نراسترک ۔۔ مختار پارس

مسافر کی آنکھ کھلی تو کسی مسجد میں اذانِ فجر ہو رہی تھی۔ وہ آواز کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے درِ مسجد پر پہنچا تو وہاں لکھا تھا کہ یہاں صرف ایک طرح کی ٹوپیاں پہننے والے ہی سر ٹیک سکتے ہیں۔ مسافر نے اپنے ننگے سر پر ہاتھ پھیر کر وہیں سڑک پر ہی مصلیٰ بچھا دیا اور خود کو خدا کے سپرد کر دیا۔ خود کو کسی کے سپرد کر دیا جاۓ تو پھر باقی کچھ نہیں رہتا، ثواب کی خواہش بھی نہیں اور گناہ کا احساس بھی نہیں۔ خدا کی محبت میں کسی انسان کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔

ہر بڑے واقعے کا موجب کوئی چھوٹی سی بات ہوتی ہے۔ ہر چھوٹی بات صرف اپنی ذات سے وابستہ نظر آتی ہے مگر محبت میں سوال و جواب کی گنجائیش نہیں ہوتی۔ یہ انتخابِ ذات کا عمل ہے جس میں انسان اپنی خاک اپنی آنکھوں میں جھونک کر کسی اور کا ہو جاتا ہے۔ ناتمام ہونے کا احساس سفر پہ مائل کر دیتا ہے یا گدڑی لپیٹ کر اکڑوں بیٹھے بیٹھے گھائل کر دیتا ہے۔ رنج و غم بھی محبت کا شاخسانہ ہے اور میل ملاقات بھی ایک افسانہ ہے؛ حاصل دونوں صورتوں میں صرف ایک احساس ہے جو اس ذات سے جڑی مہک سے وابستہ ہے۔ گلزار کی مہکار ہی بلبل کو آواز دیتی ہے۔ درختوں کے جھنڈ نہ ہوں تو ہوا میں گھونسلے کون بناۓ۔ یہ محبت ہے جو درختوں کو تناور بنا دیتی ہے؛ یہ عزت ہے جو سایہ عطا کرتی ہے؛ یہ خدمت ہے جو آشیانے میں پناہ دیتی ہے۔ محبت کا اپنا کوئی آشیانہ نہیں ہوتا۔ یہ دلوں میں سر چھپا لیتی اور لوگ جب سوال کرتے ہیں تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔

فرق وہاں پڑ جاتا ہے جہاں فاقے ہوں۔ فاقہ صرف نان و جو کے لقموں کا نہیں ہوتا, لفظ اور خیال بھی فاقہ کشی کا سبب بن سکتے ہیں۔ زندگی میں چھل بل ناپید ہو جاۓ تو بھوک مر جاتی ہے۔ زندگی تو زندگی ہے, جست و خیز کے بغیر اس کی سانسیں بحال نہیں رکھی جا سکتیں۔ احساسِ زیاں کا یہ عالم ہے کہ محبت کرنے کےلیے لوگ مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ مر جانے والوں کی پرستش کا رواج یہاں عام ہے اور زندگی کا عَلم اٹھا کر چلنے والوں کو راستہ نہیں دیا جاتا۔ اذیت پسندی کی روایت نے آرزو کی چلمن کو چہار جانب سے گھیر رکھا ہے کہ کہیں کوئی کھڑکی کسی کے درشن کا سبب نہ بن جاۓ۔ لوگ بارہ دریوں میں کھڑے ہو کر بادشاہوں کے درشن کو ترسیں گے مگر اپنے گریبان میں جھانک کر تصویرِ یار دیکھنا گوارا نہیں کریں گے۔دعا مانگنے کے فورا” بعد رد ہو جاۓ تو پھر بھی دل کے دروازے بند نہیں کیے جاتے۔ مگر مسجدوں میں بھاگ بھاگ کر جانے والوں کو من کے مندر کی گھنٹیاں سنائی ہی نہیں دیتیں۔

خدا ایک ہو کر سب سے محبت کرتا ہے اور سب محبتیں یکجا ہو کر پھر ایک ہو جاتی ہیں۔ نفرت کا کوئی راستہ ایسا نہیں جو خدا تک لے کر جاتا ہو۔ فاقہ ہو یا فرقت، فرقہ ہو یا فراق، فقط محبت کام آتی ہے۔ صرف خود سے یا اپنے جیسوں سے اتفات نظر کا دھوکا ہے۔ طلب اور تڑپ میں فرق ہی یہی ہے کہ طشنگی کو تمام ہونے کو دو گھونٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ تمنا کو سمندر۔ اگر لال دہکتے انگاروں پر پانی کے چھینٹے پڑیں تو کس کی پیاس بجھ سکتی ہے؟ پانی جب پیاس میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے آگ کا سہارا چاہیۓ۔ آگ جب پیاسی ہوتی ہے تو خاک ہی اس کی مدد کر سکتی ہے۔ مٹی جب پیاسی ہو جاتی ہے تو اسے محبت کی ضرورت رہتی ہے۔ ضرورت پیش پڑنے پر محبت کروائی نہیں جاتی، بلکہ کی جاتی ہے۔ حقیقت سامنے آ جاۓ تو ہر عنصر، پر جز اور ہر پہلو سے محبت ضروری ہو جاتی ہے۔ ساری تپکن مل کر پھرایک تنہا میں سما جاتی ہیں۔

محبت تین مواقع پر فرض ہو جاتی ہے؛ جب کسی کا راز رکھنا ہو، جب مرہم کی ضرورت ہو اور جب کوئی عزت سے مخاطب ہو۔ تین صورتوں میں محبت قرض ہو جاتی ہے,جب کوئی جھکے ہوۓ سر کو اٹھا کر گلے سے لگا لے، جب کوئی تقدیر میں تدبیرلکھ دے اور جب کوئی آنکھیں ملاۓ بغیر کچھ عطا کر دے۔ تین باتیں محبت کو مرض بنا دیتی ہیں,جب مزاج پر مجاز حاوی ہو جاۓ، جب فرصت میں فاصلے نہ مٹ سکیں اور جب لوحِ یقین پر لکھا سمجھنے کےلیے قسموں کا سہارا لینا پڑے۔ پیدا کرنے والے سے محبت کا معاملہ الگ ہے۔ وہ راز بھی رکھتا ہے اور تقاضا بھی نہیں کرتا۔ وہ عطا بھی کرتا ہے اور نظر بھی نہیں آتا۔ کان چھوٹے ہوں تو آوازیں خفیف نہیں ہو جاتیں۔ آوازیں عظیم ہوں تو کان بھی بڑے نہیں کرنے پڑتے۔ حسنِ سماعت کا تعلق ڈھول اور دھمال سے نہیں، کَرم اور کمال سے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اندر ایک سمندر ہو اور آنکھیں خشک رہیں، یہ ہو نہیں سکتا۔ دریاؤں کے بند ٹوٹ بھی جائیں تو پیاس ختم نہیں ہو سکتی کہ طلب زندگی کی علامت ہے۔ خواہشیں تمام ہو جائیں تو محبت ختم ہو جاتی ہے۔ طلمت یہ ہے کہ اختیار محبت کرنے والے کا نہیں بلکہ اس کا ہے جس سے محبت ہو جاۓ۔ وہ چاہے تو صبح کا تارا چمک اٹھتا ہے اور وہ نہ چاہے تو تاریکی تا دیر تمکناتی رہتی ہے۔ محبت کرنے والا ایسے ہے جیسے اندھیرے میں سیڑھیاں اتر رہا ہو۔ اسے کبھی لگتا ہے جیسے آخری سیڑھی پر پاؤں آ چکا ہے مگر ابھی اور بھی زینے باقی ہوتے ہیں اور اس کی زمین اس کے پاؤں سے نکل جاتی ہے۔ عالمِ خواب میں نظر آنے والی باتیں ترسناکیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ وہ سلام پھیر کر دیکھتا ہے تو لوگ مسجد سے نکل کر اس کے گرد کھڑے ہو کر اسے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ‘اے مسافر ! تو نے مسجد کے اندر کیوں نہیں نماز پڑھی؟’ وہ چونک کر مسجد کے صدر دروازے پر دیکھتا ہے تو وہاں لکھا ہوتا ہے، ‘اس مسجد میں ہر طرح کے متلاشی آ کر سجدہ ریز ہو سکتے ہیں۔’

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply