کراچی کے حلقہ NA-249 میں توقعات کے برخلاف الیکشن ہارنے والی نون لیگ اور تحریک انصاف نے شکست تسلیم کرنے کی بجائے دھاندلی کا شور مچا دیا ہے- نون لیگ کے حامی ٹی وی اینکرز اپنے تجزیوں میں پیپلز پارٹی کو اس حلقہ میں کوئی اہمیت دینے کو تیار ہی نہیں تھے- سب نے پیپلز پارٹی کو حاصل کردہ ووٹوں کے تجزیوں کے حساب سے نمبر 5 یا 6 پوزیشن پر رکھا ہوا تھا- حتیٰ کہ حامد میر جیسے پیپلزپارٹی کے بظاہر خیرخواہ سمجھے جانے والے اینکر بھی پیپلز پارٹی امیدوار کی کامیابی کی توقع نہیں رکھتے تھے- مسلم لیگ نون نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزامات تو لگا دئیے مگر ابھی تک وہ کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکی- الیکشن کے حوالہ سے پاکستان میں رائج دھاندلی کے جتنے بھی ممکنہ طریقے ہیں، ان پر غور کریں تو نون لیگ کے الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں-
مثال کے طور پر کچھ سچائیاں یہ بھی ہیں کہ:-
1:- پولنگ ڈے پر فائرنگ اور بدامنی کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا-
2:- کسی بھی پارٹی کے ووٹرز کو پولنگ سٹیشنز پر آنے سے نہیں روکا گیا۔
3:- کسی پولنگ سٹیشن پر کسی بھی پارٹی نے اپنے امیدوار کے نام پر ٹھپے نہیں لگائے۔
4:- پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے پریزائیڈنگ آفیسرز کو اغواء بھی نہیں کیا-
5:- کسی بھی امیدوار نے ریٹرننگ آفیسر اور پریزائیڈنگ آفیسرز پر الیکشن جیتنے والی پیپلز پارٹی سے ملی بھگت کا الزام بھی نہیں لگایا-
6:- کسی امیدوار نے یہ الزام بھی نہیں لگایا کہ اس کے پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45 نہیں دئیے گئے-
7:- کسی بھی امیدوار اور پریزائیڈنگ آفیسرز کے جاری کردہ فارم 45 میں کسی قسم کا کوئی فرق بھی نہیں ہے یعنی تمام فارم 45 اصلی ہیں-
8:- تمام امیدواروں کے پاس موجود فارم 45 اور الیکشن کمیشن کے فارم 47 میں کوئی فرق بھی نہیں ہے۔
9:- دھاندلی کرنے کے ان ممکنہ طریقوں کے علاوہ کوئی اور بھی طریقہ پیپلز پارٹی نے ایجاد کیا ہے تو اس کی نشاندہی کر دی جائے تاکہ ہم سب کے علم میں اضافہ ہو سکے-
جب یہ سب کچھ واضح ہے تو ہارنے کے باوجود شکست تسلیم نہ کرنے اور دھاندلی کے الزامات لگانے والے کیوں نہیں بتاتے کہ آخر دھاندلی ہوئی کہاں ہے؟- پیپلز پارٹی لیڈروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون کے دوست کسی ایک پولنگ سٹیشن کا نام بتائیں جہاں وہ پہلے نمبر پر تھے؟۔ اگر کسی ایک بھی پولنگ سٹیشن پر آپ کا امیدوار لیڈ نہیں لے سکا تو پھر نون لیگ کے لیڈر یہ جھوٹا دعویٰ کیوں کر رہے ہیں کہ نون لیگ لیڈ لے رہی تھی اور بعد میں نتائج تبدیل کردئیے گئے- آئیے اب سنجیدگی سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پروفیسر مندوخیل کو حلقہ میں مقیم میانوالی سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کی حمایت کے علاوہ دیگر وہ کون سے عوامل تھے کہ جن کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے تمام اخباری اور ٹی وی تجزیوں کے برعکس اس ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کی-
کراچی منی پاکستان کہلاتا ہے اور کراچی کے حلقہ NA-249 میں پیپلز پارٹی کی حالیہ فتح کا کریڈٹ پیپلزپارٹی خیبر پختونخواہ کو بھی دیا جا سکتا ہے- اس حلقے میں ہزارہ کمیونٹی سے کافی تعداد میں تنولی، سواتی، جدون وغیرہ جیسی بہت سی قومیں آباد ہیں جن کا کافی بڑا ووٹ بنک بھی یہاں موجود ہے- اس الیکشن سے تقریباً 10 دن پہلے بلاول بھٹو نے پیپلزپارٹی خیبر پختونخوا کے نئے صوبائی جنرل سیکرٹری کے طور پر شجاع خان عرف شازی خان کا تقرر کیا- شازی خاں کا تعلق مانسہرہ ہزارہ ڈویژن سے ہے اور ابھی وہ خیبر پختونخوا میں کارکنان سے مل ملاپ ہی شروع کرنے والے تھے کہ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ان کو کراچی حلقہ NA-249 کی الیکشن کمپئین کے لئے بلوا لیا- شازی خان اس الیکشن سے پچھلے 10 دنوں کے اندر اس حلقہ میں رہنے والے اپنے ایک ایک ہزارہ وال کے گھرگئے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل کے لئے ووٹ کی درخواست کرتے رہے- شازی خان کا عوامی و فلاحی کردار اس قدر مقبول و مضبوط تھا کہ ہزارہ کمیونٹی نے تیر پہ مہر لگا کر پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار پروفیسر مندوخیل کی جیت میں اپنا اہم کردار ادا کیا- یاد رہے کہ شازی خان سنہ 2008ء میں بطور آزاد امیدوار مانسہرہ کے انتخابی میدان میں اترے تھے اور انہوں نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کو ان کے آبائی حلقہ میں شکست دے کر بہت بڑا اپ سیٹ کیا تھا- اسی جیت کی وجہ سے ان کو فاتح کیپٹن صفدر بھی کہا جاتا ہے- آزاد نشست جیتنے کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور تب سے وہ پیپلز پارٹی سے ہی وابستہ ہیں- صوبائی جنرل سیکریٹری تقرری کے صرف دوسرے دن ہی انہوں نے اپنا پہلا امتحان کراچی این اے 249 کا الیکشن میں دیا اور پارٹی کو اس الیکشن میں تقریباً ناممکن فتح دلوا دی-
حلقہ این اے 249 کے اس ضمنی الیکشن میں کٹر نون لیگی کارکنان کے ایک بڑے دھڑے نے بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار پروفیسر قادر مندوخیل کو سپورٹ کیا اور اپنے دوستوں کو بھی مندوخیل کی حمایت پر رضامند کیا- یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر مندوخیل کی فتح پیپلز پارٹی سے زیادہ عوام کی فتح ہے- بلاشبہ یہ علاقہ نون لیگ کے ووٹروں کا اکثریتی علاقہ ہے لیکن نون لیگ قیادت نے عوامی توقعات کے برخلاف اور مقامی افراد کو ٹکٹ دینے کی بجائے اپنی مخصوص کچن کیبنٹ سے ایک فرد مفتاح اسماعیل کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا اور یہی فیصلہ ان کی شکست کی وجہ بنا۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جس پولنگ بوتھ سے سنہ 2018ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے محض 60 ووٹ حاصل کئے تھے، وہاں کے نون لیگی کارکن سلیم الیاس کی کوششوں اور حمایت کی وجہ سے وہاں سے پروفیسر مندوخیل نے 400 سے زیادہ ووٹ حاصل کئے- اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ اگر مستقبل میں بھی عوام نمائندے منتخب کرتے وقت اسی طرح کا ردعمل دکھائیں تو پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی میں یہ جرأت نہیں ہو گی کہ وہ میرٹ کے خلاف کسی کو ٹکٹ دیں- نظام میں تبدیلی کسی نعرے، دھرنے اور لانگ مارچ کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ تبدیلی اسی طرح ممکن ہوتی ہے کہ عوام مل کر اسی طرح کا ردعمل دکھائیں جیسا حلقہ NA-249 کے عوام نے ضمنی انتخاب میں دکھا کر نون لیگی قیادت کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے-
حلقہ NA-249 کے بارے میں یہ جو کہا جا رہا ہے کہ سنہ 2018ء میں پیپلز پارٹی کے امیدوار پروفیسر قادر مندوخیل نے 7,236 حاصل کئے تھے تو اب کیسے ان کے ووٹ بڑھ گئے؟- یہ آدھا سچ ہے- مکمل سچائی یہ ہے کہ تب پروفیسر مندوخیل کو پیپلز پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا تھا اور وہ پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے- تب پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالعزیز میمن تھے اور انہوں نے 64،974 ووٹ حاصل کئے تھے۔ یاد رہے کہ اس حلقہ سے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے بھی سنہ 2013ء کے الیکشن میں حصہ لیا تھا مگر وہ صرف 32 ہزار ووٹ ہی لے سکے تھے جو پیپلز پارٹی امیدوار کے سنہ 2018ء کے الیکشن میں حاصل کردہ ووٹوں کا تقریباً نصف بنتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ سنہ 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کے فیصل واوڈا سے عبرت ناک شکست کھانے کے باوجود بھی پروفیسر قادر مندوخیل نے ہمت نہیں ہاری- مندوخیل نے الیکشن کمیشن میں فیصل واوڈا کے خلاف جھوٹ بول کر امریکی شہریت کو مخفی رکھنے کے خلاف درخواست دائر کی ہوئی تھی- پروفیسر مندوخیل کو تحریک انصاف نے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دلوائیں مگر پروفیسر ثابت قدم رہا- وہ گبھرایا بھی نہیں اور خوفزدہ بھی نہیں ہوا- ہار کے باوجود بھی حلقے میں موجود رہا اور لوگوں کے کام کرتا رہا- تحریک انصاف کی دھمکیوں اور ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اس نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی- فیصل واوڈا کے خلاف عدالت میں طویل قانونی جنگ لڑی اور اسی قانونی جنگ میں ممکنہ شکست سے گھبرا کر فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی کی اس نشست سے استعفیٰ دیا اور یوں اس پر ضمنی الیکشن ممکن ہو سکا- پروفیسر مندوخیل نے قانونی دستاویزات کا ایسا ثبوت عدالت میں جمع کروا رکھا ہے کہ فیصل واوڈا کی سینٹ ممبرشپ بھی نہیں بچنے والی اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ سینٹ کی نشست سے بھی نا اہل ہو کر اس پر بھی ضمنی انتخاب کروائے گا جس میں پیپلز پارٹی امیدوار کی کامیابی یقینی ہو گی- پروفیسر مندوخیل کی اس جمہوری کاوش کو سراہتے ہوئے پیپلز پارٹی نے انہیں ٹکٹ دیا اور ان کی کامیابی کے لئے کوششیں بھی کیں-
ان تمام معاملات پر اطمینان سے غور کیا جائے تو ثابت ہو گا کہ نہ تو سنہ 2018ء کے الیکشن کی طرح پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر فوج تعینات تھی کہ جس نے مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کی مدد کی ہو- ویسے بھی فوج ہمیشہ پیپلز پارٹی کے خلاف ہی کھڑی رہی ہے اور کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ فوج نے پیپلز پارٹی کی کبھی حمایت کی ہو- روزہ اور گرمی کی حالت میں تمام دن پولنگ ہوتی رہی- پیپلز پارٹی کے کارکنان اس ستم گر حالت میں بھی بعض معذور ووٹروں کو کندھوں پر اٹھا کر ووٹ ڈلوانے لاتے رہے- جیالوں کا جوش و خروش دیدنی تھا- وہ ایک مشن سمجھ کر الیکشن لڑ رہے تھے، اس لئے کامیابی انہیں ہی حاصل ہونی تھی- مسلم لیگ نون کا ایک بار پھر دھاندلی رونا روایتی ہے مریم نواز وقت سے پہلےہی مٹھائی کھانے کا ماحول پیدا کردیتی ہیں مگر نتیجہ مختلف آنے پر نون لیگ کی طرف سے وہی دھاندلی کا شور مچایا جانا شروع ہو جاتا ہے- این اے 249 کا الیکشن جماعتی ضرور تھا مگر درحقیقت ووٹرز نے امیدواروں کو ووٹ ان کی ذاتی کاوش یا پہچان پر دیا- اسٹار لیڈرشپ کا اس حلقے میں نہ پہنچ پانا اور کرونا فیکٹر اس الیکشن کا رنگ پھیکا کرگیا- نتیجتاً وہ تحریک پیدا نہ ہوسکی جس سے الیکشن کی فضا پیدا ہوتی – یہی وجہ ہے کہ عدم دلچسپی کی وجہ سے ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کافی کم رہا اور جو لوگ ووٹ ڈالنے نکلے، وہ
بھی صرف امیدواروں کی ذاتی کوششوں کی بدولت نکلے اور جس امیدوار نے لوگوں کو بہتر مینج کر لیا وہ الیکشن جیت گیا- اس دعوے کو تقویت اس طرح بھی ملتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار نے پچھلے الیکشن کی نسبت انتہائی کم ٹرن آؤٹ ہونے کے باوجود بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے کیونکہ اس کے موجودہ امیدوار پروفیسر قادر مندوخیل نے اپنے ووٹروں کی موومنٹ کو بہتر مینج کیا اور میدان مار لیا-
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں