نوری آبشار۔۔مرزا مدثر نواز

ہارون الرشید سیاحت کا دلدادہ ہے، وہ اور اس کے ہم خیال ساتھی اکثر و بیشتر کسی بھی خوبصورت سیاحتی مقام کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔ ہم نے انہیں آوارہ گرد کا خطاب دیا ہوا ہے۔ شمالی علاقہ جات، وادی کمراٹ، وادی نیلم اور قرب و جوار کا شاید ہی کوئی ایسا سیاحتی و خوبصورت مقام ہوجو ان کے قدموں تلے نہ آیا ہو، اور یہ اب بلوچستان کے خوبصورت مقامات تک رسائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم لوگوں کا جب کبھی گھومنے پھرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو بہترین مقام کا انتخاب کرنے کے لیے ہارون سے رہنمائی لیتے ہیں، اس دفعہ جب ہم نے اس سے قریبی سیاحتی مقام کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اس دفعہ آپ کو نوری آبشار کا درشن کراتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب آپ کی طبیعت میں بوجھل پن اور بے چینی ہو، کوئی چیز بھی اچھی نہ لگ رہی ہوتو بیگ اٹھائیں اور گھومنے چلے جائیں، آپ کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جائے گی۔ نوے کی دہائی میں تیسری جماعت کی اردو کی کتاب میں ایک کہانی ہوا کرتی تھی جس کا نام تھا ”اسلم کا گاؤں“ جس میں خوبصورت مناظر کی تصویر کشی کی گئی تھی، ٹیوب ویل کا بہتا پانی اور اس میں ڈبکیاں لگاتی بطخیں، آزادانہ ماحول میں گھومتی پھرتی مرغیاں، بھینس، گائے، بکریوں کا ڈیری فارم، تازہ سبزیوں اور دوسرے سبزے  کے لہلہاتے کھیت، پھولوں اور پھلوں کے خوشنما درخت وغیرہ وغیرہ۔ شاید ذہن میں آج تک انہی تصوراتی نقوش کی وجہ سے ایسے قدرتی مناظر دیکھنے کی تمنا ہمیشہ سے دل میں موجود ہے۔

موسم کی پیشین گوئی کو نظر انداز کرتے ہوئے رمضان سے ایک ہفتہ پہلے ہم نے نوری آبشار کے لیے رخت سفر باندھا، تیاری میں ہم نے کافی دیر کر دی اور دن کا کافی حصہ ضائع کر دیا جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آسمان پر بادلوں کی آوارہ گردی نے موسم کو کافی خوشگوار بنا دیا تھا۔راستہ میں ہم نے اپنی زندگی کی ایک سادہ بارات بھی دیکھی جو بغیر کسی لمبے چوڑے الاؤ لشکر اور بینڈ باجے کے چند مرد و زن پر مشتمل اپنی منزل کی طرف پیدل رواں دواں تھی جس میں دولہا کی رفتار سب سے زیادہ تھی، شاید اسے کوئی زیادہ ہی جلدی تھی۔ نوری آبشار اسلام آباد سے ساٹھ کلو میٹر دور اور اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ آپ کو پیر سوہاوہ تا ہری پور روڈ پر جبری گاؤں تک پہنچنا ہوتا ہے، یہ روڈ بذات خود حسین نظاروں کا مجموعہ ہے، کچھ عرصہ پہلے یہ روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی لیکن اب ایک خوبصورت کارپٹڈ روڈ ہے۔ جبری پہنچ کر آپ کو ٹھوڑا سا آگے جا کر بائیں کی طرف مین روڈ سے نیچے مڑنا ہوتا ہے۔ یہ تنگ اور کچے پکے رستہ پر مشتمل ہے جس کے دونوں طرف ہریالی ہی ہریالی ہے۔ مین روڈ سے پارکنگ تک پہنچنے کے لیے آپ کو تقریباََ پانچ کلو میٹر کا سفر طے کرنا ہوتا ہے جس میں چشموں کا صاف شفاف پانی اور اس پانی میں نہاتی بطخیں، گاؤں میں پتھروں کی دیواروں کے بیچ میں کچہ پکہ رستہ اور وادی کے خوبصورت نظاریں آئیں گے۔ پارکنگ تک پہنچنے سے پہلے ہی ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔ پارکنگ میں چہرے پر مسکراہٹ سجائے انکل جی نے ہمارا استقبال کیا اور کہا کہ کسی بھی قسم کی کوئی چیز چاہیے تو بلا جھجک انہیں بتائیں، پارکنگ کے ساتھ ساتھ وہ آبشار کے مقام پر نہانے کے لیے لائف جیکٹس بھی کرائے پر دیتے ہیں۔

پارکنگ سے آبشار تک پہنچنے کے لیے کم و بیش بیس منٹ پیدل پگڈنڈی پر چلنا پڑتا ہے، کھانا پکانے کا سامان اٹھا کر ہم پگڈنڈی پر چل پڑے جس کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑ اور دوسری طرف ایک چھوٹے سے دریا کی مانند بہتے ہوئے صاف و شفاف پانی کا ایک بڑانالہ ہے جو خان پور ڈیم کا منبع ہے۔ اسی دوران بارش آہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی اور ہم بھیگتے ہوئے آبشار تک پہنچے۔ نوری آبشار کو قریب سے دیکھ کر اس بات کو حقیقت ماننا پڑا کہ یہ واقعی ایک خوبصورت مقام ہے لیکن تمام احباب آبشار کو انتہائی قریب سے دیکھنے اور اس کے ذخیرہ میں نہانے سے محروم رہے جس کی وجہ تیز بارش اور اس کے نتیجہ میں اپریل کے مہینہ میں پیدا ہونے والی سردی تھی۔ آبشار کے مقام پر چند مقامی لوگ چائے اور پکوڑے بنا رہے تھے جو انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آئے اور کھانا پکانے کے لیے کسی بھی قسم کا ضروری سامان بلا معاوضہ دینے کی پیش کش کی۔ تیز بارش اور پہاڑوں کے درمیان بادلوں کی گرج نے تمام لوگوں کو بچپن میں پڑی ہوئی کہانی ”غار کا پتھر“ یاد دلا دی جو حضرت موسیٰؑ کے دور میں ایک سخت موسم میں پہاڑوں کے درمیان پیدل سفر کرتے تین ساتھیوں کی روداد ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مقامی لوگوں کے مطابق نوری آبشار کم و بیش اڑھائی سے تین سال قبل دریافت ہوئی ہے جس کو سوشل میڈیا نے شہرت بخشی ہے، ان کے مطابق محکمہ سیاحت نے وہاں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے فنڈ مختص کیا ہے اور بہت جلد کا م شروع ہو جائے گا جس کی بدولت مستقبل میں یہ ایک بھر پور اور رش والا وزٹنگ مقام ہو گا۔ اگر آپ قدرتی مناظر دیکھنے کے شوقین ہیں اور کچھ نیا دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلی فرصت میں نوری آبشار کا رخ کیجئے اور یقیناََ اس مقام کو دیکھ کر آپ مایوس نہیں ہوں گے۔ یاد رہے کہ واپسی پر جبری اڈا پر گڑ سے بنی چائے پینا نہ بھولیے گا۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply