• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • کرونا کا وحشت نا ک رُخ- حکمرانوں کی بے حسی کا شاخسانہ۔۔غازی سہیل خان

کرونا کا وحشت نا ک رُخ- حکمرانوں کی بے حسی کا شاخسانہ۔۔غازی سہیل خان

کورونا کی دوسری شدید   لہر نے اس وقت پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔بیماری بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے پہلی لہر میں تو تیس سال سے زائد عمر کے لوگوں کو یہ بیماری زیادہ متاثر کر رہی تھی لیکن اب یہ بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی بُری طرح اپنی لپیٹ  میں لے رہی ہے۔بھارت اس وقت امریکہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ کرونا سے متاثر ہونے والا ملک بن گیا ہے۔جہاں ہر روز تین لاکھ سے زائد افراد اس بیماری سے متاثر ہو رہے ہیں۔اس وقت متاثرین کے ساتھ ساتھ اموات کی تعداد بھی تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ اس بیماری کی پہلی لہرنے گذشتہ سال کی ابتدا ہی میں دنیا میں کہرام مچا دیا تھا۔

سماجی رابطہ کی  سائٹس  پہ دلدوزمناظر دیکھ کے آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔لاشوں کو ٹرکوں میں بھر بھر کے مشینوں کی مدد سے دفن کر دیا جاتا تھا۔ساری دنیا کا نظام تباہ و برباد ہو کے رہ گیا تھا۔دنیا کے طاقت ور ممالک کی معیشت فناہ ہو کے رہ گئی۔غریبوں،لاچاروں اور مجبوروں کی آہیں اور سسکیاں ابھی بھی ہمارے کانوں میں گھونج رہی ہیں۔ آج بھی ملک میں ویسے ہی مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔جہاں ایک طرف پہلی لہر سے سیکھ حاصل کرتے ہوئے دنیانے نظام ِ طب اور مزید احتیاطی تدابیر اپنانے کے لئے کڑی محنت کی جس کے سبب آج وہ اس مہلک وائرس کی دوسری لہر سے کسی حد تک محفوظ ہیں۔وہیں دوسری  طرف  دنیا میں بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں کے حکمرانوں کو عوام کی کوئی پرواہ نہیں۔

اس قہر سے گذشتہ سال کھربوں روپے اور ہزاروں انسانی جانوں کے ضائع  ہونے کے باوجود وہ اس سے کچھ سیکھ حاصل نہیں کر پائے جس کے سبب آج بھارت اس مہلک وبا کی شدید ترین لپیٹ میں آگیا ہے۔ایک طرف جہاں اس وائرس کی دوسری لہر ابھی اپنے قدم جما رہی رہی تھ تو دوسری اور اس ملک کے حکمران لاکھوں لوگوں کی جان کو خطرے میں ڈال کرانتخابی ریلیاں انجام دے رہے تھے اور وہیں مذہبی تہواروں کی کھلے عام عوامی سطح پہ منانے کی کھلی چھوٹ نے اس کو پھلنے میں آگ پر تیل کا کام کیا۔ دی گارڈین میں ایک مضمون نظروں سے گزراجس کی ابتدا میں کچھ اس طرح کے الفاظ درج تھے کہ ”بنگال میں بھارتی وزیر اعظم نے بڑے ہی فخریہ انداز میں چہرے پہ بغیر ماسک کے کہا کہ میں نے اتنا بڑا مجمع کبھی نہیں دیکھا اور اسی دن بھارت میں 234000/نئے کورونا وائرس کے مثبت کیس اور 1341/اموات ریکارڈ کی گئیں اور اس کے بعد سے یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔“ یہ مضمون لکھتے وقت بھارت میں یومیہ تین لاکھ سے زائد افراد کورونا مثبت آرہے ہیں اور ہزاروں قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں کی نذر ہو رہے ہیں۔بلکہ قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں لاشوں کے لئے جگہ بھی دستیاب نہیں رہی اور لواحقین کو اپنی لاشوں کو سپرد آگ کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار میں رہنا پڑ رہا ہے۔ س

ہفتہ روزہ دعوت نئی دہلی کے مطابق ”صورت حال یہ ہے کہ شہر لکھنو میں چتاؤں کو جلانے کے لئے لکڑی نہیں مل رہی ہے اور اب آخری رسوم کے لئے الیکٹرک چتا سے استفادہ کی خاطر لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کی میت کے ساتھ بارہ بارہ گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔کم و بیش یہی صورت حال دوسرے بڑے شہروں کی بھی ہے۔دوسری جانب ملک کے تمام ہی بڑے شہروں میں آکسیجن اور ضروری ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔دہلی کی وزیر اعلی نے تو کہہ دیا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں آکسیجن ختم ہو جائے گا۔ماہرین کا خیال ہے کہ دوسری لہر کے اس کورونا میں وینٹی لیٹر سے زیادہ آکسیجن کار گر ہوگا۔“اس ساری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو پہلے سے ہی اس بیمای کے پھلاؤ کو روکنے کے لئے تدابیر کرنی چائیں لیکن افسوس ایسا نہیں ہو پایا۔

اس نازک صورتحال میں بھی ملک کی سیاسی جماعتیں بنگال میں لاکھوں لوگوں کے اجتماع کو تعمیر و ترقی کے حسین خواب دیکھا رہے تھے اور وہیں کمبھ میلے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت سے ہندوستان میں یہ بیماری آج بے قابو ہوتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے۔ اس تبا ہ کُن لہر کے جواب میں اپنے ایک حیرت انگیز بیان میں ہندوؤں کے ایک لیڈر تیرتھ سنگھ نے انکشاف کیا ہے کہ اس میلہ پر ”گنگاماں کا آشرواد ہے اور گنگا کا بہتا پانی کورونا وائرس کو ختم کر دے گا اسی بیچ رپورٹیں یہ بھی آ رہی ہیں کہ مہا کمبھ میلے نے سائنسدانوں کو متفکر کر دیا ہے۔

ہفتہ روزہ دعوت کے مطابق ”ماہرین کو خدشہ ہے کہ زمین اور ہوا کے مقابلے میں گنگا کا بہتا پانی زیادہ تیزی کے ساتھ کورونا انفیکشن کو پھلائے گا۔یہ اندیشہ اگر درست نکل جائے تو مہا کمبھ آگے چل کے موت کا میلہ بن سکتا ہے۔اخبار میں مزید کہا گیا ہے کہ 12محققین کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سندیپ شکلاکے خیال میں خشک جگہ کے مقابلے میں یہ وائرس پانی میں زیادہ دیر تک سرگرم رہ سکتا ہے۔“ ایسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پہلے تو اس میلے کی اجازت دینی ہی نہیں چاہے تھی لیکن اس ملک کی بد نصیبی یہ کہ بی  جے پی کی حکومت والی ریاستی سرکار نے ان کو اس میلے کی اجازت دے کے لاکھوں لوگوں کی موت کے خطرے کا سامان پیدا کر دیا۔جس کے نتائج آج ہمیں ان اموات کی صورت میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔نہ آگے نہ جانے اس کے نتائج کتنے بھیانک نکلنے والے ہیں۔

جب کسی ملک میں حکمران اپنے اقتدار کی تقویت جنگ لڑ رہے ہوں تو اُن بے حس حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کا کام میڈیا کا ہوتا ہے لیکن کیا کہیں اس ملک کے میڈیا کو مسلمانوں سے  حسد کی آگ نے جلا کے راکھ کر دیا ہے۔گزشتہ سال کی اس وبائی بیماری کومسلمانوں کے کھاتے میں ڈال دیا تھا۔ اور اس وبائی لہر کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی قرار دیا گیا تھا اور اسی گودی میڈیا نے لگاتار کئی ماہ تک تبلیغی جماعت کے خلاف ملکی عوام کو بھڑکانے کا گھٹیا کام انجام دیا تھا،کورونا جہاد اور کورونا بم کی اصطلاحیں استعما ل کر کے اس میڈیا نے مسلمانوں کو ساری دنیا کے سامنے گمراہ کرنے کی ایک ناکام سازش رچائی تھیں۔اور آج اسی میڈیا کویہ ساری طوفان بدتمیزی نظر نہیں آرہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اس ساری پیچیدہ صورتحال کے بیچ جب میڈیا حقائق سے نظریں چُراتا ہو،حکمران اپنی اقتدار کی کرسیوں کے لئے بھوکے  ہو گئے ہوں اور ملک میں مجبوروں اور بے بسوں کو آکسیجن نہ ہونے کے سبب تڑپنا اور ترسنا پڑ رہا ہو تو ہمیں ایک تو خود احتیاط سے کام لینا چاہے اور ہمیں اس ساری صوتحال سے نپٹنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اجتماعی طور  پر ہمیں اس مصیبت کی گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہے۔ خاص طور سے مسلمانوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے محلہ اور گاؤں سطح پہ آکسیجن کی فراہمی کی کوشش بھی کرنی چاہے۔ لاک ڈاؤ  ن  لگنے کی صورت میں ہمیں ضرورت مندوں کا زیادہ ہی خیال رکھنا چاہے اپنے مقامی بیوت المال کو اور مضبوط  کرنے کی کوشش کرنی چاہے،مریضوں کے لئے دوائی کا انتظام کیا جانا چاہے اور ساتھ ساتھ سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پہ ہمیں عوام کو احتیاط کے لئے اُبھارنا چاہے۔ اگر کسی جگہ کسی کو گاڑی وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کا بھی انتظام بھی ہماری طرف سے ہونا چاہے یعنی ایثار اور روادی کے جذبے کے ساتھ ہمیں ان مشکل حالات میں بلا لحاظ مسلک، مذہب و جماعت ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہے۔اگر ہم اب بھی نہیں جاگے تو وہ وقت دور نہیں جب اس مہلک بیماری سے لاشوں کے انبار لگ جائیں گے۔اور ہم ماتم کے سوا کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہمارے حال پہ رحم کھائے آمین۔

Facebook Comments