہ نوشتہ دیوار ہے جو ہمارے والے جنہوں نے ریٹائر ہو کر غائب ہو جانا ہے، پڑھنے سے منکر ہیں ۔جن پابندیوں کا آ غا ز ہوا ہے ابتدائے عشق کی علامتیں ہیں آگے آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے ۔خرگوش کے دانت اور ناخن نکالنے کا آغاز ہے اور بند گلی میں دھکیلنے کی شروعات ہیں ۔

ہمارے والے کوتاہ نظر ہیں ۔ غیر آئینی اور غیر قانونی تنظمیں ملکی سلامتی کا بہانہ بنا کر بناتے تھے ۔ تحریک طالبان پاکستان ایک کلاسیکل مثال ہے ۔پہلے تنظیم بنائی پھر لال مسجد آپریشن کر دیا ۔ اگلوں نے بنی بنائی تنظیم میں نقب لگا لی ۔دس سال پاکستانیوں کو آگ اور خون میں نہلا دیا ۔نہ جی ایچ کیو محفوظ رہا نہ جدید ترین طیارے ۔کسی نے نہیں پوچھا کہ تحریک طالبان اگر بنائی تو لال مسجد آپریشن کیوں کیا ۔

نہ تحریک طالبان بناتے نہ ملک دشمن قوتیں لال مسجد آپریشن کے بعد اس تنظیم میں نقب لگا کر اسے خودکش حملوں کیلئے استعمال کرتیں ۔

ایک نے پیپلز پارٹی کو کونے میں دھکیلنے کیلئے ایم کیو ایم بنائی اور تین دھائیاں کراچی میں خون بہتا رہا ۔ملک دشمن قوتوں نے ایم کیو ایم میں نقب لگا لی اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا ۔کسی نے سبق حاصل نہیں کیا کہ غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر تنظیمیں بنانا صاف خسارہ ہے ۔

بھارتیوں کو لائین  آف کنٹرول پر باڑ لگانے کی اجازت دی اور الیاس کشمیری ایسے کردار پیدا کر لئے ۔

آج تحریک لبیک کے غبارے میں پھر سے ہوا بھری جا رہی ہے ۔مقصد آج بھی وہی ہے جو کل تھا ۔اقتدار پر گرفت اور سیاسی قوتوں کیلئے چیلنج برقرار رکھنا ۔

وقت بدل گیا ہے ۔ تباہ ہوتی معیشت نے منظر نامہ  تبدیل کر دیا ہے ۔مذہب کو جس مکاری اور خود غرضی سے استعمال کیا ،اب ادائیگی کا وقت ہے ۔ ظلم یہ ہے ادائیگی ان درجن بھر لوگوں نے نہیں کرنی  جنہوں نے میڈیا، عدلیہ اور مذہب کو اپنے اقتدار کیلئے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی بنائی،بلکہ  ادائیگی ہمارے بچوں نے کرنی ہے ۔ادائیگی ہم سب نے کرنی  ہے اور ادائیگیوں کا آغاز یورپین یونین کی قرارداد اور برطانیہ کی طرف سے ترسیلات پر پابندیوں سے ہو گیا ہے ۔

ہم سب بری طرح پھنس گئے ہیں ۔ڈالروں کے حصول کیلئے مذہب کو استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرتے ہیں تو ایک کروڑ مولوی  زندہ بھون کر کھا جائیں گے ۔ بندوق استعمال کریں گے تو جس طرح تحریک طالبان اور ایم کیو ایم میں نقب لگائی گئی پھر نقب لگائی جائے گی ۔وہ مذہب جسے سیاستدانوں کے خلاف ، افغانستان اور کشمیر میں کارپوریٹ مفادات کیلئے استعمال کرتے تھے دوسرے اسی مذہب کو ہمارے والوں کے خلاف استعمال کریں گے ۔

افغانستان والے تو افغان طالبان پر قابو پا لیں گے جس طرح سری لنکا والوں نے تامل باغیوں پر قابو پایا یا جس طرح بھارتی تحریک آزادی کشمیر کو کھا گئے ۔ہمارے والے پہلے کشمریوں کی مدد سے رجوع کر گئے اگلے مہینوں میں افغان طالبان کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہی دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے ۔

دنیا میں ہمیں اکیلا کر دیا ہے ۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹنے لگا ہے ۔غربت ،بھوک اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے اور قوت خرید تیزی کے ساتھ ختم ہو رہی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ اس ملک کی جان چھوڑ دی جائے اور مہذب دنیا کے اداروں کی طرح ہر ادارہ اپنے اصل کردار تک محدود ہو جائے یا پھر تیزی سے بڑھتے ہوئے المیہ کا انتظار کرنا ہی بہتر آپشن ہے ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply