حاکم کا ہے یہ حکم ۔۔محمد اسد شاہ

بھارت کے حوالے سے ہمارے ہاں نفرت کے جذبات بلاوجہ نہیں ۔ کشمیر کے مجبور شہریوں پر گزشتہ 73 سالوں میں جتنے مظالم ڈھائے گئے ہیں ،اور اب بھی وہاں جس قسم کے حالات ہیں ، ہمارے عوام کے لیے وہ نہایت تکلیف دہ ہیں ۔ ان مسلسل ، اور نسل در نسل مظالم کے ذمہ داروں کا تعین بیک وقت مشکل بھی ہے اور آسان بھی ۔ لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہے ۔ اسی پس منظر میں بھارت میں کرونا کی تباہ کاریوں پر ہمارے ہاں بعض لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو یہ رویہ پسندیدہ نہیں ہے ۔ کشمیر پر ہمارا مقدمہ برحق ہے تو ہم بھارتی عوام کی تکالیف پر بھی رنجیدہ ہیں ۔ ہمارا دین ہمیں انسانوں سے محبت کا حکم دیتا ہے ۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھارت میں کرونا کی وجہ سے ہونے والی اموات اور بدحالی کی وڈیوز دیکھ کر دل اداس ہوتا ہے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللّٰہ کریم پوری دنیا کو کرونا سے نجات عطا فرمائے ۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے اسی وجہ سے بھارتی عوام کی خدمت کے لیے پچاس ایمبولینسز بمعہ عملہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے ۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے بھی بھارت کو امداد کی پیش کش کی ہے ۔ پاکستانی عوام کی اکثریت بھارتی عوام کے دکھ پر دکھی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ لوگ اپنی نمازوں اور تراویح کے بعد جب کرونا سے نجات کے لیے دعائیں کرتے ہیں تو بھارت کے غریب عوام کے لیے بھی دعا کرتے ہیں ۔ اس حقیقت کا اعتراف خود بھارتی میڈیا بھی کر رہا ہے اور وہاں کی بہت سی معروف شخصیات بھی پاکستانی عوام کے جذبے کی تحسین کر رہی ہیں ۔

پاکستان میں بھی حالات کوئی بہت خوش گوار نہیں ۔ گزشتہ سال کرونا کی پہلی لہر کے عروج پر ایران سے پلٹنے والے “زائرین” کو بغیر کسی طبی معائنے کے واپسی کا اذن عام عطا فرمایا گیا ۔ اسی طرح 21 رمضان کے جلوسوں اور عید کے اجتماعات میں بھی کسی قسم کے ایس او پیز نظر نہیں آئے ۔ اس کے بعد لاک ڈاؤن سخت کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں ۔ امسال بھی شاید ایسا ہی ہونے والا ہے ۔ صرف تعلیمی اداروں پر سختیاں ہیں ۔ بچوں کی تعلیم ، تربیت اور مستقبل کو برباد کیا جا رہا ہے ، لیکن بازاروں اور اجتماعات پر ویسی سختی نہیں ہے ۔ خود حکمران تحریک انصاف کے اجتماعات کرونا کے عروج میں بھی جاری رہے ، جماعت اسلامی کو بھی جلسوں کی اجازت رہی ، البتہ اپوزیشن کے جلسوں پر سختیاں اور کارکنوں کی گرفتاریاں ضرور ہوئیں ۔ گزشتہ سال جن طلبہ کو امتحان لیے بغیر کامیاب قرار دیا گیا ، وہ بہت خوش ہوئے ، کیوں کہ انھیں مستقبل کے خطرات کا احساس نہیں ہے ۔ اسی طرح اب بھی کہا جا رہا ہے کہ نویں اور گیارہویں جماعتوں کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر ہی کامیاب قرار دیا جائے ۔ اگلے سال اگر دسویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات منعقد ہوئے تو ان کے حاصل کردہ نمبرز کو دو گنا لکھ کر میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی اسناد جاری کر دی جائیں ۔ اس تجویز سے بہت سے طلبہ خوش ہو رہے ہیں ۔ کیوں کہ ابھی وہ سرمایہ داری نظام کے زہریلے پن کو نہیں سمجھتے ۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ آج سے چند سالوں بعد جب یہی طلبہ اپنی تعلیم مکمل کر کے اسناد کا ڈھیر اٹھائے ملازمتوں کی تلاش میں ہوں گے تو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلنے اور پلنے والوں کا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہو گا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بڑے بڑے ہسپتالوں ، انجینئرنگ کمپنیز ، سافٹ ویئر ہاوسز ، یونیورسٹیز ، کالجز اور کارخانوں کے اشتہارات میں لکھا ہو؛ “2020 اور 2021 میں کامیاب قرار دیئے گئے امیدواران درخواست دینے کے اہل نہیں ۔” اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو کون ان مظلوم طلبہ کی دادرسی کرے گا اور کیسے ؟

ہماری موجودہ حکومت کو اس کی اتنی فکر بھی نہیں ہے ۔ خاں صاحب شروع میں بتاتے رہے کہ کرونا سے گھبرانا نہیں ، کیوں کہ یہ ایک معمولی نزلہ زکام ہے جس سے چند دن کی احتیاط کر کے نجات مل جاتی ہے ۔ پھر اچانک ایک اور تقریر میں خاں صاحب کرونا کی سختیوں پر لیکچر دیتے پائے گئے ۔ غیر جانب دار تجزیہ کاروں کا اس امر پر تقریباً اجماع ہے کہ خاں صاحب ذاتی طور پر انتہائی کنفیوزڈ قسم کی شخصیت ہیں ۔ آپ غور کیجیے ، ماضی میں جس جس شخص ، جس جس ادارے اور جس جس پراجیکٹ کو خاں صاحب گالیاں دیا کرتے تھے ، ان سب اشخاص ، اداروں اور پراجیکٹس کے اب وہ ساتھی اور سرپرست بنے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح ماضی میں جس جس کی تعریف کرتے تھے ، اب اس اس کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہر معاملے میں خاں صاحب ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں ، فیصلہ نہیں کر پاتے ، یا کوئی ایسا فیصلہ کرتے ہیں جس کا دفاع کرنے کے لیے ان کے کارکنوں کو اپنے دلائل سے “یو ٹرن” لینا پڑتا ہے ۔ ماضی میں مہنگائی پر وزیراعظم کو گالیاں دینے والے ورکرز اب کمر توڑ ، ریکارڈ توڑ ، اور گردن مروڑ مہنگائی کے فضائل اور فوائد بتانے پر مجبور ہیں ۔ اور اگر کوئی جواز نہ ملے تو خاں صاحب کی تعلیمات کے عین مطابق سابقہ حکومت کو گالیاں دینے پراتر آتے ہیں ۔ ویسے ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ جب سے وزیراعظم بنے ہیں ، خاں صاحب اتنی توجہ ملک پر نہیں دیتے ، جتنی مسلم لیگ (نواز) اور شریف فیملی پر ۔ ان کے دن رات ، صبحیں اور شامیں ، تقریریں اور لیکچرز شریف فیملی کے ذکر کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ کیوں کہ انھیں لایا ہی اسی مقصد کے لیے گیا ہے ۔ کرکٹ اور تقریروں کے علاوہ انھیں کون سا کام آتا ہے ، عوام نہیں جانتے ۔ ان کے چاہنے والے بھی ان کو ہینڈسم بتا کر بات ختم کر دیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب خاں صاحب کے ارسطو اسد عمر نے اپنے ہی سرپرستوں کو بالواسطہ دھمکی دی ہے کہ اگر خاں صاحب کو “کام” نہ کرنے دیا گیا تو وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خاں صاحب کون سا کام کر رہے ہیں ، سوائے تقریروں اور نواز شریف کے پراجیکٹس پر اپنے نام کی تختیاں لگانے کے ۔ باقی سارا کام تو وہی کر رہے ہیں جو گزشتہ 73 سالوں سے کر رہے ہیں ۔ اب سنا ہے کہ وہ اگلے انتخابات کے نتائج بھی “تیار” کر چکے ہیں ۔ یعنی ایک اور مخلوط حکومت جس میں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی ، باپ ، ق لیگ ، جماعت اسلامی اور اے این پی مل کر ملک کو ترقی کی نئی راہوں پر گام زن کریں ۔ عوام جس کو چاہیں ووٹ دیں ، نتائج “ان” کی پسند کے ہوں ۔ مقصد یہ ہے کہ کچھ بھی ہو ، نواز شریف کو حکومت میں آنے سے روکا جائے ۔
کالم کے اختتام پر کسی شاعر کے دو اشعار جو کربلا کے حوالے سے ہیں :
حاکم کا ہے یہ حکم کہ پانی بشر پئیں
چرند پئیں ، پرند پئیں ، جانور پئیں ۔
کافر تلک پئیں تو منع تم نہ کیجیو !
پر فاطمہ کے لعل کو پانی نہ دیجیو !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply