دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے۔۔دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے

بھارت میں کرونا کی تباہی اور پاکستانی قوم کے ٹرینڈز
پیارے پڑھنے والو
پڑوسی ملک بھارت میں کرونا وائرس ایسا بے قابو ہوا کہ کشتوں کے پشتے لگا دئیے ۔ یومیہ کیسز اور شرح اموات کے اعتبار سے اب تک بھارت میں تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں ہسپتالوں میں جگہ نہیں شمشان گھاٹ کم پڑ گئے آکسیجن ناپید مریض چوراہوں اور سڑکوں پہ بے یارو مددگار پڑے ہیں بھارت کا ھیلتھ سسٹم Collapse کر چکا ہے
اس ساری صورتحال پر پاکستانی قوم حسب توقع رد عمل دیتی نظر آئی ہے
بنیادی طور پر ہم شدت پسند واقع ہوئے ہیں محبت ہو یا نفرت ہم انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں
ہمسائے میں کرونا وائرس سے ہونے والی تباہی پر بھی ہم مختلف حصوں میں بٹے نظر آ رہے ہیں
ایک طرف وہ لوگ ہیں جو دکھ ابتلا اور کرب کی اس گھڑی بھارتی عوام سے یک جہتی اور ہمدردی کے اظہار میں پیش پیش ہیں ھیش ٹیگ ٹریںنڈز ، بھارتی پرچم کے سٹیٹس دعائیہ پوسٹس سے فیس بک ٹویٹر بھرے پڑے ہیں
دوسری جانب غم وغصے اور انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے لوگ ہیں جو بھارت کی موجودہ صورتحال کو مکافات عمل اور قدرت کا انتقام قرار دیتے ہوئے مزید بد دعائیں دینے میں لگے ہیں
اب یہ دونوں گروپ اپنے اپنے رویوں کے اظہار میں انتہا پسندی اور جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دست وگرییان نظر آتے ہیں
بھارتی عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کا ٹریںنڈ چلانے والوں کو انتقامی گروہ کوسنے دے رہا ہے کہ آج تم لوگوں کو انسانیت کا درد ستائے جا رہا ہے اس وقت تم لوگ کہاں تھے جب بھارت کشمیر میں ظلم و ستم ڈھا رہا تھا
جبکہ پہلا گروہ دوسروں کو انسانیت کا درس دینے میں لگا ہے
اس طرح میرے ہم وطن آپس میں الجھ رہے ہیں
حقیقت تو یہ ہے کہ آج بھارت جس امتحان سے دوچار ہے کل کو کوئی  اور ملک بھی اس سے گذر سکتا ہے
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام جس کے ہم پیروکار ہیں امن و آشتی کا مذہب ہے سلامتی کا درس دیتا ہے اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحمت العالمین کے بلند مرتبے پر فائز ہیں
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حسن سلوک سے دلوں کو فتح کیا اور پتھر کھا کر بھی اپنے خون کے پیاسوں کو بد دعا نہیں دی بلکہ رب مہربان سے ان کے لئے ہدایت مانگی
اور یہی انسانیت کا تقاضا بھی کہ اس مشکل گھڑی ہم بھارتی عوام کو ہمسایہ ہونے کے ناطے نیک تمنائیں پہنچائیں اور حکومتی سطح پر ممکن ہو تو ہر طرح کی اخلاقی مدد کی پیشکش بھی
جو پاکستانی انسانی ہمدردی کے ناطے بھارتی عوام کو نیک تمناؤں کے پیغام بھیج رہے ہیں ان کی نیت پہ شک نہیں کرنا چاہئے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اس مشکل گھڑی بھارت کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیری عوام پر ڈھائے گئے مظالم کو بھول گئے ہیں
لیکن ہمیں محبت ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے
وہ دوست جو ” اتاولے” اور ” اگل وانڈے ” ہوئے جا رہے ہیں وہ یہ مت بھولیں کہ آپ کی وقتی مہربانی ہمدردی کے دو بول سن کر بھارت میں آپ کے لیے نفرت کا گلیشیئر پگھلنے لگے گا
مودی کا بھارت مسلمانوں بالخصوص پاکستان کے لئے کوئی  نرم گوشہ رکھ ہی نہیں سکتا اس کے پیچھے ھندوتوا اور اکھنڈ بھارت کی سوچ کار فرما ہے
یہ پرنالہ برسوں سے جہاں ہے وہیں رہے گا
بیش ٹیگ کے ٹرینڈ چلانے والے اس خوش گمانی میں مت رہیں کہ کرونا سے سنبھلتے ہی بھارتی نیتا آپ کے لئے پھول اور امن کی فاختائیں لئے بارڈر پہ کھڑے ہوں گے
دوستو
بس اتنی سی گذارش ہے کہ ہمیں متوازن رویوں کے اظہار کی ضرورت ہے
ہم اسلام کے ماننے والے ہیں اور نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی
اس گھڑی بھارتی عوام کو ہماری دعاؤں اور امداد کی ضرورت ہے اور یہی انسانیت کا تقاضا بھی
لیکن یاد رہے ایسا کرتے ہوئے ہمیں نہ تو اپنے ملکی وقار کو داو پہ لگانا ہے اور نہ ہی کسی بے حمیتی کا مظاہرہ
ہمیں ایک ذمہ دار قوم بن کر ردعمل دینا ہے
تاکہ دنیا جان لے
محافظ امن کے ہم ہیں
یہ دنیا کو دکھانا ہے

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply