وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں۔۔عمران حیدر تھہیم

آج کے جدید دور میں کسی بھی شاہکار عمارت کی تعمیر اُسوقت تک  مکمل  نہیں ہوتی جب تک اُس کے اندر کوئی انخلائی حکمتِ عملی evacuation strategy موجود نہ ہو۔ آگ لگنے جیسی ہنگامی صُورتحال اور قدرتی آفات کو مدّ ِ نظر رکھ کر اُس عمارت کے انجینئرز عمارت کے اندر ایمرجنسی اخراج emergency exit لازمی طور پر وضع کرتے ہیں۔ ہنگامی صُورتحال سے نمٹنے کےلیے بعض اوقات اُس عمارت کے مکینوں کو عمارت کے اندر ہی کُمک یا امداد پہنچائی جاتی ہے اور اگر حالات زیادہ بِگڑ جائیں تو پھر اُن مکینوں کو اُس آفت یا عذاب سے نکالنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ دُنیا بھر میں یہی سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر S.O.P مروّج ہے۔ دیگر تمام مسائل کیساتھ ساتھ ہماری سیاحت کی صنعت کو بھی ایک عذاب سے نکالنے کےلیے عملی اقدامات کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
پاکستان سمیت دُنیا بھر میں عالمی وباء COVID-19 کے نتیجے میں سیاحت کی صنعتیں گُزشتہ ایک سال سے اِنتہائی مُشکلات سے گُزر رہی ہیں۔ پاکستان اُن چند ممالک میں شُمار کیا جاتا ہے جہاں فطرتی حُسن اپنی اصل آب و تاب یعنی wilderness سمیت قائم ہے جبکہ دُنیا بھر کے دیگر سیاحتی علاقوں اور مقامات پر کاروباری اور کارپوریٹ سیکٹر کی چھیڑ خوانی کے باعث قُدرتی اور فطری حُسن دراصل مصنوعی پَن یا انفراسٹرکچرل جدیدیت کی نظر ہورہا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا فطری حُسن دُنیا بھر کے فطرت پسند سیّاحوں اور مُہم جوؤں کو اپنی طرف مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2019 میں پاکستان کو دُنیا بھر کے سیاحتی جرائد اور اداروں کی غیرجانبدار ریٹنگز میں ٹاپ 10 ممالک میں شُمار کیا گیا لیکن پھر اچانک کورونا وائرس نمُودار ہوا اور آناً فاناً نظامِ دُنیا درہم و برہم ہوگیا۔

سال 2020 سیاحت کےلیے نہایت بُرا سال ثابت ہُوا۔ پاکستان کی سیاحت اور کوہ پیمائی کی صنعت تو پہلے ہی نان پروفیشنل ازم کے باعث غیر منظّم کمرشل ازم کا شکار تھی، رہی سہی کسر کورونا وائرس نے نکال دی۔ پاکستان کے شُمالی علاقہ جات میں سیاحت و کوہ پیمائی سے وابستہ افراد شدید ترین مالی بحران کا شکار ہو گئے۔ گویا ایک آفت زدہ عمارت کے اندر محصور اُن خوفزدہ مکینوں جیسا حال تھا جنہیں کم از کم عمارت کے اندر ہی امداد اور کُمک پہنچائی جانا ناگُزیر ہوچُکا تھا۔ لیکن مجال ہے کہ اِس بابت قومی سطح پر کچھ بھی سوچا گیا ہو۔
گو کہ حکومتی سطح پر احساس اور کفالت جیسے انکم سپورٹ پروگرام شروع تو کیے گئے لیکن گلگت۔بلتستان سمیت تمام شُمالی علاقہ جات کے مزدور (پورٹرز) اور چھوٹے ٹُور آپریٹرز کےلیے حکومت کے پاس کوئی میکانزم موجود نہ تھا۔

پاکستان کے سوشل میڈیا پر آپریٹ کرنے والے ٹور آپریٹرز، گروپس اور مُہم جویانہ سرگرمیوں میں حصّہ لینے والے افراد پر مُشتمل چھوٹی سی کمیونٹی کے کچھ حصّے نے تھوڑی بہت empathy دکھائی اور کچھ حد تک انفرادی یا اجتماعی طور پر گلگت۔بلتستان کے پورٹرز کےلیے مالی معاونت کا کچھ بندوبست کیا گیا لیکن وہ بھی “اُونٹ کے مُنہ میں زیرہ” کے مترادف تھا اور بہت زیادہ منظّم نہیں تھا۔
جو لوگ باقاعدہ شمالی علاقہ جات کا سفر کرتے رہتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے شمالی علاقہ جات کے بالعموم اور گلگت۔بلتستان میں بالخصوص ایسے لوگ آباد ہیں جو صدیوں سے مہمان نوازی، قناعت اور خُودداری کے پیکر ہیں، گو کہ جدید دور میں وہاں بھی جھوٹ، مُنافقت، چوربازاری اور مفاد پرستی نے پنجے گاڑ دیے ہیں لیکن پھر بھی کافی حد تک وہاں کی اکثریت فطری طور پر بھیک پر مبنی مدد کی بجائے روزگار کے اسباب پیدا کرنے جیسے عمل پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے میدانی علاقوں کی اکثریت بھیک پر مبنی امداد کی زیادہ دلدادہ ہے اور اپنے نمائندوں اور حُکمرانوں کو اسباب پیدا کرنے کی ترغیب دینے کی جرآت نہیں رکھتی جبھی تو ہمارے نظام کے اندر دُوررس نتائج دینے والی تبدیلی نہیں آسکی کہ ہم اپنے انتہائی ذاتی، عارضی اور عامیانہ مفادات کو اجتماعی اور قومی مفادات پر زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

گُزشتہ سال نومبر 2020 میں منعقد ہونے والے گلگت۔بلتستان کے انتخابات میں مُجھے پنجاب پولیس کی جانب سے الیکشن ڈیوٹی سرانجام دینے کا موقع ملا تو مُجھے گلگت۔بلتستان کے خطّے کی ڈیموگرافی کو قریب سے دیکھنے، جاننے اور سمجھنے   کا موقع ملا۔ اِس بابت میرے خیالات کُچھ مِلے جُلے ہیں۔ کیونکہ بعض معاملات میں تو واقعی اِس خطّے کے لوگ ہم پنجابیوں سے بہت بہتر ہیں لیکن سیاسی، مذہبی اور معاشرتی طور پر یہ لوگ بھی بہت پولارائزڈ ہو چُکے ہیں۔ ہاں البتہ گلگت۔بلتستان کی نوجوان نسل میں سیاسی شعور یعنی political wisdom ہم پنجابیوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں میدانی علاقوں کی نوجوان نسل تو نشے، بے راہ روی اور غیر اخلاقی و غیر صحتمندانہ سرگرمیوں میں بہت زیادہ حد تک مُبتلا ہو چُکی ہے لیکن گلگت۔بلتستان ان سے کافی حد تک بچا ہوا ہے۔ اور یہاں معاشرتی اقدار کافی حد تک پائیدار ہیں۔

قبل ااس کے کہ بات اصل موضوع سے ہٹ جائے مَیں دوبارہ اُسی موضوع کی طرف آتا ہوں کہ گلگت۔بلتستان کی اکانومی جس صنعت پر انحصار کرتی ہے اُس بابت نہ تو مقامی حکومت نے اور نہ ہی مرکز نے کوئی ہنگامی انخلائی پروگرام emergency evacuation plan ترتیب دیا تاکہ وہاں کے سیاحت پیشہ افراد کو سب سے پہلے عمارت کے اندر ہی امداد اور کُمک پہنچا کر بحال کیا جائے۔ اور اُسکے بعد اُن کےلیے روزگار کے اسباب پیدا کیے جائیں۔ سب نے “ڈنگ ٹپاؤ” پروگرام کے تحت مُعجزے کا انتظار کیا کہ عالمی وباء ختم ہو جائے گی اور یہاں سیاحت کے شعبے میں دُودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ قرآنِ پاک میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ اُس قوم کی حالت ہرگز نہیں بدلتا جسے خُود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اُمّتِ مُحمّدی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ہونے کے ناطے اِس غلط فہمی میں مُبتلا ہیں کہ اقوامِ عالم ہمارے نکمّے پن کے باوجود ہماری تابعداری کرے گی۔ ہم فرعون جیسی زندگی، موسیٰ جیسی عاقبت اور بنی اسرائیل جیسا من و سلویٰ پر مبنی رزق چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اب ہماری مدد کےلیے اُسوقت تک آسمان سے فرشتے نہیں اُتر سکتے جب تک کہ ہم خود ایک دوسرے کےلیے اسباب پیدا کرنے کا باعث نہیں بن جاتے۔ بقولِ اقبال
تھے تو آباء وہ تُمہارے ہی مگر تُم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دَھرے مُنتظرِ فردا ہو

ہم نے آفت اور مصیبت کی گھڑی میں سیاحت کی اِس تباہ حال عمارت کے اندر پھنسے ہُوئے مکینوں کےلیے کُمک اور امداد فراہم کرنے کا اہم عرصہ ٹال مٹول میں گُزار دیا ہے اور اب نئے سال 2021 کے اندر سیاحت و کوہ پیمائی کے نئے سیزن کی ابتدا سے قبل ہی کورونا وائرس نے دوبارہ ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تو اب بھی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بے یارومددگار بیٹھے ہوئے ہیں۔
مُجھے رہ رہ کر گلگت۔بلتستان کے مفلُوک الحال پورٹرز کا خیال آ رہا ہے کہ مُسلسل دوسرے سیزن میں بھی اگر سیاحتی سرگرمیاں بحال نہ ہوسکیں تو ہمارے ان غیّور اور خُوددار بھائیوں بہنوں کے گھروں کا چولہا کیسے چلے گا۔ کون ان کے سر پر دستِ شفقت رکھے گا۔چنانچہ مَیں اِس ضمن میں گلگت۔بلتستان کے سیاحت کے وزیر جناب راجہ ناصر سے چند گُزارش کرتا ہوں کہ وہ گلگت۔بلتستان کے شُعبہ سیاحت سے وابستہ افراد کےلیے ایک خصوصی امدادی پیکج ہنگامی بُنیادوں پر سامنے لیکر آئیں۔ تاکہ عالمی وباء کے تباہ کاریوں سے وہ اُن افراد کو بچا سکیں جن کے وہ براہِ راست مُنتخب نمائندے ہیں۔ چنانچہ میری ناقص رائے میں ذیل اقدامات کیے جاسکتے ہیں جن کے ذریعے اچھے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔

1۔ گلگت۔ بلتستان کے ہر ضلع کی سطح پر ایک ضلعی ورکنگ کمیٹی فوری طور پر تشکیل دی جائے جس کی سربراہی اُس ضلع کے نامور کوہ پیما، ٹور آپریٹر، ٹیکنو کریٹ یا کوئی سماجی شخصیّت کرے جو ایک ہفتے کے اندر اندر کوہ پیمائی اور سیاحت سے وابستہ تمام گائیڈز، پورٹرز اور ٹُور آپریٹرز کی ڈاکیومنٹیشن کرے۔ اور تمام ایسے افراد کا ڈیٹا جمع کرے جن کے روزگار کا دارومدار خالصتاً سیاحت و کوہ پیمائی کی صنعت پر ہے۔
2۔ تمام ضلعی کمیٹیوں کی رپورٹس کی روشنی میں  وزارتِ سیاحت کے دفتر میں ایک حتمی فہرست مُرتّب کر کے اُسکی چھان بین اپنی پولیس کی سپیشل برانچ سے کروائی جائے تاکہ اصل حقداران کا پتہ چل سکے۔
3۔اس ساری پریکٹیس سے وزاتِ سیاحت کے پاس ایک بُنیادی ڈیٹا جمع ہو جائے گا جس میں الگ الگ کیٹیگریز ہونگی۔ مثلاً گائیڈز، ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز، لو آلٹیٹیوڈ پورٹرز، لاجسٹکس فراہم کرنے والے چھوٹے درجے کے ٹُور آپریٹرز، ذرائع آمدورفت یعنی فور بائے فور جیپ اور دیگر ٹرانسپورٹ رکھنے والے افراد وغیرہ وغیرہ۔
4۔ حاصل شُدہ ڈیٹا کو فہرست کی شکل میں وہاں کے مقامی میڈیا کے ذریعے مُشتہر کیا جائے تاکہ عوامی رائے بھی معلوم ہو تاکہ وزارتِ سیاحت کو اس شعبے سے وابستہ افراد کے متعلق اصل اور قابلِ اعتبار ڈیٹا بینک حاصل ہو جائے۔
5۔ ہر گائیڈ، پورٹر یا ٹُور آپریٹر کو ایک خاندان کا کفیل تصوّر کرتے ہوئے اُسکی ماہانہ اخراجات کی تفصیل کا سروے مکمل کیا جائے اور اپنے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے تخمینہ لگایا جائے کہ اوسطاً اتنے افراد پر مُشتمل گھرانے کے کھانے پینے اور رہائش کے ماہانہ اخراجات کتنے ہو سکتے ہیں۔
6۔تمام متعلقہ اور مستحق افراد کی مالی امداد کےلیے درکار کُل رقم کا تخمینہ لگایا جائے اور جتنی رقم درکار ہے اُس میں سے حکومت کے پاس موجود فنڈ کی شرح یعنی کتنے فیصد دستیاب ہو سکتے ہیں، اس کا تعین کیا جائے اور باقی مالی امداد کےلیے مُلک بھر کے مُخیّر حضرات سے اپیل کی جائے۔
اِس ضمن میں فنڈ ریزنگ کی بین الاقوامی ویب سائیٹ   کی مدد بھی لی جاسکتی ہے اور Pakstan Tourism Relief Fund کے نام سے ایک اکاؤنٹ بنا کر مُشتہر کردیا جائے تو قومی سطح پر کافی مالی امداد جمع ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سمندر پار پاکستانیوں سے بھی اچھی خاصی مالی امداد مل سکتی ہے۔
7۔مُندرجہ بالا تمام مراحل جون کے آغاز سے قبل مُکمّل کر کے ہر پورٹر کےلیے اُسکے زیرِ کفالت افراد کی تعداد کے مطابق مختلف مالی امداد فراہم کر دی جائے۔
8۔مالی امداد کم از کم 3 سے 6 ماہ کےلیے ہو لیکن ادا ماہانہ قسط کی شکل میں بذریعہ چیک کی جائے۔

مندرجہ بالا چند گُزارشات کے علاوہ مَیں اپنے میدانی علاقے کے اُن صاحبِ حیثیت پاکستانیوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ آپ ماشاء اللہ ہر سال شمالی علاقہ جات کا رُخ کرتے ہیں اور اپنے بیوی بچّوں کے ساتھ فراغت کے حسین لمحات گُزارتے ہیں۔ اپنے ٹُوور پلان کو عملی جامہ پہنچانے کےلیے آپ نے یقیناً ایک مخصوص بجٹ مختص کیا ہوتا ہے جو کہ آپ وہاں تقریباً پُورا یا تخمینے سے کُچھ زیادہ ہی خرچ کرکے واپس آتے ہیں۔

اِس بار کورونا وائرس اور لاک ڈان کے باعث حکومت نے سیاحت پر پابندی عائد کر رکھی ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اپنے اُس مخصوص بجٹ کا جو آپ نے سیروسیاحت کےلیے مختص اور پس انداز کرکے رکھا ہوا ہے اُس کا صرف 20 فیصد حصّہ خرچ کریں اور گلگت۔بلتستان کے سیاحت سے وابستہ افراد  کی مدد کریں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے تمام کوہ پیما جنہوں نے اس سال اپنی کوہ پیمائی کےلیے پرائیویٹ لوگوں یا اداروں سے فنڈنگ حاصل کی ہے اُن کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کارِ خیر میں حصّہ ڈالیں۔ اگر اُنہیں کوہ پیمائی کا اجازت نامہ مِل جائے تو اپنی ایکسپیڈیشن کے دوران پورٹرز کو 20 فیصد ویجز زیادہ ادا کریں اور اگر اجازت نہ ملے تو صرف 20 فیصد بطور امداد فنڈ میں جمع کروا دیں۔
مُجھے اُمید ہے کہ میری اِن گُزارشات پر تمام این۔جی۔اوز بھی غور کریں گی اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں گی۔
لیکن راجہ ناصر صاحب اصل کام آپ کا ہے۔ اُمید ہے آپ ابتدا کریں گے اور آپکی سرپرستی میں ہم ایک قدم کے بدلے میں چار قدم بڑھائیں گے اور یُوں ہم گلگت۔بلتستان کی سیاحت پر آنے والی اس مصیبت سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے (ان شاء اللہ)
مَیں اپنی تحریر کا اختتام اُردو کے نامور شاعر شکیب جلالی مرحوم کے ان معنی خیز اشعار پر کرتے ہوئے اِس اُمید کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ میری ان گُزارشات کو انسانیت کے ناطے ہر سطح پر سنجیدہ لیا جائے گا
کیا ہَوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی
کیوں مُجھے ڈھال بنانے کو یہ چَھتنار گِرے
مُجھے گِرنا ہے تو مَیں اپنے ہی قدموں میں گِروں
جس طرح سایہء دیوار پہ دیوار گِرے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply