ازار بند سے بندھی سوچ۔۔سعید چیمہ

بینائی جب اُچک لی جائے، عقل جب سلب کر لی جائے، کانوں پر جب پردہ پڑ جائے، دلوں پر جب مہر لگ جائے تو حق کب واضح ہوتا ہے، تعصبات کی چکی میں انسان پھر پِستا رہتا ہے گیہوں کی طرح، دماغ کی روشن قندیلیں پھر تعصب کی وجہ سے بجھا چاہتی ہیں۔

شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اَٹ گئے

روشن دماغ لوگ بھی فرقوں میں بٹ گئے

لوگوں کو تفننِ طبع کے لیے درکار ایک چٹ پٹا موضوع ہوتا ہے جو سوشل میڈیا کے بازار میں با آسانی دستیاب ہو جاتا ہے، پہلے تو بقراطوں کی طبیعت پہ یہ بات ناگوار گزری کہ ایک عالمِ دین کپڑوں کا برانڈ کیسے لانچ کر سکتا ہے، وہ بھی کسی نیک مقصد کے لیے، اب ہنگامہ اس بات پہ جاری ہے کہ اس برانڈ کے ایک ازار بند کی قیمت سکہ رائج الوقت ساڑھے پانچ سو روپے کیوں رکھی گئی ہے، ازار بند کو چناب کنارے تو مقامی زبان میں نالہ کہتے ہیں، کچھ علاقوں میں شلوار تھامنے والی اس شے کو ناڑا بھی کہا جاتا ہے، اپنے گاؤں میں ایک صاحب واقع ہوئے ہیں، سکول میں استاد آپ کی ذہانت کو برداشت نہ کر سکے اور آپ کو فقط آٹھویں کلاس کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہنا پڑا ،وگرنہ تو لوگ نیوٹن و آئن سٹائن کی ایجادات کو بھول جاتے، موصوف کے متعلق جو بات آپ پر آشکار  کرنے کی ہے وہ یہ کہ آپ چارپائی کی ادوائن کو بھی بطور ازار بند استعمال کر لیتے ہیں، استفسار کرنے پر دلیل کا کوڑا برستا ہے کہ قمیض اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ لوگ ازار بند کا دیدار نہ کر سکیں تو پھر شلوار میں ازار بند ڈالیں یا ادوائن، کچھ فرق نہیں پڑتا، البتہ مقصد سولہ آنے پورا ہو جاتا ہے، بلکہ کبھی کبھار تو موصوف بتاتے ہیں کہ ادوائن کی ہاتھوں سے لگائی گانٹھ بعض اوقات دانتوں سے کھولنا پڑ جاتی ہے، اور اس میں جو مشقت اٹھانا پڑتی ہے وہ فرہاد کے پہاڑ کاٹنے سے بھی زیادہ ہو تی ہے، آخر  رکوع کی حالت میں ازار بند کی گانٹھ کھولنا آسان کام تھوڑی ہے، اب جن لوگوں کے ہاں دولت کی ریل پیل ہے، وہ ازار بند پانچ ہزار کا بھی ہوتا تو خرید لیتے، اور جن کے ہاں بھوک ننگ کا عفریت ناچتا ہے، انہیں اس سے غرض ہی کوئی نہیں کہ ازار بند کی قیمت کیا ہے، حیرت تو ان لوگوں پر ہے جو ہمیشہ پینٹ شرٹ پہنتے ہیں اور پھر بھی اعتراض اس بات پر کر رہے ہیں ،کہ ازار بند کی قیمت ساڑھے پانچ سو روپے کیوں رکھی گئی ہے، بیگانی شادی میں نہ جانے عبداللہ کیوں دیوانہ ہو رہا ہے، کوئی لندن سے اعتراض کر رہا ہے تو کوئی متحدہ ریاست ہائے امریکہ سے۔۔

جائیے صاحب ! آپ بھی کپڑوں کا برانڈ لانچ کیجیے، اور لوگوں میں مفت ازار بند تقسیم کرنا شروع کر دیجیے، تب شاید آپ کے سلگتے ہوئے سینے کو ٹھنڈ پڑ جائے گی، خوامخواہ سے ایک بے تُکی بحث چھڑ دی جاتی ہے نتیجہ جس سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا، اعتراض کرنے والوں کو ہزار پندرہ سو روپے کا برگر نظر نہیں آتا، پانچ سو کا برانڈڈ زیریں جامہ اوجھل نگاہوں سے کیوں ہو جاتا ہے، ادھر اعتراض اس لیے آسانی کے ساتھ جڑ دیا جاتا ہے کہ مولوی کا برانڈ ہے جس طرح چاہے چڑھائی کر دو، کون سا کسی نے ہمیں لگام ڈالنی ہے، ایک زوال ہے جس کی طرف مسلسل ہم گامزن  ہیں، معلوم نہیں یہ سفر کب اور کہاں تھمے گا، جو لوگ ذرا لکھ سکتے ہیں، رہنمائی کر سکتے ہیں وہ بھی ٹھٹھہ اُڑا رہے ہیں، ہزاروں برانڈ اس وقت پاکستان میں ہیں، ہر کوئی اپنی مرضی سے قیمت کا تعین کرتا ہے، لیکن مولانا چوں کہ شریف جاتی سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے مرضی سے قیمت  کا تعین کرنے کا حق انہیں نہیں دیا جا سکتا، یہ تجویز معلوم نہیں اب تک بقراطوں نے کیوں نہیں دی کہ مولانا کسی بھی شے کی قیمت کا تعین کرنے سے پہلے لوگوں کی رائے لیں، اگر کسی پروڈکٹ کی تیاری پر چھ ہزار خرچ ہوئے ہیں اور عوام کہے کہ اس کی قیمت چھ سو ہونی چاہیے تو مولانا کو بلا چون و چراں ایسا کر گزرنا چاہیئے، زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا، نقصان ہو گا، برانڈ ختم ہو جائے گا، یہی تو لوگ چاہتے ہیں، ازار بند کی قیمت کو لے کر کسی کی ذات کو نشانہ بنانا کہاں کی دانائی ہے، برا بھلا مولانا کو کیوں کہا جا رہا ہے، رحمان فارس اگر قلم کو حرکت نہ دیتے تو شاید اختتام ناممکن ہو جاتا۔

اچھے نظر آئیں گے برے بھی تمہیں

Advertisements
julia rana solicitors

آنکھوں سے تعصب کی گرہ کھول کے دیکھو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply