محمد بن سلمان اور ایران دوستی۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

سعودی عرب کی سب سے طاقتور شخصیت، ولی عہد محمد بن سلمان کا انٹرویو عربی اور بین الاقوامی میڈیا پر بہت زیادہ ڈسکس ہو رہا ہے۔ یہ واقعاً کافی دلچسپ انٹرویو ہے، جس میں وہ سعودی عرب میں جدیدیت کی طرف پیش رفت اور مذہب کے درمیان تعلق پر بات کر رہے ہیں۔ اس انٹرویو کا اصل پہلو اور میرے خیال میں جس کے لیے یہ انٹرویو دیا گیا، انٹرویو کا وہ حصہ ہے، جس میں محمد بن سلمان ایران سعودی تعلقات کی بات کرتے ہیں۔ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ مسائل کا ذکر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے خیال میں دوطرفہ مسائل ہیں۔ اس انٹرویو میں انہوں نے بظاہر ایران کو ایک پڑوسی مسلمان ملک کے طور پر دیکھا ہے۔ آل سعود کی پالیسی کیا رہی ہے؟ اس سے عالم اسلام اور مسلمانوں کو کتنا فائدہ ہوا؟ ان کی اس پالیسی نے فلسطینی قضیہ کو کس قدر نقصان پہنچایا۔؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں رہیں، ہر چیز سامنے آچکی ہے۔

اس انٹرویو میں محمد بن سلمان نے ایران کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹ بننے والے تین امور کا ذکر کیا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام سے ہمیں مسئلہ ہے، ایران کے میزائل پروگرام سے اور اسی طرح ایران کی خطے میں قائم کردہ ملیشیائیں ہمارے تعلقات میں رخنہ ڈال رہی ہیں۔ ایک آزاد تجزیہ نگار کے طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تینوں مسائل ایسے ہیں، جن کا براہ راست سعودی عرب سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ایران ایک آزاد ملک ہے اور یہ ہر ملک کا حق ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے اندر رہتے ہوئے اپنا ایٹمی پروگرام چلائے۔ اقوام متحدہ کی تمام رپورٹس ایران کے پروگرام کو ایٹم بم سے دور ایک پرامن پروگرام قرار دے چکی ہیں۔ ایسے میں ایک آزاد ملک کو ڈکٹیٹ کرنا کہ وہ اپنے جائز حق سے دستبردار ہو جائے بہت ہی نامناسب رویہ ہے۔

اسی طرح ایران کا ایک میزائل پروگرام ہے، جسے اس نے اپنی دفاعی ضروریات کے پیش نظر ڈیزائن کیا ہے۔ اس سے یہ مطالبہ کرنا کسی طور پر درست نہیں کہ وہ اسے ترک کر دے۔ بالخصوص ایران عراق جنگ کے دوران ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ایران کو جس پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اب ایران کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہے گا کہ اس پریشانی کا اعادہ ہو۔ چند دن پہلے ہی فرانس نے میزائل کے تجربات کیے ہیں، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا، حالانکہ فرانس کی تو کسی سے دشمنی ہی نہیں ہے، اس لیے ان کو تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ایک آزاد ملک کے طور پر یہ فرانس کا حق تھا، اس نے استعمال کیا۔ اسی طرح یہ ایران، سعودیہ اور خطے کے کسی بھی دوسرے ملک کا حق ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام پر تو اعتراض ہے اور اس کو روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا ہے، مگر اسرائیل کے پاس تو ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اس کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔

جہاں تک ملیشیاوں کی بات ہے، اس کے بارے میں فقط اتنا ہی کہ جس جس ملک میں آپ کے بقول یہ ملیشیا قائم ہے، ان ممالک کے ایران کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں؟ عراق، شام اور لبنان کے ساتھ تو ایران کے بہترین تعقلقات ہیں۔ حوثی یمنی قوم کا اہم ترین جزء ہیں، ان کو فقط ایک ملیشیا کے طور پر دیکھنا پرلے درجے کی سادگی ہے۔ یمن کے مسائل کو یمنیوں پر چھوڑ دینا چاہیئے تھا، وہ اپنا فیصلہ خود کر لیتے۔ جو بھی یمن کا حاکم ہوتا، آپ دیگر ممالک کی طرح اسے تسلیم کرتے۔ اس طرح معاملات بند گلی تک نہیں پہنچتے۔ معاملات کا یہاں تک پہنچنا آپ کی خارجہ پالیسی کی ناکامی اور زمینی حقائق سے عدم آگاہی کی دلیل ہے۔ آپ نے خود سے یمن کے ساتھ لگنے والا اپنا پرامن بارڈر بدامن کر دیا۔ دنیا بھر کے اسلحہ بیچنے والے آپ سے تعلقات نہیں چاہتے بلکہ آپ کے پاس موجود پیٹرو ڈالر پر نظر رکھتے ہیں۔

ایران کی طرف سے کئی بار سعودی عرب کو براہ راست مذاکرات کی دعوت دی گئی اور خطے کے مسائل کو باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا۔ یہ بھی آفر کی گئی کہ ہم کسی پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیتے ہیں۔ ہر بار انتہائی حقارت سے اس آفر کو ٹھکرا دیا گیا۔ اب ایسا کیا ہوا ہے کہ محمد بن سلمان کو ایران پڑوسی اسلامی ملک کے طور پر نظر آنے کے آثار پیدا ہو رہے ہیں؟ خطے کے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، امریکہ میں نئی حکومت کے ساتھ سعودی حکومت کے تعلقات بالعموم اور محمد بن سلمان کے تعلقات بالخصوص جمال خاشاقچی کو لے کر بہت خراب ہیں ۔بائیڈن انتظامیہ بظاہر انسانی حقوق کا نعرہ لگاتی ہے اور سعودی عرب میں انسانی آزادیوں کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ نئی انتظامیہ خطے سے جلد از جلد نکلنے کی حکمت عملی اختیار کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کا دفاعی نظام حوثی ڈرون حملوں کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے اور آج ریاض محفوظ نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حوثی ڈرونز بارڈر سے ہزار ہزار کلومیٹر سعودی سرحد کے اندر حملے کر رہے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ یمن میں سارے سعودی سکے کھوٹے نکلے ہیں اور تمام بمباریوں اور قتل عام کے باوجود حوثی و اتحادی فورسز مضبوط ہو رہی ہیں۔ پہلے سے جاری ناکامیوں میں مآرب کی ناکامی کا خوف ہی مخالف فورسز کو مارے جا رہا ہے۔ سعودی عرب کو امید تھی کہ ایران مالی دباو کو برداشت نہیں کر پائے گا اور امریکی شرائط پر مذاکرات کرے گا، مگر ایسا نہ ہوسکا بلکہ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ امریکہ ایران کی شرائط پر مذاکرات کر رہا ہے۔ ایران چین چار سو ارب ڈالر کے معاہدے نے بھی محمد بن سلمان کی سوچ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ اب ایران و چین خطے کے بنیادی پلیئر ہوں گے، جب امریکہ نکل جائے گا تو ہم خطے میں تنہا رہ جائیں گے۔ اب سعودی عرب کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ خطے کے ممالک سے تعلقات کو بڑھائے۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر محمد بن سلمان نے بیان دیا ہے، تاکہ حوثیوں سے اس کی گلو خلاصی ہوسکے۔ یہ بیان دراصل خطے کے نئے حقائق کے اعتراف کی طرف پہلا قدم ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply