ناڑہ نگاری۔۔۔ معاذ بن محمود

حال ہی میں ایک رطب چوس مولانا برائے فروخت کے عمل سے ثابت ہوا کہ انسان اپنے ناڑے سے پہچانا جاتا ہے۔ پچھلے وقتوںمیں اس بیان میں پنہاں حکمت و دور اندیشی تک رسائی حاصل نہ کرنے کا آج تک قلق ہے۔ آج تک یوں کہ یہ قلق کچھ دیر پہلے اپنےمنطقی عدم کو پہنچا کہ مذکورہ بالا مولانا رطب چوس برائے فروخت کے ناڑے دیوار پریہاں پیشاب کرنا۔۔۔ ہےجس کامنعمٹایا جا چکا ہو، کی طرح عام  بکھرے پڑے ہیں۔

احباب ذی شعور کی جانب سے ناڑہ برائے فروخت کی اس کیمپین کا ٹھٹھ اڑانا باچیز کی سمجھ سے باہر ہے وجہ جس کی ان ناڑوں کانہایت ہی فضیلت و برکت سے بھرپور ہونا ہے۔ جانے کون سے خبیث شاعر یہ کاروائی ڈال گئے ہیں کہ۔۔۔

یہاں تو شلوار بھی ہے نوٹوں ہی کی پروردہ

یہ ناڑے چوک میں بکتے تو بدصورت نظر آتے

مزید برآں۔۔۔

عملسے زندگی بنتی ہے نیازی بھی جج ارشد بھی

یہ ناڑہ اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

تو صاحبو۔۔۔ یہ ناڑے جسے آپ معتوب ٹھہرانے کے درپے ہیں، یقین ماننے انتہاء سے زیادہ کرامات کے حامل ہیں۔ ناڑوں کونظرانداز کرنے والے ویسے بھی دیسی لاسٹک اور بدیسی بیلٹوں کے شکار ہوتے ہیں جن کا مسئلہ یہ ہے کہ اوّل الذکر حفاظتی اعتبارسے ناقابل بھروسہ تو مؤخر الذکر کافر انگریز کا مستعمل ہونے کے باعث مردود۔ ناڑہ بدن پہ عین کمر کے گرد حمائل ہونے پر تسکین ملنےوالی اشیاء میں آج بھی دوسرے نمبر پر ہے۔ اہلِ ایماں و غیر ایماں کے یہاں پہلا نمبر بدستور تخیلِ عفیفہ محترمہ میا خلیفہ مد ظلعلیہا کے پاس ہے۔

باچیز دلائل سے ثابت کر سکتا ہے کہ ناڑے انسانی تہذیب کے عروج و زوال کے جملہ نمائیندگان میں سے ایک ہیں۔ مثلاً تہذیبکے ارتقاء میں بدتہذیبی کا ایک مقام ایسا بھی گزرا جہاں انسان ناڑے کے استعمال سے ناواقف تھا۔ تب ہر فرد ہلتا ہلاتا ادھر سےادھر لپکتا پھرتا تھا۔ پھر حضرت انسان کو لباس کی سوجھی۔ ناڑے کے عدم میں تلبیسِ انسانی مکمل طور پر غیر فعال رہی۔ پھرروئے زمین پر ناڑے قدم رنجہ ہوتے ہیں اور یہاں سے انسانی تہذیب انگڑائی لیتی ہے۔ تمدنِ اسلامی کے عروج پر ناڑے پرشکنبستر پر بے خوابی کو پیچھے چھوڑ کر کھڑی ہونے والی دوشیزہ کی طرح اپنی جوانی کے جوبن پر تھے۔ ان کا استعمال عام تھا۔ اسلامیمعاشرے میں کوئی غلطی سے بھی ناڑے کا متبادل ڈھونڈتا تو ہر شخص بے ساختہابے چریا ہوگیا ہے کیا؟کی صدا لگاتا ایک بھرپورصداءِ اختلاف بن جایا کرتا۔ ناڑوں کا یہ رواج تہذیب و تمدن کا نمائیندہ رہا حتی کے انگریز اپنی جملہ نجاسات کے ساتھ اسلامیتشخص پر حملہ آور نہ ہوگیا۔ آج جب انگریزی پتلون تہذیب کو انسان کی پاتال میں پہنچا چکی ہے، ناڑے بھی معاشرے سے اٹھائےجا رہے ہیں۔ گویا ناڑوں کا عروج تہذیب کا عروج، ناڑوں کا زوال تمدن کا زوال۔ اللہ اللہ!

ناڑے انسان کا وقار ہیں۔ ناڑے فرد کی حیاء ہیں۔ اسی کلیے کی بنیاد پر پتلون پہننے والا بے وقار و بے حیاء ٹھہرتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا توبھلا کیونکر رطب چوس مولانا برائے فروخت انگریزی بیلٹوں کی تشہیر کیوں نہ کرتے؟ یاد دہانی کرواتے چلیں کہ مولانا ہمارے لیےحجت ہیں۔

ناڑے کا کس کے بندھا ہونا ایک خوبصورت انسانی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈھیلے ناڑے والوں کے بارے میں عوام الناس کیرائے غیر مقبول مگر عام ہے۔ ہمہ وقت کسے ناڑے انسان کے عاقل ہونے کی برہان ہوا کرتے ہیں کہ زبان عام نہیں ہو پاتے۔غافل ناڑے غافل انسان کی نشاندہی کیا کرتے ہیں۔

ناڑے کو منکسر مزاج شخص کا زیور جاننا چاہئے۔ باچیز اس نتیجے پر یوں پہنچا کہ ہر وہ شخص جو گھر گرہستی میں اپنی ہستی بھلا چکا ہو،اپنے رنگ برنگی ناڑے کی جھلک دکھا کر اپنا عجز و انکسار دکھایا کرتا ہے۔ ابھی کل ہی میری نظر سے ایک ناڑہ فروش گزرا جو اپنیمارکیٹنگ آپ کی تابندہ مثال تھا۔ ناڑہ فروش کے قمیض کے دامن سے نیچے جھلکتا سرخ، سفید، سنہری، عنابی پھولوں سے مزین ناڑہگھٹنوں کے قریب سے محوِ کلام ہر شخص کوآئی تاکرتا نظر آیا۔ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کا حکم ہے، پھر اپنے ناڑے خود بیچتےہوئے خود ہی ماڈل بن جانا ہی کیوں نہ ہو۔ اس اصول کے تحت ممکن ہے رطب السان مولانا برائے فروخت بھی عنقریب اپنےناڑوں کے اشتہار میں ماڈل بنے نظر آئیں؟ واللہ اعلم بالصواب۔

باچیز خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہے کہ اب سے پینتیس دقائق قبل ایک عدد امتحان کی تیاری میں مگن تھا۔ اچانک فیس بک کیدیوار پر نظر پڑی جو ایسی ناڑوناڑ ہوئی پڑی تھی کہ باچیز ناڑہ نگاری کی شدید ترین تحریک کے ہاتھوں مجبور ہوچلا۔ قلم اور ناڑے کارشتہ جنم جنم پر محیط ہے۔ اس رشتے کی ایک نئی جہت ناڑہ فروشی کی ایک حالیہ مہم کے بعد نوعِ انسانی پر واجب تھی۔ صنفِ ناڑہنگاری کی ادنی سی کاوش اس تحریر کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ آپ چاہیں تو تبسم بکھیر دیجیے، چاہیں تو خرافات کے زمرےمیں ڈال دیجیے۔

انسان کے بس میں فقط کوشش ہی ہے، پھر وہ ناڑہ نگاری ہی کی کیوں نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وما علینا الا البلاغ

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply