اس حمام میں۔۔۔سعید چیمہ

غالب یاد آئے، شہرہ آفاق شاعر، ایک عرصے تک زمانہ جن کے سحر میں مبتلا رہا، اور اب بھی ہے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

حکومت اور کالعدم جماعت کے درمیان ایک اور معاہدہ طے پا چکا ہے، معاہدوں پہ معاہدے، شاید دنیائے تاریخ کے عظیم حکمران کو پھر کسی پیر نے بشارت دی ہے کہ معاہدوں پر بھی اجر ملتا ہے، یار لوگوں کے لبوں پر شکوہ یہ ہمیشہ رقصاں رہتا تھا کہ اسٹیبلیشمنٹ حکومت کو کنٹرول کرتی ہے، مگر اب تو دہر کی ہوائیں بھی پیغام دیتی ہیں کہ وہ زمانے گزر گئے جب پنڈی بوائز حکومتوں کی ہموار راہوں میں روڑے اٹکاتے تھے، اب تو حکومت پِیروں کے خوابوں کی محتاج ہے، جب تک خوابِ غفلت میں کسی واضح امر کا حکم نہ ہو، خان صاحب پالیسی بنانا تو کجا کسی سے محوِ گفتگو ہونا بھی پسند نہیں کرتے۔

مؤرخ جب تعصب کی تاریک عدسوں والی عینک اتار کر تاریخ مرتب کریں گے ،تو لاریب موجودہ وزیرِ اعظم کو یونانی افلاطونوں اور ایرانی رازیوں سے بڑا مدبر و فلسفی گردانیں گے، نوشیرواں عادل سے زیادہ فہم و فراست کا ملک خیال کریں گے، صلاح الدین ایوبی کی ہمت و شجاعت خان صاحب کے حوصلے کے آگے ہیچ ہو گی، آخر مؤرخ کیوں کر دیانت دار لیڈر سے تعصب روا رکھیں گے؟

موصوف کے کارنامے ہی ایسے ہیں کہ آنے والے پانچ سو برسوں تک یورپ و امریکہ میں آپ کے فرمودات، فیصلوں، اور پالیسیز کو جامعات میں بطور درس شامل کیا جاتا رہے گا، کارنامے ہی ایسے عظیم آپ نے سر انجام دئیے ہیں کہ دشمن بھی انگشتِ بدنداں ہیں، کالعدم تنظیموں سے معاہدے بھلے کہاں ہوتے تھے، یہ سہرا بھی آپ نے اپنے سر باندھا ہے، ریاسست کو للکارنے والوں کے ساتھ معاہدہ؟

چنگیز خان کی ریاسست ابھی نومولود ہے، اطراف کے ممالک کو  چنگیز اپنے وفد بھیج کر خیر سگالی کے پیغام روانہ کر رہا ہے، سینٹرل ایشیا میں ایک حکمران تھا، فراست جس کو چھو کر بھی نہ گزری تھی، دنیا جس کو خوارزم شاہ کے نام سے جانتی ہے، چنگیز نے جب اپنا وفد تحائف دے کر خوارزم شاہ کی عظیم سلطنت کی طرف روانہ کیا تو شاہ نے اپنے مدبر وزیروں کے کہنے پر چنگیز کے وزیروں کو قتل کیا اور تحائف دبا لیے، در  آں حالے کہ شاہ کو یہ گٹھیا فعل سر انجام دینے کی کچھ ضرورت نہ تھی، مگر مدبر وزیروں کی بات کون ٹال سکتا ہے۔۔

آج جب عمران خان کے وزرا کی اشکال اور فہم فراست دیکھتے ہیں تو گمان ہوتا کہ خوارازم شاہ کے نالائق و بدبخت وزیروں کی روحیں ان میں حلول کر گئی ہیں، وفد کا قتل چنگیز کی ریاست کو للکارنا تھا، آخر چنگیز نے خوارزم شاہ کے خلاف جنگ شروع کی، ممولہ شہباز سے لڑ گیا، چنگیز کی ریاست خوارزم شاہ کی ریاست کے مقابلہ میں ممولہ ہی تو تھی، جو نتائج پھر اس جنگ کے برآمد ہوئے وہ تاریخ کے اوراق سے معلوم کیے جا سکتے ہیں، جلال الدین اگر بہادری نہ دکھاتا تو شاید سینٹرل ایشیا کی ریاست خس و خاشاک کی طرح بکھر جاتی، جو بکھری بھی لیکن بکھرنے کا عمل جلال الدین کی بہادری کی بدولت سست ہو گیا، ریاست سب کچھ برداشت کر لیتی ہے مگر للکارنے والوں سے کب کسی ریاسست نے نرمی روا رکھی ہے، اس معاہدے نے دونوں فریقوں کو سرِ بازار بے لباس کیا ہے، آبرو جو تھوڑی بہت تھی وہ بھی جاتی رہی، غالب غلط بیانی کیسے کر سکتے تھے،  جس بے تُکے معاہدے پر فریقین نے رضا مندی ظاہر کی ہے، اس کے لیے خون بہانے کی کیا ضرورت تھی، ملک و قوم کے ناک میں دم کرنے کی تُک تھی، مگر جب عقل سلب کر لی جائی تو انسان مجذوب بن جاتا ہے، جس سے طفلانہ فعل ہی سر انجام پاتے ہیں، پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کرنا ایک طفلانہ فعل ہی تو تھا، جس کا نتیجہ کیا نکلنا تھا، اور کیا نکلے گا، پارلیمنٹ میں کو ن سا مدبر بیٹھتے ہیں جو اس مسئلے کے طوق سے گردن آزاد کروانے کے لیے کوئی معقول تجویز پیش کرتے۔

معلوم نہیں یہ بات کیسے ہمارے ڈی این اے میں شامل ہو گئی ہے کہ لمبی اور بے ڈھنگی  گفتگو کرنے والا اچھا مقرر ہوتا ہے، سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ رسالت مآبﷺ کا ایک معجزہ جامع کلمات بھی تھے، آپ ہمیشہ مختصر گفتگو فرمایا کرتے تھے تا کہ سننے والا تنگی محسوس نہ کرے، جب کبھی پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہو اور تقاریر کے بل بوتے پر میدانِ کارزار فتح کیے جا رہے ہوں تو فوراً چینل بدل دیا جاتا ہے کہ کون اپنی سماعتوں پر جبر کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس تحریر: شاہد خاقان عباسی کے پاکیزہ کلمات کے بعد بسترِ مرگ پر سسکتا ہوا حسنِ ظن بھی دم توڑ گیا ہے، بد تمیزی کے حمام میں سبھی بے لباس ہیں ، اگر اب بھی کوئی یقین نہ کرنا چاہے تو درویش کا اس میں کیا دوش!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply