بیٹا قبر نہیں بولتی۔۔محمد منیب خان

یہ جملہ کلیشے بن چکا ہے کہ وقت جیسا بھی ہو بہرحال گزر جاتا ہے۔ البتہ وقت کے سنگھاسن پر ایسے حالات و واقعات اپنے نشان ثبت کرتے ہیں کہ  وہ نشانات گزرے وقت کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ بلکہ بعض واقعات کا اثر تو اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ برسوں سوچکے جسم پہ کینسر کے کسی پھوڑے کی طرح تکلیف برقرا رکھتے ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے۔ کینسر کا ٹیومر نکال دیا جاتا ہے لیکن تکلیف اور اذیت کے آثار عمر بھر باقی رہتے ہیں۔ ایسے ہی گزرے وقت کے واقعات بھی تاریخ بن جاتے ہیں لیکن ان واقعات کے نتائج اور نتائج کی اذیت زندگی بھر کسی آسیب کی طرح پیچھا کرتے ہیں۔ ایسے ہی کئی واقعات سانحات ہوتے ہیں۔ جیسےکوئی کینسر جان لیوا ہوتاہے۔ سانحہ آسمانی بھی ہو سکتا ہے اور زمینی بھی۔ زمینی سانحہ برپا کرنے والوں کا مذہب ہوتا ہے البتہ متاثرین کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ متاثرہ فریق محض مظلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اب ایسا نہیں ہوتا، ہم مظلوم کا مذہب تلاش کر لیتے ہیں اور اسی حساب سےتعزیت اور افسوس کرتے ہیں۔

پاکستان میں 12 اپریل سے 20 اپریل کے دوران جو کچھ ہوا وہ نیا تو یقیناً نہیں تھا لیکن مجھ ایسے لوگ اب یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ ملک کب تک ایسے چلتا رہے گا۔ ریاست کب تک گروہوں کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے گی۔ اور اگر خدانخواستہ ملک کے مقتدر حلقوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ملک ایسے مختلف گرہوں اور حکومت کے درمیان پنگ پانگ کر کے ہی چلانا ہے تو عوام کو خبر ہو ایسے ملک نہیں چلا کرتے۔

ممکن ہے پاکستان میں دھرنوں کی روایت پرانی ہو اور میری پاکستانی سیاسی تاریخ بارے کم علمی اس کا احاطہ نہ کر پائی ہو۔ البتہ جہاں تک دھرنوں کی ففتھ جنریشن یعنی نئی روایت کا تعلق ہے تو اس کا اجرا علامہ طاہر القادری صاحب کے 2012 میں پیپلزپارٹیکی حکومت کے خلاف دیے گئے پہلے دھرنے سے ہوا تھا۔ سیاسی اختلاف کے جنگل میں بھٹکتی قوم کے لیے یہ بات باعث اطمینان تھی کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن بہرحال شعور کی آنکھ سے دیکھیں تو ایک گروہ چاہے وہ کتنا ہی انقلابی یا حق پہ کیوں نہ ہو ریاست اس سے کیوں معاہدہ کرے؟ اور معاہدہ بھی ایسا جو قابل عمل نہ ہو۔ بہت سے مختلف گرہوں کےکئی ایک جائز مطالبات ہو سکتے ہیں لیکن ان مطالبات کو منوانے اور ان کے بارے احتجاج کا طریقہ کار بھی مہذب ہونا چاہیے۔ ان مطالبات کو منوانےکے لیے کیے جانے والے اقدامات سے کسی سازش کی بو نہیں آنی چاہیے۔ اور ان اقدامات کے بعد شطرنج کےسیاسی بادشاہوں کو بالکل بے بس نظر نہیں آنا چاہیے۔

بشمول طاہر القادری کے دھرنے امسال تحریک لبیک کے دھرنے تک ملک میں کم و بیش چھ دھرنے ہو چکے ہیں۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے مشترکہ دھرنوں کے علاوہ باقی جتنے بھی دھرنے ہوئے، ان دھرنوں کے معاہدوں کو دیکھا جائے تو حکومتوں کی بے بسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جبکہ طاہر القادری اور عمران خان کی طرف سے دیے گئے مشترکہ دھرنے میں سے طاہر القادری تو انقلاب کو گلی گلی پہنچانے دو ماہ بعد واپس لوٹ گئے البتہ عمران خان کا دھرنہ سانحہ آرمی پبلک سکول پہ ختم ہوا۔ وہ ایک الگ المیہ اور منفردسانحہ تھا۔

اس کے علاوہ  اگر دھرنوں کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اس دوران حکومتوں کی بے بسی کے ساتھ ساتھ  قانون نافذ کرنےوالے سول اداروں کی حالت بھی قابل رحم رہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دھرنوں میں پیش آنے والے حالات و واقعات کے نتیجے میں سول ادارے بشمول پارلیمان کمزور ہوئے۔ کسی ملک کے سول ادارے ہر ایک واقعہ کے بعد کمزور ہو رہے ہوں تو اس ملک میں بظاہرطاقتور نظر آنا والے ادارے کی طاقت کھوکھلی ہوتی ہے۔ جب بھی ریاست کا کوئی ایک ادارہ بہت مضبوط ہو جائے اور باقی ادارےناتواں اور کمزور ہوں تو مضبوط ادارے کی مضبوطی دراصل کھوکھلی ہوتی ہے اور یہ کھوکھلا پن ملکی بقا کے راست متناسب ہوتا ہے۔لہذا اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مجموعی طور پہ اداروں کی مضبوطی ہی مضبوط ریاست اور مضبوط حکومت کی ضمانت ہوتی ہے۔اور ایسی حکومت ہی عوام کو قانون کے نفاذ اور بنیاد کی انسانی حقوق بارے ذہنی اطمینان دے سکتی ہے۔

ماضی کے دھرنوں کے نتیجے میں پارلیمان کمزور ہوئی۔ کبھی یوسف رضا گیلانی کی عدالت سے نااہلی کو دھرنا پارٹی نے اپنی کامیابی گردانا اور کبھی پارلیمان میں موجود ہوتے ہوئے ایک سیاسی جماعت نے دھرنہ دیا اور اس جماعت کے سربراہ کو آرمی چیف نے شرف ملاقات بھی بخشا۔ اس پہ ہی وقت تھم جاتا تو بات تھی۔ 2018 کے دھرنے میں ایک گروہ کے احتجاج کے نتیجے میں نہ صرف ایک وفاقی وزیر مستعفی ہوئے بلکہ پارلیمان کو اپنی ترمیم واپس لینا پڑی اور دھرنے کے لیے آئے “اپنے” لوگوں کو ایک ایک ہزارمشاہرہ دے کر واپس روانہ کرنا پڑا۔ اسی تسلسل میں دیکھیں تو موجودہ دھرنے کے نتیجے میں بھی پارلیمان کمزور ہوا۔ پارلیمان کی کمزوری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ حکومت وقت کو ایک ایسے گروہ سے نہ صرف مذاکرات کرنے پڑتے ہیں جس گروہ کو وہ مذاکرات سے چند روز قبل کالعدم قرار دے چکے ہوتے ہیں۔ اور یہ مذاکرات عوام کے منتخب نمائندے کرتے ہیں۔ ان مذاکرات کے نتیجےمیں کم و بیش ایسا ہی ایک نیا معاہدہ ہوتا ہے جیسا معاہدہ اس گروہ سے پہلے موجود تھا اور پھر جو نئے معاہدے پہ عملدارآمد ہوتاہے تو سو پیاز اور سو جوتوں والے محاورے کو مجسم کر دیتا ہے۔  اگر یہی کچھ ہونا تھا تو پھر سارا جھگڑا کس بات کا تھا؟ مزید اس پہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب اس سارے جھگڑے کے نتیجے میں جن سانحات نے جنم لیا ہے انکا ذمہ دار کون ہے؟

حالیہ دھرنے میں تین پولیس والے جاں بحق  ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اسی طرح دھرنا دینے والے گروہ کے بے تحاشا لوگ زخمی  ہوئے اور کئی جاں بحق ہوئے۔ مجھے دھرنے دینے  والے گروہ  کے مرنے والوں کی اصل تعداد کا علم نہیں البتہ جو بھی ماورائے قانون ماراجائے وہ غلط ہے اور حکومت ہی اس کے بارے میں جوابدہ ہوتی ہے۔ البتہ جو تین پولیس کے جوان جاں  بحق ہوئے ان میں سے ایک کےمعصوم بچے کی ویڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی۔ بچہ پھولوں سے لدی تازہ قبر پہ پھول جیسی معصومیت سے اپنے باپ کو پکارتا ہےاور پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ “بابا” نہیں بولتے۔ویڈیو بھی مختصر تھی لیکن طویل بھی ہوتی تو اس سے آگے دیکھنے کی ہمت کون کر سکتا تھا؟ وہ معصوم کس سے پوچھے کہ اس کے باپ کا خون کس کے ہاتھ پہ ہے؟ ابھی محض ہفتہ دس دن ہی گزرے ہیں اوردھرنا، کالعدم گروہ اور وہ سارا منظرنامہ پس پشت جا چکا ہے۔ حلانکہ معاہدے کے نتیجے میں پارلیمان میں پیش کی جانے والی قرارداد بھی بوگس ہے۔ لیکن سوچیں، اس بچے پہ روز کیا بیتتی ہو گی۔ اس کی ماں روزانہ کس کرب سے گزرتی ہوگی۔ اسے روز کون بتاتا ہوگا کہ بیٹا قبر نہیں بولتی۔ اور یہاں پارلیمان بھی ایک قبر ہے اور حکمران بھی مجسم قبر۔ لیکن پارلیمان اور سیاستدان ایسےہی ظاہر کریں گے جیسے روزِ محشر کا میزان انہوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ البتہ جنہوں نے میزان اٹھایا ہوا ہے وہ عدل نہیں کر پا رہے۔

یوں تو منور رانا کی غزل کا آخری شعر ہی مضمون کا حصہ بنانا تھا لیکن صاحب ذوق قارئین کے لیے پوری غزل شامل کر رہا ہوں۔

خون رلوائے گی یہ جنگل پرستی ایک دن

سب چلے جائیں گے خالی کر کے بستی ایک دن

چوستا رہتا ہے رس بھونرا ابھی تک دیکھ لو

پھول نے بھولے سے کی تھی سرپرستی ایک دن

دینے والے نے طبیعت کیا عجب دی ہے اسے

ایک دن خانہ بدوشی گھر گرہستی ایک دن

کیسے کیسے لوگ دستاروں کے مالک ہو گئے

بک رہی تھی شہر میں تھوڑی سی سستی ایک دن

تم کو اے ویرانیو ں شاید نہیں معلوم ہے

ہم بنائیں گے اسی صحرا کو بستی ایک دن

روز و شب ہم کو بھی سمجھاتی ہے مٹی قبر کی

Advertisements
julia rana solicitors

خاک میں مل جائے گی تیری بھی ہستی ایک دن

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply