آپ کا کیا ہو گا جنابِ عالی۔۔ڈاکٹر عزیر سرویا

پچھلی عید کے بعد کرونا کی ایک شدید لہر آئی تھی، جس سے قبل مسلکی جنگیں ہوئی تھیں کہ فلاں جلوس نکالتے ہیں تو ہم بھی فلاں اجتماع کریں گے، مزید یہ کہ آئے دن وزیروں مشیروں کے ایس او پیز کی وائلیشن کرنے کی تصویریں ویڈیوز وائرل ہوتی تھیں اور کہا جاتا تھا کہ یہ کر رہے ہیں تو ہم بھی یہ سب کچھ کریں گے۔

اس لہر کے نتیجے میں ہسپتال بھر گئے تھے اور لوگ آکسیجن کو ترسنے تک پہنچ گئے تھے، لیکن چونکہ لاشیں گلیوں میں پڑی ہوئی نہیں ملتی تھیں اس لیے ہمارے عوام نے اچھا باونس بیک کیا (جیسے کہ اس خطے کے عوام کا شیوہ ہے، کہ پبلک انٹرسٹ سے متعلقہ اہم باتیں جلدی بھول جانا)۔

پھر ویکسین آئی تو تب تک بھی بیماری میں کوئی اتنی تیزی نہ آئی تھی کہ ہسپتال پُر ہوتے، کیونکہ وائرس کے جدید مہلک میوٹنٹ اسٹرین ابھی مارکیٹ میں لانچ نہیں ہوئے تھے، اس لیے ہمارے عوام نے ویکسینز پر بھی بڑی دلچسپ اور کری ایٹیو(Creative) قسم کی سازشی تھیوریاں گھڑیں، جس پر عقلمند خاموش رہے کیونکہ ان سازشی تھیوریوں کے بہانے محدود سی مقدار میں دستیاب ویکسین بس اسی کو لگنی تھی جو واقعی اپنی جان کو عزیز رکھتا تھا اور ویکسین لگوانا چاہتا تھا۔

اب موجودہ لہر اپنے نئے ویری اینٹ اسٹرینز لیے ہوئے آئی ہے، پڑوسی ملک کے حالات کی خبریں بھی چلنی شروع ہوئیں ہیں، اس وقت اپنے یہاں صورت حال یہ ہے کہ کرونا تقریباً “کہانی گھر گھر کی” بن چکا ہے، تو جہاں بہت سے لوگوں نے جوق در جوق ویکسین سینٹرز کا رُخ کیا ہے وہیں دلچسپ چیز یہ ہے کہ عمومی رویہ وہی احتیاطی تدابیر سے الرجی والا ہی ہے۔

حالات یہ ہیں کہ ایک طرف ہسپتالوں میں لوگ بستر کو ترس رہے ہیں، آکسیجن مشکل سے مل رہی ہے، ضروری دوائیں شارٹ ہیں اور بلیک ہو رہی ہیں، جبکہ دوسری طرف وزیروں مشیروں بیوروکریٹوں سے لے کر عوامی سطح تک ہر بندہ جسے موقع ملے وہ شادیاں جنازے دعوتیں وغیرہ بھی مسلسل پیلتا جا رہا ہے۔ یہ خوبصورت تضاد نہ جانے زندہ قوم کی نشانی ہے یا انتہائی بے حس اور بے وقوف قوم کی، اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے (لیکن فی الحال کروں گا نہیں)۔
حال ہی میں مجھے کرونا کو بہت قریب سے دیکھنا پڑا کیونکہ یہ گھر تک پہنچ گیا۔ اللہ کا شکر ہے ڈاکٹری کام آئی، ہمہ وقت مشورہ کرنے کو متعلقہ فیلڈ والے دوست یار، اپنا ذاتی کلینیکل ایکسپیریئنس، ہسپتال میں تعلقات، ٹیسٹوں دواؤں بارے سب معلومات، ہر ضرورت کی چیز ڈھونڈنے اور خریدنے کی استطاعت، گھر میں ٹیکے دوائیاں دے سکنے کے لیے مطلوبہ تربیت، یہ سب کچھ اور اس سے بڑھ کر اللہ ک رحمت نے مجھے اور میرے خاندان کو کسی بڑے نقصان سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ مگر محدود تخمینے کے حساب سے بھی لاکھ سوا لاکھ کے لگ بھگ خرچہ لازمی ہو گیا (اس پر ایک الگ پوسٹ لکھوں گا)۔

تو بات یہ بتانی ہے بھائی جان کہ مجھ پر اور میرے خاندان پر تو اللہ کا فضل ہے کہ پاکستان کے پچانوے فیصد عوام کے پاس یہ وسائل نہیں جو اللہ نے ہمیں عطا کیے ہیں۔ شروع میں جب کرونا آیا تھا تو میدان واقعی ہموار تھا، کیونکہ نہ علاج کے آپشن زیادہ تھے نہ ویکسین موجود تھی۔ لیکن اب دنیا کےباقی تمام معاملات کی طرح ادھر بھی بیلنس وسائل رکھنے والوں کے حق میں شفٹ ہو چکا ہے: ویکسین اور علاج سے لے کر سہولیات تک رسائی، ہر فیکٹر شرح اموات پر براہ راست اثر انداز ہو رہا ہے۔

پچانوے فیصد وہ عوام جن کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں، انہوں نے کسی عجیب منطق کے تحت اشرافیہ کے ایس او پیز وائلیشن کو بنیاد بنا کر، کسی ایک فرقے کے لوگوں نے دوسرے فرقے کے جلوسوں کو بنیاد بنا کر، یا کسی دیگر عقل سے بالاتر وجہ اپنے آپ کو سمجھا کر اپنی دسترس میں موجود احتیاطی تدابیر کو بھی بالکل ترک کیا ہوا ہے (میں کسی کاروبار یا روزی کمانے پر مجبور بندے کے نکلنے کی بات نہیں کر رہا، بلکہ دانستہ بغیر ماسک غیر ضروری طور پر باہر رش والی جگہوں پر نکل کے مزید رش کرنے والوں کی بات کر رہا ہوں)۔

جن کو یہ بنیاد بنا کر ایسا کر رہے ہیں ان کی تو ویکسین خریدنے کی بھی پسلی ہے، مہنگے انجیکشن بلیک میں لینے کی گنجائش بھی ہے، سلنڈر خریدنے کی بھی ہے، پرائیویٹ ہسپتال میں بستر لینے کی بھی ہے، سرکاری ہسپتال میں اثر و رسوخ سے وینٹیلیٹر لینے کی بھی ہے، اور بہترین خوراک تو وہ کھا ہی رہے ہوتے ہیں اور مزید بھی گھر بیٹھے کھانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ جبکہ یہ اکثریت جس متمول اقلیت کو دیکھ کر خود بے وقوفی پر اتری ہوئی ہے، اس بے وقوفی کے نتیجے میں جب گھر کے بزرگ یا پہلے سے بیمار لوگ (بلکہ اب تو جوان بھی) بیمار ہو کر ہسپتال داخل ہونے کی حد کو پہنچتے ہیں تو انہیں ایک دم ہوش آتی ہے۔ پھر بات شروع ہوتی ہے کہ ڈاکٹر بیڈ نہیں دے رہے منافع خور دوا اور آکسیجن مہنگی دے رہے ہیں، حکومت کچھ نہیں کر رہی، مخیر حضرات کچھ مدد کریں وغیرہ وغیرہ۔

میں ہمیشہ سے سمجھتا تھا کہ غربت میں انسان کا سروائیول انسٹینکٹ معمول سے طاقتور ہو جاتا ہے، لیکن عمومی رویے سے اب مجھے لگ رہا ہے کہ معاشرے میں تناؤ یا دیگر وجوہ کی بنیاد پر باقاعدہ اجتماعی خود کشی کی کوئی امنگ پائی جاتی ہے جس کا یہ اظہار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساری بات کا خلاصہ سمجھنے کے لیے امیتابھ بچن کی مشہور فلم لاوارث کے ایک گیت کے شروع کے بول پڑھنا کافی رہے گا (تصور کریں کہ کھاتی پیتی پانچ فیصد آبادی یہ گانا پچانوے فیصد باقی کی کنگال آبادی کو سنا رہی ہے):
“اپنی تو جیسے تیسے۔۔۔
تھوڑی ایسے یا ویسے۔۔۔
کٹ جائے گی۔۔۔
آپ کا کیا ہو گا جناب عالی، آپ کا کیا ہو گا!”
اللہ ہمارے ملک پر رحم کرے جو تیزی سے ہندوستان جیسے حالات کی طرف جاتا نظر آ رہا ہے۔ دعا ہے کہ حالات وہاں تک جانے سے قبل سنبھل جائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply