تاریخ بہت سفاک ہوتی ہے۔ اس کی زمین پہ جھوٹ کے جتنے مرضی من پسند درخت لگائے جائیں وہ درخت کتنے ہی گھنے اور فلک شگاف کیوں نہ ہوں سچائی کی کرن کسی نہ کسی طرح زمین تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ سچائی کی وہی ایک کرن تاریخ کو منور کر دیتی ہے اور سارا کا سارا لگایا ہوا جھوٹ کا جنگل روشن ہو جاتا ہے۔ تاریخ کسی کی رکھیل نہیں ہوتی اور نہ کسی کی معشوقہ، جو صرف اس کے حق میں جی حضور کرتی رہے۔ تاریخ اس دلال کی طرح بے رحم ہوتی ہے جو زندگی میں کسی نہ کسی مقام پہ معززین کوآشکار کر دیتا ہے۔ ہم لاکھ خود کو طفل تسلی دیں لیکن لازمی نہیں کہ تاریخ کا آئینہ ہمیں محض وہی سچ دکھائے جو ہم دیکھنا چاہتےہیں۔ تاریخ آمیزش زدہ ہوتی ہے۔ دانستہ واقعات کو اس طرح گنجلک کر دیا جاتا ہے تاکہ کوئی سچائی تک پہنچ نہ پائے۔البتہ کئی ایک واقعات کا تسلسل اور ربط پھر بھی سچائی تک پہنچنے کا کوئی اشارہ دے دیتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ محض ستر سال میں ہی چوں چوں کا مربّہ بن چکی ہے۔ یہاں منتخب وزرائے اعظم آئے اور نکالے گئے،یہاں آمریتیں آئیں اور پھر گھر گئیں، یہاں آئین بنے اور توڑے گئے، یہاں سیاستدان پیدا کیے گئے اور دیوتا بنائے گئے پھر ان دیوتاؤں کو توڑا گیا۔ یہاں اقتدار کی میوزیکل چیئر ہوتی رہی اور جیتنے والا مسند اقتدار پہ بیٹھا۔ یہاں عدالتوں کے جج ایل ایف او پہ حلف لیتے رہے اور آئین شکنوں کو جواز فراہم کیے جاتے رہے۔ یہاں سیاستدان عسکری نرسریوں میں پروان چڑھائے گئے اور عدلیہ نظریہ ضرورت کے پودے کی آبیاری کرتی رہی۔ یہاں عام پھوڑے کے علاج کے بہانے مریض کی ٹانگ کاٹی گئی اور پھر مصنوعی ٹانگ لگا کرداد وصول کی گئی۔ یہاں اداروں کو سیاست میں ملوث کیا گیا۔ یہاں عام آدمی کو ساٹھ کی دھائی سے اکسیویں صدی کی دوسری دہائی تک ساٹھ سال چینی اور آٹے کی لائنوں میں کھڑا کیا گیا۔ یہاں ہر انتخابات کو متنازع بنایا گیا۔ یہاں اداروں کی بےتوقیری کی گئی۔ دامے درمے سخنے ناپسندیدہ لوگوں کو منظر عام سے ہٹایا گیا۔ یہاں پارلیمان کو پارلیمان والوں نے بے وقعت بنایا۔یہاں غداری اور کفر کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کیے گئے اس کا مکمل ادارک کیے بنا کہ اس کے نتائج کیا ہوں۔ یہاں مسلک، مذہب اورسیاست ہر شعبے میں تفرقے کو ہوا دی گئی۔ اس ملک پہ کیا کچھ نہیں بیتا۔
پاکستان کی اس ساری سیاسی تاریخ میں سب کا کردار رہا اور سب نے اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا۔ سیاستدان بھی غلطیاں کرتےرہے اور وہ لوگ بھی غلطیاں کرتے رہے جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، یعنی عوام۔ اوّل ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی لوگوں کی غلطیوں کو غیر سیاسی لوگ ووٹ کی طاقت سے واضح ہونے دیتے کہ جمہور کا یہی طریقہ کار ہوتا ہے۔ لیکن غیر سیاسی لوگوں نےغلطیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ غیر سیاسی لوگوں نے خود کو غیر سیاسی رکھتے ہوئے ان غلطیوں کے ازالے کے نتیجے میں مزیدغلطیاں کیں۔ اور چونکہ غیر سیاسی لوگوں کی حب الوطنی کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے لہذا ان کی غلطیوں پہ تنقیدکرنا مناسب بات نہیں ہے۔ بقول شاعر “کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری”، ان کی غلطیاں بھی مقدس ٹھہریں اور محض سیاستدا ن ہی تختہ مشق بنے۔ یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان میں سیاسی لوگوں کی غیر سیاسی مصروفیات رہیں اور غیر سیاسی لوگوں نے اپنی سیاسی مصروفیات کو بھرپور نبھایا۔ سیاستدان تو جیسے تیسے اپنی غیر سیاسی مصروفیات کےنتائج کو بھگتے رہے اور بھگت رہے ہیں البتہ غیر سیاسی لوگوں نے براہ راست ایسے کوئی نتائج نہیں بھگتے۔ البتہ ایک عمومی باتوقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنی غلطیوں کی سزا کا سامنا نہیں کرتے اور اپنی غلطیوں کو اعمال سے درست نہیں کر پاتے، ان کی غلطیاں ان کا پیچھا کرتی ہیں، ان کو haunt کرتی ہیں اور وہ بعد ازاں ضمیر کی خلش مٹانے کے لیے کتابیں لکھتے رہتےہیں۔
غیر سیاسی لوگوں نے جب جب سیاست پہ اپنی صفائی دینے کی بات کی وہ بات مخصوص طبقے سے باہر اپنی سچائی ثابت نہیں کرسکی۔ یہ غیر سیاسی لوگوں نے الیکڑانک میڈیا کے اینکرز کے ساتھ گفتگو میں جو کچھ کہا کیا وہ اس ملک کا سچ ہے؟ غیر سیاسی لولوگ خارجہ پالیسی پہ مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا سارا بوجھ سیاسی لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ غیر سیاسی لوگ چھ سات گھنٹے پاکستان کی داخلی اور خارجی سیاست اور خارجہ امور پہ بات کرنے کے ساتھ ساتھ داخلی سکیورٹی کے معاملات پہ رائےدیتے ہیں اس تیقن کے ساتھ کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ملک کے موجودہ وزیراعظم خود فیصلے کرتےہے۔ اور سابقہ وزیراعظم اپنے بوجھ سے گرے۔ اس بارے میں ان کو اس لیے معلوم ہے کیونکہ وہ غیر سیاسی ہیں۔ اگر سیاستدان ہوتےتو موجودہ اور سابقہ وزرائے اعظم کی سیاست پہ تفصیل سے بات کرتے۔
غیر سیاسی لوگوں نے جس طرح سیاست میں اپنا مقام بنایا اور ملک کی فلاح کے لیے مناسب جوڑ توڑ کیا وہ سب بھی غیر سیاسی نہیں۔ وہ ٹوئٹس بھی غیر سیاسی نہیں اور وہ تفتیشی کمیشن میں شامل ہونا بھی غیر سیاسی نہیں۔ غیر سیاسی اقدامات کے بعدسیاسی جماعتوں پہ دست شفقت رکھنا اور مناسب جوڑ توڑ کرنا بھی کوئی غیر سیاسی اقدام نہیں۔ عدالتوں سے غیر سیاسی اقدامات کی توسیع لینا تو برما میں بھی غیر سیاسی نہیں مانا جاتا۔ نیز نئے نئے سیاسی پٹولے بنانا آرٹ ہے اور مکمل غیر سیاسی چیز ہے۔ لیکن ان پٹولوں کو میدان سیاست میں لانا اور کامیاب کروانا نہ ہی آرٹ ہے اور نہ ہی غیر سیاسی عمل ہے۔ آپ کے غیر سیاسیدست شفقت کا ہاتھ سیاستدانوں کے سروں پہ ہونا ہر گز غیر سیاسی بات نہیں ہے۔
خیر مجھے ان سب باتوں سے کیا سروکار ہو سکتا ہے میں تو حقیقت میں خود ایک غیر سیاسی آدمی ہوں، سیاست پہ الم غلم لکھ کروقت گزاری کرتا ہوں۔ وقت زیادہ میسر ہو تو سوشل میڈیا پہ کسی دوست سے سینگ پھنسا کر اس کو بِتا لیتا ہوں۔ سیاست دانوں پہ تنقید کرتا ہوں۔ غیر سیاسی لوگوں کے انتخاب کو اس لیے قبول نہیں کرتا کیونکہ انکا اپنا انتخاب بدلتا رہتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں میں سارادن سیاسی مباحث کرتا ہوں تو غیر سیاسی کیسے ہوا؟ لوگوں کو میرا یقین کرنا چاہیے میرا ذریعہ معاش محض پلاٹوں کی خرید وفروخت پہ منحصر ہے۔ اور میری چند ایک چھوٹی موٹی فیکٹریاں ہیں۔ مجھے پراپرٹی ڈیلر اور صنعت کار ہی سمجھا جائے میراسیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ میرا شاعری سے تعلق ہے۔ میں شاعری پڑھتا ہوں۔ لہذا لیاقت علی عاصم کی خوبصورت غزل سے محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔
ڈُوبتی ناؤ تم سے کیا پُوچھے
ناخداؤ! تمہیں خدا پُوچھے
کس کے ہاتھوں میں کھیلتے ہو تم
اب کھلونوں سے کوئی کیا پُوچھے
ہم ہیں اس قافلے میں قسمت سے
رہزنوں سے جو راستہ پُوچھے
ہے کہاں کنجِ گُل، چمن خورو
کیا بتاؤں، اگر صبا پُوچھے
اٹھ گئی بزم سے یہ رسم بھی کیا

ایک چُپ ہو تو دوسرا پُوچھے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں