• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • معاہدہ کراچی !تاریخ گلگت بلتستان کا ایک سیاہ باب(1)۔۔اشفاق احمد ایڈووکیٹ

معاہدہ کراچی !تاریخ گلگت بلتستان کا ایک سیاہ باب(1)۔۔اشفاق احمد ایڈووکیٹ

گلگت بلتستان کی جغرافیائی حدود شمال میں چین کے صوبے Xinjiang , مشرق میں انڈیا کے زیر کنٹرول جموں اینڈ کشمیر اور جنوب میں پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور مغرب میں واخان کوریڈور کے زریعے افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے ملتی ہیں ۔
گلگت بلتستان کی اہم جیو سٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے ہی اسے گیٹ وے آف ایشیاء بھی کہا جاتا ہے۔ اس لئے یہ علاقہ ماضی میں گریٹ گیم کا مرکز اور بیرونی تسلط اور جارحیت کا شکار رہا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان 1846 سے لیکر 1947 تک سابق شاہی ریاست جموں و کشمیر اور تاج برطانیہ کی ایک کالونی رہی ہے مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر کی نوآبادیات کو آزادی ملی وہاں گلگت بلتستان میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ یکم نومبر انیس سو سینتالیس کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں اس خطے سے ڈوگرہ حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ اس وقت ممکن ہوا جب کشمیر میں جاری جنگ سے فایدہ اٹھاتے ہوۓ 31 اکتوبر 1947 کو گلگت اسکاؤٹس نے مہاراجہ ہری سنگھ کے گلگت بلتستان میں تعینات گورنر برگیڑئیر گھنسارا سنگھ کے گھر کا محاصرہ کیا اور یکم نومبر 1947 کو گورنر برگیڑئیر گھنسارا سنگھ نے ہتھیار ڈال دیے اور گلگت بلتستان میں آزادی کا اعلان کیا گیا مگر مقامی قیادت نے خود ہی 16 نومبر 1947 کو تمام تر اختیارات پاکستان سے بھیجے گئے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ محمد عالم کو حوالہ کیا ، جس سے مزید قانونی جواز مہیا کرنے کے لئے 28 اپریل 1949 کو کشمیری قیادت نے معاہدۂ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول حکومت پاکستان کے حوالہ کیا۔
چونکہ معاہدہ کراچی ایک قانونی دستاویز ہے اس لیے اس دستاویز کو سمجھنے کے لئے اس میں شامل نکات کا جایزہ لینا لازمی ہے۔ یہ معاہدہ 28 اپریل 1949 کو حکومت پاکستان ,حکومت آزاد کشمیر اور ال جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے درمیان طے پایا۔
اس معاہدہ میں حکومت پاکستان ,حکومت آزاد کشمیر اور ال جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے درمیان تقیسم کار کی تفصلات اس طرح درج ہیں۔
(حصہ الف) حکومت پاکستان کے دائرہ کار کے اندر معملات کل آٹھ ہیں جوکہ مندرجہ زیل ہیں۔
¹۔دفاع ۔² آزادکشمیر کی خارجہ پالیسی ,
³۔اقوام متحدہ کی کمیشن براۓ ہندوستان و پاکستان (UNCIP) کے ساتھ مذاکرات۔
4۔ پاکستان اور بیرونی ممالک میں تشہیر کے معاملات۔
5۔ مہاجرین کی آبادکاری اور امداد کے انتظامات میں باہمی ربط۔
6۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی راۓ شماری کے سلسلے میں تشہیر میں باہمی ربط ۔
7۔ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے اندر مختلف اقدامات جیسے خوراک کی فراہمی سول سپلائی ٹرانسپورٹ مہاجرین کے کمپوں کا قیام اور طبی امداد وغیرہ ۔
8۔ پولیٹیکل ایجنٹ کے زیر انتظام گلگت بلتستان اور لداغ کے تمام معاملات۔
(ب)آزاد کشمیر حکومت کے زیر اختیار معاملات۔
¹- آزاد کشمیر کے علاقے کی انتظامیہ کے متعلق پالیسی۔
²-علاقہ آزاد کشمیر میں انتظامیہ کی عمومی نگرانی۔
³-آزاد کشمیر حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی کی تشہیر ۔
4-عزت مآب وزیر بے محکمہ ( حکومت پاکستان ) کو اقوام متحدہ کے کمیشن UNCIP سے مذاکرات کے بارے میں مشورہ۔
5-آزاد کشمیر کے علاقے میں اقتصادی وسائل کی ترقی۔
(ج)ال جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے زیر اختیار معاملات ۔
¹- علاقہ آزاد کشمیر میں راۓ شماری کے بارے میں تشہیر۔
²-ریاست کے ہندوستانی مقبوصْہ علاقے میں سرگرمیاں اور تشہیر۔
³- ریاست کے ہندوستانی مقبوضہ علاقے اور آزاد کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کو منظم کرنا۔
4-راۓ شماری کے بارے میں ابتدائی انتظامات۔
5- راۓ شماری کے انعقاد کو منظم کرنا۔
6-پاکستان کے اندر آباد کشمیری مہاجرین میں سیاسی سرگرمیاں اور تشہیر ۔
7- عزب مآب وزیر بے محکمہ حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ کی کمیشن براۓ انڈیا و پاکستان یعنی( UNCIP) سے مذاکرات کے بارے میں مشاورت مہیا کرنا ۔
اس معاہدے پر 28 اپریل 1949کو بمقام کراچی ان تین فریقین نے دستخط ثبت کئے ہیں جن میں غلام عباس صدر ال جموں کشمیر مسلم کانفرنس , مشاق آحمد گورمانی وزیر بےمحکمہ حکومت پاکستان اور محمد ابراہیم خان صدر حکومت آزاد کشمیر شامل تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں گلگت بلتستان کا کوئی بھی نمائندہ شامل نہیں تھا۔
جس کی تصدیق سپریم کورٹ اف پاکستان نے 19جنوری 2019 کو سول ایوی ایشن اتھارٹی بنام سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان وغیرہ نامی کیس کے فیصلے کے پیراگراف نمبر 14 میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سات رکنی بینچ کیا اور معاہدہ کراچی کے بارے میں یہ لکھا:
“On 28th April 1949, 0fficials of the Pakistan Government met those of AJK Government to ink the Karachi Agreement۔
Under this Accord, it was agreed that the affairs of Gilgit Baltistan would be run by the Pakistan Government۔
It appears that no leaders from Gilgit was included in this Agreement۔”
سپریم کورٹ کے تصدیق کے بعد اس پر مذید بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ یہ ایک قانون دستاویز ہے جس میں گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا۔
گذشتہ کئی سالوں سے گلگت بلتستان کی وکلاء برادری، سیاسی قائدین بشمول سیاسی کارکنوں میں معاہدہ کراچی کے بارے میں ایک قانونی و سیاسی بحث جاری ہے کہ کس طرح کشمیر کے نمائندوں نے گلگت بلتستان کے عوام کی مرضی کے بغیر ان کے مستقبل کا سودا کیا اس لئے گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی اکثریت اس معاہدے کو گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب سمجھتی ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 22 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست پر قبائلی لشکر کشی کی وجہ سے پاکستان انڈیا میں کشمیر پر پہلی جنگ چھڑ گئی اور قبائلی لشکر نے ریاست جموں و کشمیر کے جن علاقوں پر قبضہ کیا انہیں 24 اکتوبر 1947 کو ریاست آزاد جموں و کشمیر کا نام دیا گیا اور حکومت پاکستان نے حکومت آزاد کشمیر کو ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کیا چنانچہ بعد ازاں معاہدہ کراچی طے پایا۔
دوسری طرف اس جنگ کے نتیجے میں مہاراجہ ہری سنگھ بھاگ کر انڈیا گیا اور بھارت کے ساتھ الحاق نامے پر مشروط طور پر دستخط کیا تو اس وقت کے انڈین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس الحاق نامے کو جواز بنا کر اقوام متحدہ میں درخواست دائر کیا۔ نتیجتاً اقوام متحدہ نے 13 اگست 1948 کی قرارداد پاس کر کے ریاست جموں کشمیر بشمول ناردرن ایریاز (گلگت بلتستان)کو متنازع علاقہ قرار دیا تھا
جس کی تصدیق کرتے ہوۓ سرتاج عزیز کمیٹی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ریفرنسز کا حوالہ دیتے ہوۓ پیرگراف 31 کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ
31۔The UNCIP ,vide their resolution dated 13th August 1948 and 5th january 1949,had included the Northern Areas in the State for the purpose of over all plebiscite۔
32۔(a) The third interim report of the UNCIP categorically refers to Pakistan,s unchallenged military control over the Northern Areas administered by Local Authorities with the assistance of Pakistan Officials۔
سرتاج عزیز کمیٹی رپورٹ کے پیراگراف 24 میں UN یفرنسز کا حوالہ دیتے ہوۓ ناردرن ایریاز کی لوکل اتھارٹی کی بابت لکھا گیا ہے جو قارئین کے لیے تیار ریفرنس کے طور پر پیش ہے۔
24۔On 26th April 1949 the government of Pakistan submitted the commission a paper dealing with the geography, communications, and economic conditions of Northern areas۔ The paper inter alia explained that from the beginning of November 1947, responsibility for the administration of the area was being effectively discharged by the Local Authorities۔ Hence there was no basis, whatsoever, for the Prime Minister of India,s contention that Maharaja,s authority over this region was as a whole has not been challenged or disrupted۔
اس طرح یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ 27جولائی 1949 کو پاکستان اور انڈیا کے فوجی نمائندوں نے اقوام متحدہ کے مبصرین کے ساتھ کراچی میں ٹروس ایگریمنٹ پر دستخط کئے۔
جس میں سیز فائر لائن کو بیان کیا گیا۔ اسی سیز فائر لائن کے نتیجے میں باضابطہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کیے گئے۔
اس طرح گلگت ایجنسی بشمول بلتستان اور آزاد کشمیر پر پاکستان کی کنٹرول تسلیم کیا گیا جبکہ انڈیا نے اسی دوران لداخ ، پونچھ کا ایک حصہ اور بقیہ کشمیر کے سارے حصے پر قبضہ کر لیا۔
مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ستر سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی خطہ گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئین میں شامل نہیں کیا گیا نہ ہی اس خطے کو پاکستان کی پارلیمان میں نمائندگی حاصل ہے نہ اس خطے کے عوام کے حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے عام طور پر یہ علاقہ سر زمین بےآئین کہلاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام اپنی محرومیوں کا ذمے دار وفاق پاکستان کے ساتھ کشمیری قیادت کو بھی سمجھتے ہیں چونکہ گلگت بلتستان کے انتظامی کنٹرول کو کشمیری قیادت نے 28 اپریل 1949 کو معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان کے حوالہ کیا تھا جبکہ معاہدہ کراچی میں گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ موجود ہی نہیں تھا اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ یہ دستاویز آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام میں دوری ، نفاق اور عدم اعتماد پیدا کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔
گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق سے محرومی کے باعث پائی جانے والی اضطرابی صورت حال کے بارے میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایشیا رپورٹ نمبر 131 بتاریخ دو اپریل 2007 میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کی آزادی سے قبل ناردرن ایریاز سابق شاہی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھے اور یہ خطہ اس وقت برٹش انڈیا کا ایک اہم سٹریٹجک ناردرن فرنٹیئر کہلاتا تھا۔
اگرچہ اس ریجن نے مہاراجہ آف کشمیر ہری سنگھ کے خلاف کامیاب بغاوت کی اور اس دور میں گلگت بلتستان کی آزادی کے سرکردہ شخصیات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کی مگر پاکستان نے اپنی کشمیر پالیسی کے مدنظر پورا زور لگا کر گلگت بلتستان کو متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا اور مسئلہ کشمیر کے حل سے قبل گلگت بلتستان کو کشمیر سے جدا کرنا ریاست پاکستان کے قومی مفاد کے خلاف قرار دیا۔ حالانکہ ناردرن ایریاز کی طرح آزاد کشمیر کو بھی متنازع ریاست جموں اینڈ کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ہے جس کے بابت پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 میں لکھا گیا ہے:”جب ریاست جموں اینڈ کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے۔”
مگر ناردرن ایریاز کے برعکس آزاد کشمیر کو حکومت پاکستان نے کم از کم براے نام ہی سہی داخلی خودمختاری اور ایک آئین بھی دیا ہے جبکہ دوسری طرف گلگت بلتستان کو معاہدہ کراچی کی بنیاد پر مختلف ایل ایف اوز اور آرڑرز کے ذریعے چلایا جاتا رہا اور اس خطے کے عوام کو سیاسی اور سول رائٹس سے محروم رکھا گیا ہے”۔
معاہدہ کراچی چونکہ ایک قانونی دستاویز ہے جو درحقیقت ریاست آزاد کشمیر اور ریاست پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ عمرانی ہے جس کے تحت آزاد کشمیر نے اپنے حقوق کی گرانٹی حاصل کیا ہے جبکہ دفاع کرنسی فارن افیئرز کمیونیکشن کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر راۓ شماری کے معاملات بشمول گلگت بلستان کی انتظامی کنٹرول حکومت پاکستان کے حوالہ کیا ہے اور دیگر معاملات میں اپنی داخلی خود مختاری کو یقینی بنایا ہے۔
کہا جاتا ہے اس دور کے تاریخی اور معروضی حالات کی وجہ سے معاہدہ کراچی کی ضرورت پڑی تھی چونکہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق نامہ پر دستخط کیا تھا جس کی وجہ سے ہندوستان پوری ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور اسی دعوعی کی بنیاد پر انہوں نے نہ صرف اقوام متحدہ سے رجوع کیا بلکہ اسی بنیاد پر انہیں کشمیر میں اپنی افواج اتارنے کا جواز بھی ملا ہے۔
دوسری طرف حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر کو ایک آزاد ریاست ڈیکلیر کر کے جواز پیدا کیا کہ اسے کشمیر میں مداخلت کی اجازت حکومت آزاد کشمیر نے دیا ہے معاہدہ کراچی کی رو سے گلگت بلستتان کی انتظامی کنٹرول بھی آزاد کشمیر سے حاصل کیا ہے۔
معاہدہ کراچی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آزاد کشمیر حکومت اور مسلم کانفرنس نے پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ اس لئے کیا تھا کیونکہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے۔
ان کے خیال میں یہ الحاق استصواب رائے کی صورت میں فوری طور پر متوقع تھا, اس لئے اس معاہدے کی رو سے حکومت آزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس نے گلگت بلتستان کا مکمل کنٹرول وفاق پاکستان کے حوالے کیاجس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کشمیر اور گلگت بلتستان میں زمینی رابطہ کمزور تھا اس لیے گلگت پر پاکستان بذریعہ پشاور یا راولپنڈی آسانی سے کنٹرول کر سکتا تھا اور اس طرح اس علاقے پر انڈیا کے ممکنہ قبضہ کی کوشش کو روکنا آسان ہو جاتا۔ چونکہ دستاویز الحاق نامے کی رو سے انڈیا اس خطے پر بھی دعویٰ دار ہے ۔
اگرچہ بعد کے ادوار میں آزاد کشمیر کی قیادت نے گلگت بلتستان کو دوبارہ اپنے زیر کنٹرول لانے کی کئی بار کوششیں کی، مثال کے طور پر سال 1972 میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے اس بابت ایک قرارداد بھی پاس کی جبکہ آزاد ریاست جموں و کشمیر کے عبوری دستور 1974 میں بھی گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق سپیکر مرحوم ملک مسکین کی دائر کردہ کیس میں1992 میں ایک تاریخی فیصلہ دیا اور معاہدہ کراچی کو عارضی قرار دیکر ختم کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دے کر آزاد کشمیر حکومت کو ناردرن ایریاز کا انتظامی کنٹرول وفاق پاکستان سے اٹھانے کا حکم بھی دیا۔PLD1993-page1۔
مگر آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر ناردرن ایریاز پر پاکستان کے انتظامی کنٹرول کو درست اور قانونی قرار دیا ہے۔
گلگت بلتستان میں معاہدہ کراچی پر دو طرح کی راۓ پائی جاتی ہے ایک مکتبہ فکر کا یہ ماننا ہے کہ معاہدہ کراچی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس مکتبہ فکر میں زیادہ تر سرکاری دانشور شامل ہیں جو درحقیقت بین الاقوامی قانون سے نابلد ہیں۔
اس لیے ان کی اکثریت عام طور یہ دلیل دیتے ہیں کہ کہ ہمارے اباو اجداد نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے لہذا معاہدہ کراچی کی کوئی اہمیت نہیں اس لیے ہم اسے نہیں مانتے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مکتبہ فکر کے نمایندوں کی گلگت بلتستان اسمبلی ہمیشہ سے اکثریت رہی ہے مگر آج تک ان میں سےکسی ایک ممبر نے بھی گلگت بلتستان اسمبلی میں معاہدہ کراچی کے خلاف ایک بھی قرارداد پیش نہیں کیا ہے۔
نہ ہی وہ عوام کو اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون میں کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور الحاق کون کر سکتا ہے؟
اگر ہمارے اباواجداد نے الحاق کیا تھا تو پھر گلگت بلستان کی انتظامی کنٹرول آزاد کشمیر سے لینے کی نوبت کیوں پیش آئی؟ اور ہمیں اقوام متحدہ کی نگرانی میں راۓ شماری کے لیے مسئلہ کشمیر میں کیوں شامل کیا گیا؟
اور پھر سپریم کورٹ اف پاکستان نے اپنے سترہ جنوری 2019 کے فیصلہ میں گلگت بلتستان کو متنارعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ کیوں قرار دیا؟
مثال کے طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے تاریخی فیصلہ کے پیراگراف نمبر 13میں واضح طور پر لکھا ہے کہ
13: As noted, Pakistan has responsibilities in relation to two regions AJK and Gilgit Baltistan۔ In 1948 UNCIP recognized the establishment of local authorities (as distinct from the government of Pakistan) for the territories۔
We are of course have concerned with Gilgit Baltistan alone۔
The region has not been incorporated in Pakistan as it is considered to be part of the disputed state of Jammu & Kashmir۔
However, it has always remained completely under Pakistan,s administrative control۔
عام طور پر ان بنیادی سوالات سے یہ مکتبہ فکر اکثر انکھیں چراتا ہے اور جوابا الزام تراشی پر اتر آتا ہے۔
معاہدہ کراچی پر دوسرا نقطہ نطر گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کا ہے جن میں سے اکثریت معاہدہ کراچی کو گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب سمجھتے ہیں اور ہر سال 28 اپریل کو معاہدہ کراچی کی مذمت کرتے ہوئے معاہدہ کراچی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور آزاد کشمیر طرز کے سٹ اپ کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا موقف ہے کہ جب تک اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مسئلہ کشمیر پر راۓ شماری نہیں ہوتی ہے گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کا سٹ اپ دیا جاۓ جو کہ لوکل اتھارٹیز کی صورت میں ایک بہترین حل ہے
اس مکتبہ فکر کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے نہ کہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے
کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ڈوگرہ فوج نے تاج برطانیہ کے ساتھ مل کرجنگ وجدل کے ذریعے گلگت بلتستان پر قبصْہ کیا تھا لیکن ایک طویل عرصہ کی جدوجہد کے بعد بلاآخر ان کے آباواجداد نے یکم نومبر 1947 کو اپنی مدد اپ کے تحت ڈوگرہ حکومت سے آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیا تھا اور تب سے لیکر آج گلگت بلتستان میں ڈوگرہ حکومت کا کوئی نام نشان باقی نہیں رہی ہے البتہ انہیں مسئلہ کشمیر میں الجھایا گیا ہے اس لیے تنازع کشمیر میں پاکستان , انڈیا , کشمیریوں کے بعد وہ خود کو مسئلہ کشمیر کا چوتھا فریق سمجھتے ہیں۔
مختصر یہ کہ اس پس منظر میں قانونی اعتبار سے دیکھا جاۓ تو معاہدہ کراچی ایک قانونی دستاویز ہے جو آج تک نافذ العمل ہے لہذا جب تک معاہدہ کراچی کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک گلگت بلستان اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ عمرانی کے لیے راستہ ہموار نہیں ہوسکتا ہے
لہذا معاہدہ کراچی کے متعلق اگر ایک جملے میں یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ معاہدہ کراچی نے گلگت بلتستان کی قومی وقار کو اس طرح مجروح کیا ہےجس طرح معاہدہ ورسیلز نے جرمن قوم کے وقار کو مجروح کیا تھا ۔
اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی بھی قوم کسی ایسے معاہدے کے لئے اپنا خون نہیں بہاتے ہیں جن میں ان کی مرضی و منشا شامل نہیں ہوتی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply