ملکیت (4،آخری قسط)۔۔وہاراامباکر

کیا خیالات کی بھی ملکیت ہوتی ہے؟ ڈیجیٹل دنیا میں یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کاپی کر لینا آسان ہے۔ لیکن یہ صدیوں پرانا سوال ہے۔
چھٹی صدی میں آئرلینڈ میں سینٹ فینین کے ایک مذہبی متن کی کاپی سینٹ کولمبا نے کی۔ سینٹ فینین نے اس کاپی کو واپس دینے کو کہا۔ کولمبا نے انکار کر دیا۔ معاملہ بادشاہ ڈیارمیٹ کے پاس گیا جنہوں نے فینین کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ کولمبا نے پھر بھی بات نہیں مانی اور کہا کہ “خدا کے الفاظ کا کوئی مالک نہیں”۔ اس پر اپنی اونیل برادری کی حمایت حاصل کر لی۔ معاملہ سنگین ہوتا گیا اور نوبت جنگ کی آ گئی۔ یہ جنگ کول ڈریہمانی کہی جاتی ہے یا اس کو “کتاب پر جنگ” کہتے ہیں۔ یہ سن 560 میں ہوئی اور اس میں تین ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔
خیالات کی ملکیت کے تنازعے پر لڑائیاں آج بھی ہوتی ہیں (اگرچہ لوگ مارنے کی نوبت نہیں آتی)۔ سال میں چار لاکھ کے قریب پیٹنٹ کئے جاتے ہیں تاکہ انٹلکچوئل پراپرٹی کی حفاظت کی جا سکے۔ اور ہم خود بھی عام طور پر اس کو شدید ناپسند کرتے ہیں کہ کوئی دوسرے کے آئیڈیا کو اپنے نام سے پیش کرے۔ اسے چوری سمجھا جاتا ہے۔ لازمی نہیں کہ ایسا کرنا مالیاتی فائدے کا ہی معاملہ ہو، یہ فخر اور اصول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اور سائنسدان اس بارے میں رقابتوں میں بہت بدنام ہیں۔ کیا ڈی این اے کے سٹرکچر کی دریافت واٹس اور کرک کی تھی یا روزالین فرینکلن اور ولسن کا بھی اس میں حصہ تھا؟ اور پالنگ کا؟ یہ سب آپس میں مقابلے میں تھے۔ آئیڈیا کا کریڈٹ لینا زہریلے جذبات پیدا کر دیتا ہے۔
اس چیز کو بچے چھ سال کی عمر میں سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی نے خود تصویر بنائی ہے یا بہترین تصویر بنائی ہے لیکن سامنے ایک اور تصویر دیکھ کر۔ کیا کسی بڑے نے مدد تو نہیں کی۔ اوریجنل کو فوقیت دی جاتی ہے۔
ایک شاعر نے شعر کہا ہے۔ کسی نے دہراتے ہوئے کچھ ترمیم کر دی۔ خواہ اس سے شعر پر فرق نہ پڑے لیکن ایسا کرنے والے کو ٹوک دیا جاتا ہے۔ کہانیاں سناتے چھوٹے بچوں میں بھی یہی نظر آتا ہے۔ ایک بچے کی کہانی دوسرا بچہ تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ نہیں سنا سکتا۔ یہ قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ وجہ کیا ہے؟ ہم تخلیق کو تخلیق کار کی ملکیت سمجھتے ہیں۔
لیکن ایک اور مسئلہ ہے۔ اوریجنل آئیڈیا کا کوئی خاص مطلب نہیں۔ ہر خیال کسی اور خیال سے نکلتا ہے۔ خیالات جھرنوں کی صورت ہیں جو ذہنوں میں نشوونما پاتے ہیں۔ کونسا ایسا مقام ہو گا جس وقت ہم اس کو اوریجنل کہیں گے اور کب نہیں۔ اس کی کوئی خاص حد نہیں ہے۔
کئی بار ملکیت خالصتاً تصوراتی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ ان پر اصل پیسہ خرچ نہیں کرتے۔ ویڈیو گیمز میں مال خریدنے کی مارکیٹ 165 ارب ڈالر کی ہے۔ فلاں ورچوئل کائنات کے فلاں شہابیے پر جگہ کی کتنی قیمت ہو سکتی ہے۔ کلب نیورڈائی کی فروخت 635,000 ڈالر میں ہوئی تھی۔ یہ اپنے مالک جون جیکبز کو سالانہ دو لاکھ ڈالر کما کر دیتا رہا تھا۔ جیکبز نے اسے ایک لاکھ ڈالر کا خریدا تھا اور اس کی ادائیگی کے لئے اپنا گھر گروی رکھوایا تھا۔
اور آپ کا ڈیٹا، جو فیس بک یا دوسرے پلیٹ فارم اکٹھا کر رہے ہیں؟ اس بیش قیمت ڈیٹا کی ملکیت کئی تنازعات کا باعث ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیریمی بینتھم نے کہا تھا، “کوئی ایسا عکس نہیں، کوئی ایسی تصویر نہیں، کوئی ایسی خاصیت نہیں جو بتا سکے کہ پراپرٹی کیا ہے۔ یہ مادی شے نہیں ہے۔ یہ میٹافزیکل ہے۔ یہ خالصتاً ذہنی اختراع ہے”۔ دوسرے الفاظ میں، نیچر میں ملکیت موجود نہیں، یہ انسانی ذہن کی تخلیق ہے۔ ایک سوچ، ایک تصور جو انتہائی طاقتور ہے۔ ملکیت ہماری پوری زندگی کو کنٹرول کرتی ہے۔ ہم کس پر حق کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔ اور کب، کہاں، کس کے ساتھ۔ کہاں جا سکتے ہیں اور کہاں نہیں۔ کیا رویہ قابلِ قبول ہے۔ اگر ہم اسے نظرانداز کر دیں یا اس کو پہنچاننے میں ناکام رہیں تو ہمارا رویہ ناقابلِ قبول یا غیرقانونی ہو سکتا ہے۔
نہ ہی اس کا تعلق اصول و ضوابط اور قوانین سے ہے بلکہ نفسیات سے بھی۔ ہم ان چیزوں کی ملکیت حاصل کرنے کی کوشش میں بھی زندگی گزار دیتے ہیں جن کی ہمیں ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ جذباتی طور پر ملکیت کی خواہش ہمارے ساتھ گہری رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ نفسیات کا کھیل ہے۔
جان پیرس اپنے تجربات میں اسے واضح طور پر دکھاتے ہیں۔ کمپنی پالیسی تبدیل کر کے کانوں میں ٹرک ڈرائیور اور ٹرک کا تعلق ایسے کیا گیا کہ ایک ٹرک کا “مالک” ایک ڈرائیور کو بنا دیا گیا۔ اس کے بعد ٹرک کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا۔ کئی ڈرائیوروں نے خود سے خرچ کر کے ٹرک پر رنگ کروایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا گروپ، میری ٹیم، میرا ادارہ، میرا ملک ۔۔۔ اپنا ہونے کا طاقتور احساس اپنے ساتھ اس کا خیال رکھنے، پرواہ کرنے اور دیکھ بھال کا طاقتور احساس بھی لے کر آتا ہے۔ یہ ہماری کمزوری بھی ہے اور ہماری طاقت بھی۔ کئی بار یہ ہماری زندگی کا سراب بن جاتی ہے، جبکہ کئی بار معنی کی وجہ۔ اپنی ملکیت کے ساتھ ہمارے احساسات منسلک ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے فخر کا باعث بھی بنتی ہے اور صدمے کا بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاقتور گروہوں میں ایک چیز مشترک ملے گی۔ یہ ممبران کا اپنے گروہ کا اپنا ہونے کا مضبوط احساس ہے۔ خواہ یہ گروہ خاندان ہو، کوئی ادارہ، کوئی ٹیم یا کوئی ملک۔
ٹیم بلڈنگ کی لئے کی جانے والی ایکٹیویٹی، ادارے کے لئے کام کرنے والوں کا ادارے کے ساتھ مضبوط شناخت کا بننا، ایک نصب العین کے لئے اکٹھے ہونا ۔۔۔ مینجمنٹ سٹڈیز والے بخوبی واقف ہیں کہ ادارے کے لئے یہ کتنا ضروری ہے۔
اگر کسی بھی گروہ کے ممبران اس کو اپنا نہ سمجھیں تو پھر یہ شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ ہمیں ایک اور دلچسپ معاشرتی مظہر کی طرف لے جاتا ہے۔ فرض کیجئے کہ کوئی غیرارضی مخلوق زمین پر آئے تو اسے ممالک یا پھر حب الوطنی جیسے تصورات مضحکہ خیز لگیں۔ بظاہر اس کی کوئی تُک یا منطق نہیں لگتی۔
انڈیا ہو یا انڈونیشیا، روس یا امریکہ، جاپان یا سری لنکا، پاکستان یا برازیل، سوئٹرلینڈ یا سوازی لینڈ، اپنی تاریخ پر فخر، اپنے جھنڈے کو سلام،اپنے ہیروز کی تکریم، اپنے ترانے کا احترام، اپنے لوگوں، زمین، پہاڑوں اور دریاوٗں سے محبت، حب الوطنی اور اس بارے میں حساسیت، کہانیاں، گیت اور خاص دن، متنوع خیالات اور نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ایک قومیت کا ابھرنا ۔۔۔ مضبوط قومی شناخت اور اپنائیت کی تشکیل کے اس رویے کو تمام دنیا میں پروموٹ کیا جاتا ہے۔ اور اسے ہر جگہ اچھی قدر سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اپنا ہونے کا احساس گروہ کو مضبوط کرتا ہے اور گروہ کی مضبوطی گروہ کی ترقی کے لئے لازم ہے۔
کیونکہ ہم ان چیزوں کی پرواہ کرتے ہیں، جن کو ہم اپنا سمجھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply