عراق میں یہودیوں کی تاریخ۔۔منصور ندیم

پچھلے ماہ عراق کے دارالحکومت بغداد شہر میں انتقال کرجانے والے ڈاکٹر ظافر الياهو کی موت سے عراق میں یہودی کمیونٹی کو خاصا صدمہ ہوا ہے، وہ باوجود یہودی ہونے کے ہر طبقہ مذہب میں مقبول تھے، وہ نہ صرف ضرورت مندوں کا مفت علاج کرتے تھے بلکہ کہ ان کے گزر جانے کے بعد اب عراق میں صرف چار یہودی باقی رہ گئے ہیں، عراق میں عراقی شہریت والے اب صرف چار یہودی ایسے ہیں جو یہودی والدین کی اولاد ہیں۔ اس میں کردستان کے خود مختار علاقے شامل نہیں ہیں۔ وہاں بھی کچھ یہودی آباد ہیں۔ ڈاکٹر ظافر الیاھو کو دارالحکومت بغداد میں سابقہ حکمران صدام حسین کے تعمیر کردہ یادگار شہدا اور شیعہ مزاحمت کاروں کے گڑھ وسط شہر کے درمیان واقع حبیبیہ نامی یہودیوں کے قبرستان میں دفنایا گیا ہے۔

آج کے عراق میں یہودیوں کا بغداد میں عبادت کرنا شاذ و نادر ہی دکھائی دیتا ہے، ویسے آج بھی یہاں ان کی ایک عبادت گاہ ہے اور یہ عبادت گاہ بھی کبھی کبھار ہی کھلتی ہے اس میں کوئی ربی بھی موجود نہیں ہے۔ لیکن آج سے تقریبا ۷۰ برس قبل عراق میں حِلہ شہر کے بابل علاقے میں عرب مسلمان، آتش پرست اور یہودی میل جول اور آپسی بھائی چارے کے ساتھ خوش و خرم آباد تھے. بعد ازاں یہودیوں کے اسرائیل ہجرت کرنے سے قبل عراق میں ان کے یہ گھر انتہائی شاندار اور آشائش سے پر تھے، لیکن آج ان کی ویرانی دیکھ کر برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آتی ہیں۔ کیونکہ عراق میں یہودیوں کی جڑیں کچھ تاریخی روایات کے مطابق ۲۶ سو سالہ قدیم ہیں اور کچھ روایات کے مطابق ۲۰۰۰ سال سے زائد ہیں (وقت کا تعین نہیں، مگر حضرت عیسی علیہ السلام سے قبل کے زمانے سے ہیں)٫ یہودیوں کی آمد عیسائی مذہب کی مقدس کتاب بائبل کی روایات کے مطابق

“بابل کے بادشاہ بخت نصر دوم نے اپنی افواج کے ساتھ یروشلم پر حملہ کیا ٹھا، جب رومیوں کی افواج نے یہودیوں کے شہر ‘یروشلم’ پر حملہ کرکے پورے شہر کو تباہ کر دیا تو اس دوران وہاں رہنے والے کچھ یہودیوں کو رومی افواج نے ہلاک کر دیا اور کچھ یہودی یروشلم چھوڑ کر دوسری جگہوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے، اور یہاں کچھ مقامی یہودیوں کو ۵۸۶ قبل مسیح میں قیدیوں کی حیثیت سے غلام بنا کر بغداد لائے تھے، رومیوں نے اس حملے کے دوران حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کیا گیا عبادت خانہ “ہیکل سلیمانی” (Temple of Solomon) بھی مسمار کر دیا تھا, جس کا محض ایک حصہ بچ گیا جو آج بھی محفوظ ہے، جسے آج “دیوار گریہ” کے نام سے ہم جانتے ہے۔ ہیکل سلیمانی (Temple of Solomon) کی اس محفوظ مغربی دیوار کو دیوار گریہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب یہودیوں کے نزدیک ان کے مقدس عبادت گاہ کا چونکہ اب ایک ہی حصہ محفوظ ہے، اور اس کے علاوہ ان کے پاس اب کوئی نشانی نہیں تو اسی غم میں یہودی اس دیوار سے اپنے پیشانی کو لگا کر گریہ و زاری کرتے ہیں، اور اپنی اس مقدس عبادت گاہ کے تباہی کا ماتم بھی مناتے ہیں۔

آج کے ملک اسرائیل کے قیام سے قبل تک یہودیوں کی آبادی بہت کم لیکن پوری دنیا میں اسی وجہ سے پھیلی ہوئی تھی کہ انہیں اس وقت یروشلم چھوڑنا پڑا تھا۔ اور اسی عہد سے بابل میں قیدی بنا کر لائے جانے والے یہودیوں کی آبادی قائم تھی، اور پھر ۲۵۰۰ سال کے بعد (یعنی سوسالہ پہلے تک) یہودی بغداد کی دوسری بڑی کمیونٹی Babylonian Jews بن گئے جو شہر کی کل آبادی کا ۴۰٪ حصہ بن گئے تھے۔ گزرے زمانوں کے ساتھ ان یہودیوں میں سے بعض نے عراقی معاشرے میں اعلی مقام بھی پایا جیسے ساسون اسکل جو سنہء ۱۹۲۰ میں عراق کے پہلے وزیر خزانہ تھے۔ ان کا تعلق بھی یہودی مذہب سے تھا۔

عراق میں یہودی تاریخ کا اہم موڑ بیسویں صدی کے وسط میں آیا، سنہء ۱۹۴۱ میں جب بغداد میں الفرھود نامی (Farhud pogrom of 1941) قتل عام ہوا اس میں ۱۰۰ سے زائد یہودی جان کی بازی ہارے۔ ان کی جائیدادیں لوٹ لی گئیں اور گھروں کو تباہ کر دیا گیا تھا، سنہء ۱۹۴۸ میں اسرائیل وجود میں آیا۔ سنہء ۱۹۴۸ میں اسرائیل کے قیام کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر اسرائیل میں آباد کیا جانے لگا، اسی دوران عراق میں بھی ہزاروں کی تعداد میں رہنے والے یہودی تقریبا ۲۰۰۰ سالوں کے بعد اپنے قدیم وطن یروشلم کے چھوڑنے کے ایک بار پھر عراق سے ایک لاکھ پچیس ہزار سے زائد یہودیوں کو سنہء ۱۹۵۱ اور ۱۹۵۲ کے درمیان ایران اور یونان کے راستوں سے اسرائیل منتقل ہوئے۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اسرائیل کے قیام کے بعد عراق سے یہودیوں کے خاندان جب اسرائیل جا کر آباد ہورہے تھے، اور ۹۶ فیصد یہودی کمیونٹی تقریبا عراق چھوڑ کر چلی گئی لیکن اس وقت بھی عراق کے تقریبا ۶۰۰۰ یہودیوں نے اسرائیل جانے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ انہوں نے عراق ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہجرت کرجانے والے یہودیوں کے عراق سے جانے کے بعد عراقی حکومت نے ان کے گھروں اور دیگر جائیداد کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور ان کی جائیدادیں اور گھروں کو حکومت کی منظوری کے بغیر نہ ہی فروخت کیا جا سکتا تھا نہ ہی منتقل کیا جا سکتا تھا۔

بد قسمتی سے اسی دوران “عرب سوشلسٹ بعث پارٹی” (Arab Socialist Ba’ath Party) کے اقتدار میں آنے کے بعد عراق میں رہ جانے والے تقریبا تمام یہودیوں کو انتقام کے طور پر قتل کر دیا گیا تھا، ان خاندانوںکو ان کے گھروں میں بد ترین اذیتیں دی جاتی تھیں کہ یہاں تک وہ ہلاک ہوجاتے، عراق سے اسرائیل جانے والے یہودیوں نے اپنے پیچھے سسکیاں اور آہیں بھرتی درودیوار کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ان سے منہ موڑ لیا تھا عراق میں آج بھی ان کے گھروں کے اندرونی اور بیرونی حصے انتہائی بوسیدہ ہوجانے کے بعد بھی ان کے مکینوں کی یادیں اور داستانیں آج بھی زندہ ہیں۔

وقت بدلا اور صدام حسین جو عراق کے صدر تھے، ان پر امریکا بہادر اور اتحادیوں کے حملے نے عراق کو اجاڑ دیا، سنہء ۲۰۰۳ میں جب سقوط بغداد کے بعد وہاں پر امریکا نے اپنا سفارت خانہ کھولا تو اس وقت سے ہی اسے نیم یہودی سفارت خانہ قرار دیا جانے لگا۔ اس کی ایک وجہ اسرائیل اور یہودیوں کی عراق میں براہ راست مداخلت تھی جسے امریکا کی در پردہ حمایت حاصل تھی۔ اسرائیل میں یہودی آثار قدیمہ کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم “العاد” جو عراق سے تاریخی نوادرات کی اسرائیل منتقلی کو ملت یہود کا حق سمجھتے تھے اسرائیلیوں نے عراق میں محفوظ یہود کے نوادرات کو مصلوب کئے جانے والے صدر صدام حسین کے عہد میں بھی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے یہ نوادرات اسرائیل کو دینے سے انکار کر دیا تھا۔

لیکن جب سنہء ۲۰۰۳ میں عراق پر یلغار کرنے والی امریکی فوج نے بغداد کے اس تاریخی میوزیم پر بھی قبضہ کرلیا تھا جس میں یہودیوں سے متعلق تاریخی نوادر رکھے گئے تھے۔ امریکہ عراق کے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ہیڈکوارٹرز میں محفوظ ان سیکڑوں نایاب تاریخی اشیاء کو واشنگٹن لے گئے کہ وہاں ماہرین آثار قدیمہ نے ان کی چھان بین کریں گے، اسی دوران اسرائیلی حکومت اور العاد تنظیم کے اشتراک سے اسرائیل کے شہر تل ابیب میں ۳۰ لاکھ شیکل کی لاگت سے ایک میوزیم قائم کیا جارہا تھا، کہ عراق سے امریکا منتقل کیے جانے والے یہودی نوادرات کو اسرائیل کے حوالے کیا جا سکے۔ ان میں توراۃ اور تلمود کے قدیم ترین نسخوں کے علاوہ ۳ ہزار خفیہ دستاویزات اور ۱۷۰۰ دیگر نایاب تحائف شامل رھے یہودیوں کے دعوؤں کے مطابق یہ تمام تاریخی نوادرات عراق پر ان کے بابلی دور کے ہیں جب وہ عراق پر حکمران تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سنہء ۲۰۱۲ میں عراق سے امریکا اور پھر وہاں سے اسرائیل منتقلی کے بعد ان گراں قیمت نوادرات کو تل ابیب کے میوزیم میں پہنچا دیا گیا، اسی سال اسرائیل میں عراق سے چرائے گئے یہودیوں کے تاریخی نوادرات اور مخطوطات کی تل ابیب منتقلی کا جشن منایا گیا تھا جشن کی تقریبات یہودی آثار قدیمہ کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم العاد کے زیر اہتمام منائی گئی تھی۔ العاد نے عراق سے تاریخی نوادرات کی اسرائیل منتقلی کو ملت یہود کی تاریخی فتح قرار دیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply