عبد الرشید ساجد صاحب۔۔حسان عالمگیر عباسی

عبد الرشید ساجد صاحب کے احسانات کا بدلہ اس لیے ناممکنات میں سے ہے کیونکہ ایک شاگرد استاد کی محنتوں کے نتیجے میں اگر کچھ لے سکتا ہے تو وہ صرف ثمرات ہی ہیں۔ محسن دینے والا ہوتا ہے۔ جتانا اور بدلہ مانگنا محسن کے شایان شان ہی نہیں ہے۔ شاگرد احسانات چکانے کی حیثیت سے مالامال کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ وہی معاملہ ہے کہ حضور ص کے پاس ایک شخص آیا اور ماں پہ کیے احسانات بتاتے ہوئے اپنے حق کی ادائیگی کے ممکن ہونے کا سرٹیفیکیٹ بدست نبی ص ماتھے پہ سجانے کا متمنی ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ وہ ایک رات کے پہر کا بھی دیا گیا بدل کی صورت نہیں لٹا سکتا۔

یہی سمجھ آرہا ہے کہ خدا نے کچھ معاملات میں لو  اور دو سے آزاد کر کے صرف اخلاص کی دولت سے نواز دیا ہے جہاں حساب کتاب کی وقعت عدم ہے اور اخلاص کبھی اولاد کا ماں اور شاگرد کا استاد سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ البتہ ماں ہو یا استاد وہ اولاد اور شاگردوں کو ان نقوش کا پابند رہنے کی خواہش ضرور لیے ہوتے ہیں جو ان کی کاوشوں اور محنتوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اللّہ تعالیٰ ہمیں ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سیدھی سی بات کہوں تو یہ معلم کی تعریف پہ پورا اترتے ہیں جس کا احساس ہمیشہ سے رہا لیکن شدت نے آج اسے پکڑ  میں لے لیا ہے۔ صبح ورزش کے بعد کی گھنٹے کی کلاس، کلاس میں ان کا عربی پیریڈ، ظہر کے بعد خوشخطی کے اوقات، اسمبلی میں وعظ و نصیحت، دروس قرآن و حدیث، عملی طور پہ اپنی اخلاقیات سے آئینہ دکھانا، لین دین، معاملات، معاملہ فہمی، اقبالیات، خلوص اور بہت کچھ بہتر سے بہتر نتائج کے ساتھ رغبت کا داعی بن چکا ہے۔ اللّہ تعالیٰ ہمیں مرغوب بنا دے۔ اللّہ تعالیٰ ہمیں متاثرین میں شامل فر ما دے۔

عبد الرشید ساجد صاحب عرصہ دراز سے جامعہ دار الاسلام کو خدمات دے رہے ہیں اور یہی وہ جان ہے جس کی وجہ سے جامعہ میں جان ہے اور اس جان کے نیچے پیر ہیں۔ ان کی محنتوں کی برکت سے جامعہ کا نام ہے۔ بورڈز میں پوزیشنز ہیں اور فاضل تلامیذ و سابقین کے کامیابیوں کے نقشے پہ جھنڈے لہرا رہے ہیں۔

آپ ان لوگوں میں شمار رکھتے ہیں جو حق جان جانے اور پھر ڈٹ جانے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے یا دائیں بائیں کی آوازوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ سید مودودی رح اور اقبال رح سے جو سیکھا اسے ہی دین کی اصل تعبیر مان کے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ انتہائی پختہ ذہنیت کے مالک ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے بھی وہی ادارہ بااعتماد ٹھہرا، جس پہ ہمارے والدین کا بھی اعتماد تھا۔ ہمیں سزاؤں کے طور پہ ڈنڈے کم پڑتے جبکہ گراؤنڈ کی صفائیاں زیادہ کرنا ہوتی تھیں اور یہی ان کا کمال ہے کہ جیسے وہ خود ہیں ہمیں بھی بنانے کی کوشش کرتے رہے اور تربیت میں وہ رول ادا کیا جس کا ثانی تلاشنا مشکل ہے۔ محنتوں کا نتیجہ برآمد ہوا یا نہیں ان کا خلوص خدا کی کتاب میں جگمگاتے موتی کی طرح ان کی آخرت سنوارنے کی خوشخبری لیے ان کی ابدی خوشی کا باعث ہے، ان شاء اللہ۔

عبد الرشید ساجد صاحب ورزش سے لے کے نمازوں کی ادائیگیوں تک اور کمروں کی صفائیوں سے کھیلنے کودنے تک اور کھانے پینے سے پہننے سنورنے تک ‘آداب زندگی’ سکھلاتے رہے۔ مدرسین کی تیاری ہو یا قرآن کے پیغام کو پہنچانے کا فریضہ ایک مربی سے بڑھ کر تھے۔ مختصراً آپ نے انگلی پکڑ کر چلنے کا عادی بنانے کی کوشش کی۔ اللّہ تعالیٰ آپ اور آپ کے چاہنے والوں کی خیر ہو اور زندگی اتنی طویل ہو کہ تربیت کے امیدواروں کو ‘کاش کچھ سیکھ لیتے’ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ آپ کی خدمت میں کسی کا ایک شعر کہے جاتا ہوں:

Advertisements
julia rana solicitors london

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply