• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کے لئے پارلیمانی نظام حکومت بہتر ہے یا صدارتی نظام حکومت؟۔۔غیور شاہ ترمذی

پاکستان کے لئے پارلیمانی نظام حکومت بہتر ہے یا صدارتی نظام حکومت؟۔۔غیور شاہ ترمذی

سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں نظام آزما چکے ہیں اور اس سے بڑھ کر کم از کم 4 دفعہ نظام آمریت بھی۔ اس میں سب سے ظالمانہ جنرل ضیاء کا تیسرا نظام آمریت تھا جس میں وردی کو طاقت کے نشان کے طور پر استعمال کیا گیا اور آئین کو کاغذ کا پرزہ سمجھ کر پھاڑ پھینکنے کا کہا گیا لیکن وہی رعونت سے بھرا فرعون اپنی پسند کے ایک کمزور سے وزیراعظم محمد خان جونیجو سے ڈر گیا اور اسے چلتا کیا، اسمبلیاں توڑ دیں، نئے الیکشن کا ڈول ڈالا پھر کئی جرنیلوں سمیت فضاء میں پھٹ گیا۔ مزید تفصیلات کے لئے محمد حنیف کی کتاب The Exploding Mangoes ضرور پڑھیے گا۔

پاکستان میں تقریباً 400 خاندان ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ساڑھے بائیس کروڑ لوگوں کی رہنمائی کے لئے اللہ پاک کی طرف سے مامور ہیں، وہی بدل بدل کر اقتدار میں آتے رہتے ہیں۔ ان خاندانوں میں شریف خاندان، بھٹو خاندان، مفتی محمود خاندان، ولی خاں خاندان، اچکزئی خاندان مرکزی سطح پر آج کل زیادہ نمایاں ہیں۔ پنجاب میں شریف خاندان کے علاوہ چوہدریز آف گجرات، ٹوانے، قریشی، گیلانی، جنوبی پنجاب کے مخدوم، بھی اقتدار کی گلیوں میں اپنے حصہ کے دعویدار ہیں۔ خیبر پختونخوا میں خاں عبدالولی خاں خاندان کے علاوہ پرویز خٹک خاندان، ہوتیوں کا خاندان، سیف اللہ کا خاندان، یوسف خٹک کا خاندان، ایوب خان کا خاندان اور مولانا مفتی محمود کا خاندان اس موروثی سیاست سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ قاضی حسین احمد کا خاندان بھی جماعت اسلامی میں موروثی سیاست کا آغاز کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی بیٹی کو بھی سینیٹر منتخب کروایا گیا اور ان کے بیٹے کو بھی منتخب کروانے کی کوشش کی گئی۔

سندھ میں عموماً موروثی سیاست کے حوالے سے بھٹو خاندان کا نام لیا جاتا ہے۔ تاہم وہاں زیادہ تر سیاسی رہنما موروثی لیڈر ہی ہوتے ہیں۔ بھٹو خاندان میں وراثت کے لحاظ سے ممتاز بھٹو کو سیاست کرنا تھی اور اگر بھٹو کی حکومت کا تختہ نہ الٹا جاتا تو بے نظیر بھٹو شہید کے لیڈر بننے کے امکانات بہت ہی کم تھے۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی دہشت گردی کے نتیجہ میں ہونے والی موت نے ملک بھر میں عموماً اور سندھ میں خصوصاََ ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی جس کی وجہ سے قیادت ان کے بیٹے کو ملی۔ تشدد اور مارشل لا وغیرہ نے پیپلز پارٹی میں موروثی سیاست کو مضبوط کیا ہے۔ بھٹو خاندان کے علاوہ سندھ میں جتوئی خاندان، سید خاندان، تالپور خاندان، شیرازی خاندان، کلہوڑو خاندان، پیر پگاڑا خاندان بھی سیاست میں اپنا حصہ لینے کے دعوے داروں میں شامل ہیں۔ بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں۔ سیاسی جماعتیں نام کی حد تک وجود رکھتی ہیں۔ اچکزئی، بزنجو، رئیسانی، مری، مینگل، بگٹی، زہری، غرض کسی کا نام بھی لیں تو ان سارے خاندانوں کی سیاسی نظام پر اجارہ داری اپنے اپنے قبائلی یا نسلی خطوں میں برقرار ہے۔

پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ممالک سے کیا جائے تو امریکی کانگریس میں بھی موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد تک ہے۔ بھارت کی لوک سبھا میں 28 فیصد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لئے موروثی سیاست کی یہ شرح ناقابل قبول ہے۔ پاکستان اور ہندوستان ایک دن کے فرق سے آزاد ہوئے یہاں مسلم لیگ برسراقتدار آئی اور وہاں کانگریس۔ دونوں نے ویسٹ منسٹر طرز جمہوریت کا انتخاب کیا۔ متحدہ ہندوستان میں 550 سے زیادہ راجے مہاراجے, والی, حاکم تھے۔ ہندوستان نے 500 سے زیادہ ریاستیں پہلے پانچ سال کے اندر اندر خود میں ضم کرلیں جبکہ پاکستان کو 13 ریاستیں خود میں ضم کرنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے اور یہ سلسلہ 1969ء تک چلا۔ کانگریس نے جاگیردارانہ نظام کو نکیل ڈالنے کے لئے زرعی اصلاحات متعارف کرا کے جاگیردار کو زمیندار اور کاشتکار میں تبدیل کر دیا۔ راجے مہاراجوں کی اولادیں آج فلموں اور فیشن انڈسٹری میں نظر آتی ہیں جبکہ کچھ نے کاروبار کر لئے۔ پاکستان میں قائد اعظم کے بعد آہستہ آہستہ جاگیرداروں اور ان کے گماشتوں نے قبضہ کر لیا۔ پھر فوج اس مال غنیمت میں حصہ دار بنی اور سنہ 1989ء کی دھائی میں جنرل ضیاء کی بدولت ملا بھی شیئر ہولڈر بن گیا۔ پھر یہاں طاقت پیسے کے لئے اور پیسہ طاقت کے لئے کا راج ہوا۔ موروثی سیاست ان معاشروں میں زیادہ مضبوط ہوتی ہے جن میں جمہوری روایات پھلی پھولی نہیں ہوتی ہیں اور غیر جمہوری قوتیں گاہے بگاہے جمہوری نظام میں مداخلت کرتی رہتی ہیں۔ تاہم اب پاکستان میں ایک رجحان دیکھا جا رہا ہے کہ موروثی سیاست دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں کمزور ہو رہی ہے۔

موروثی سیاست کے اس مسئلہ کے علاوہ پرانے زمانے کی علاقائی سیاست کی روایتی مخالفتیں ابھی تک برقرار ہیں۔ پھر ذات برادری مسلک بھی اب اس عمل کا دیدہ و نادیدہ حصہ ہیں۔ گو شہروں میں روایتی دیہی سیاست نہیں ہے لیکن بڑی پارٹیاں اپنے لئے بہترین سیاسی کارکن کی بجائے بہترین وفادار کو منتخب کرواتی ہیں جو ان کے ہر اچھے برے فیصلے پر مہر لگا سکے۔ ہمارے ہاں کیونکہ کہ مسائل پہ سیاست نہیں ہوتی زیادہ تر ذاتیات پہ ہوتی ہے۔ سڑکیں، صحت، روزگار، پانی، تعلیم کی بجائے لمبے بوٹ، چھوٹے بوٹ، بڑا ہیٹ، چھوٹا ہیٹ۔ نہاری، کھد، سری پائے، قیمہ والا نان، بریانی، ہریسے اور دیسی مرغ کڑاھی پر بات ہوتی ہے۔ دوسری طرف والے سیاستدان کی شادی کے بعد شادی، کتے کی خوراک اور کنجوسی کے قصے بیان کرتے ہیں۔ لوگ مہنگائی سے مر رہے ہیں، بیروزگاری کم ہونے میں نہیں آ رہی، اس پر صحت کے معاملات قابو سے باہر ہیں۔ کچھ جاگیردار بھی اب تاجر بن چکے ہیں۔ پہلی طرز والے پارلیمانی نظام حکومت کی بات کرتے ہیں اور موخر الذکر صدارتی نظام حکومت کو ملکی مسائل کا واحد حل گردانتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں طرز حکومت آزما چکے ہیں اور دونوں ہی فیل ثابت ہو چکے ہیں کیونکہ عوام کی شمولیت برائے نام ہے۔ روزا بروکس اپنی کتاب A Dynasty is not Democracy میں کہتی ہیں کہ موروثی سیاست یا قیادت کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جبکہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سختی سے نگرانی کرے۔ اس کے علاوہ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ بنیادی جمہوری نظام یعنی قومی دولت کی بہتر تقسیم اور صنعتی ترقی بھی موروثی سیاست کو کمزور کر سکتی ہے۔ اگر پاکستانی سیاست میں بہتری کی گنجائش رکھنی ہے تو یہ واضح ہے کہ ہمیں نظام عدل کو بہترین بناتے ہوئے تعلیم، صحت اور صنعتی ترقی کو اپنا صف اول کا ٹارگٹ بنا کر کوششیں کرنی ہوں گی۔ پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ نظام حکومت پارلیمانی ہو یا صدارتی کیونکہ جو نظام حکومت بھی عامۃ الناس تک عادلانہ طریقہ سے ڈیلیور کرے گا، وہ کامیاب ہو جائے گا۔ وگرنہ جب تک بنیادی جمہوریت کا بیان کردہ نظام نہیں آئے گا، ہر دو نظام ناکام رہیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply