انصاف سب کے لیے!

جب معاشرے میں سیاہ و سفید کے درمیانی shades اوجھل ہونا شروع ہو جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اپنی تباہی کی طرف قدم اٹھا چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اختلاف کو برداشت نہ کر سکنے کا رویہ تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ جن معاشروں میں مختلف گروہ ایک دوسرے کی بات سننا اور اسے برداشت کرنا چھوڑ دیں وہ بیمار معاشرے ہوا کرتے ہیں۔ ہم نے قانون ، اخلاق، امانت و صداقت کے دوہرے معیارات بنا رکھے ہیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ وہ اثر و رسوخ والوں کو سزا نہیں دیتے تھے اور ناتواں لوگوں پر قانون کو نافذ کرتے تھے۔ کیا بحیثیت قوم ہم پر یہ حدیث پاک صادق نہیں آتی ؟
پچھلے کچھ دنوں سے لبرل حلقے کے کچھ افراد غائب ہو چکے ہیں اور ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ ذرا دقت نظر سے دیکھا جائے تو یہ منفی رویے خود ہمارے ہی بیجے ہوئے تخم سے پھوٹے ہوئے کانٹے دار درخت ہیں۔ جب مذہبی شناخت رکھنے والا کوئی آدمی غائب کیا جائے تو آپ شادیانے بجائیں تو یہ ممکن نہیں کہ آپ کی گمشدگی پر جذباتی ذہن رکھنے والے مذہبی افرادصف ماتم ڈال لیں اور اگرکوئی مذہبی جنونی کسی کو بھی کافر یا گستاخ کہہ کر خود ہی سزا کا نفاذ کر دے اور آپ اس کو اپنا ہیرو بنا لیں تو یہ ممکن نہیں کہ کل آپ کا قاتل آپ کے مخالف گروہ سے تحسین حاصل نہ کرے۔ ہماری نظر میں جب تک ہم اپنے اختلافات سے بالا تر ہو کر قانون کی مطلق حکمرانی کی بات نہیں کریں گے ہم کسی بھی فکری گروہ سے ہوں محفوظ نہیں رہ سکتے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر بھٹو صاحب ایوب خاں کا ساتھ دیں تو برے ٹھہریں اور مذہبی طبقات ضیاءالحق کی آمریت میں وزارتوں کے مزے لوٹیں تو یہ اسلام کی خدمت کہلائے۔ اس بارے میں مذہبی شناخت رکھنے والے افراد کو خصوصی توجہ کرنی چاہیے کہ ہم جس رسول صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کی گواہی دیتے ہیں اور ان کو اپنا رہبر مانتے ہیں انھوں نےقانون کی بالادستی کے معاملے میں کیا مثال قائم کی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ اپنے اصحاب اور یہودیوں دونوں پر زنا کی حد کےنفاذ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تمام قانونی تقاضے یکساں پورے کیے ہیں ؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم یہ ثابت کریں کہ ہم اس رسول صلی الله علیہ وسلم کی امت ہیں کہ جس نے اپنے پرائے کو ایک ہی نظر سے دیکھا ہے ؟

ہم سلمان حیدر صاحب کی ماورائے قانون گمشدگی پر اتنے ہی غضب ناک اور پریشان ہیں جتنے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں؟ ملک کے قانون میں ہر جرم کی سزا اور اس کے ثبوت کا طریقه کار موجود ہےاور اس پر ہر حال میں عمل ہونا چاہئے۔قانون کا نفاذ اور جرم کا ثبوت فیس بک کی وال یا ٹی وی پروگرام میں نہیں ہو سکتا۔ کون گناہ گار ہے اور کون بے گناہ ہے، اس کا فیصلہ کرنے کا حق نہ جبران ناصر صاحب کو ہے اور نہ اور یا مقبول جان صاحب کو ، اس کا فیصلہ بہرحال عدالت کو ہی کرنا ہے۔ اگر کسی نے کوئی خلافِ قانون کام کیا ہے تو اس کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئے مگر ان تمام حقوق کاخیال رکھتے ہوئے جو قانون نے کسی بھی ملزم کو دیے ہیں۔ کیا رسول الله علیہ وسلم نے کسی بھی انسان کواپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیے بغیر سزا سنائی ہے ؟ اگر نہیں تو ہم کیسے اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے کسی انسان کو مرتد، گستاخ یا واجب القتل کہہ سکتے ہیں؟ اگر ہم مذہبی لوگ بھی ایسا منافقانہ طرز عمل اپنائیں گے تو ہم دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی الله ہاں مجرم ٹھہریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کسی کی جان ، مال یا عزت و آبرو اتنی بے وقعت نہیں کہ صرف الزام سے اس کی حرمت پامال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ معاشرے جذبات سے نہیں، قانون کی حکمرانی اور ہر سطح پر برداشت کے رویے کو عام کرنے سے آگے بڑھتے ہیں۔ اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم میثاق مدینہ کے تحت یہودیوں کے ساتھ اچھے طریقے سے رہ سکتے ہیں تو ہم اپنے ہم وطن بھائیوں کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے ہیں ؟ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ چائے بھی پئیں اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کی غلطی بھی واضح کریں۔ کیا آوازوں کا قتل، عقل و فہم کا خون ، اختلاف کرنے والوں کی زباں بندی سے ہم ایک مضبوط قوم بن جائیں گے؟ یہ دنیا ہے، یہ آدم و ابلیس، خیر و شر کے امتزاج سے بنی ہے، اس کو جنت بنانے کی کوشش میں اس کو جہنم نہ بنائیں !

Facebook Comments

حسنات محمود
سائنس و تاریخ شوق، مذہب و فلسفہ ضرورت-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply